Muslim:
The Book of Suckling
(Chapter: It is permissible for a wife to give her turn to a co-wife)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1465.
محمد بن بکر نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابن جریج نے خبر دی، کہا: مجھے عطاء نے خبر دی، کہا: سرف کے مقام پر ہم حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے جنازے میں حاضر ہوئے تو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا: یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ ہیں۔ جب تم ان کی چارپائی اٹھاؤ تو اس کو ادھر اُدھر حرکت دینا نہ ہلانا، نرمی (اور احترام) سے کام لینا، امر واقع یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاں تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ کے لیے باری تقسیم کرتے اور ایک کے لیے تقسیم نہ کرتے تھے۔ عطاء نے کہا: جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم باری نہیں دیتے تھے وہ حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں۔
تشریح:
فوائدومسائل
یہ عطا یا ابن جریج کا وہم ہے۔ حقیقت میں وہ حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں جنہوں نے اپنی باری حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دی تھی جیسا کہ اس باب کی پہلی حدیث میں وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ امام مسلم نے اُن احادیث کے بعد اس حدیث کو بیش کر کے اشارہ کیا ہے کہ یہ ایک وہم ہے۔
رضاعت دودھ پلانے کو کہتے ہیں حقیقی ماں کے علاوہ بھی بچہ جس عورت کا دودھ پیتا ہے وہ اس کا جز بدن بنتا ہے اس سے بچے کا گوشت پوست بنتا ہے،اس کی ہڈیاں نشونما پاتی ہیں وہ رضاعت کے حوالے سے بچے کی ماں بن جاتی ہے اس لیے اس کے ذریعے سے دودھ پلانے والی عورت کا بچے کے ساتھ ایسا رشتہ قائم ہوتا ہے جس کی بنا پر نکاح کا رشتہ حرام ہو جاتا ہے۔رضاعت کی بنا پر یہ حرمت دودھ پلانے والی عورت ، اس کی اولاد،اس کے بہن بھائیوں اور ان کی اولادوں تک اسی طرح پہنچتی ہے جس طرح ولادت کی بنا پر پہنچتی ہے عورت کا دودھ تب اترتا ہے جب بچہ ہو حمل اور بچے کی پیدائش کے ساتھ ، دودھ اترنے کے عمل میں خاوند شریک ہوتا ہے اس لیے دودھ پینے والے بچے کی رضاعت کا رشتہ ،دودھ پلانے والی ماں کے خاوند اور آگے اس کے خونی رشتوں تک چلا جاتا ہے وہ بچے یا بچی کا رضاعی باپ ہوتا ہے ۔ اس کا بھائی چچا ہوتا ہے اس کا والد دادا ہوتا ہے اس کی والدہ دادی ہوتی ہے اس کی بہن پھوپھی ہوتی ہے علی ھٰذا القیاس ان تمام کی حرمت کا رشتہ اسی بچے کا قائم ہوتا ہے جس نے دودھ پیا یا براہِ راست اس کی اولاد کا رضاعت نکاح کی حرمت کا سبب بنتی ہے میراث قصاص،دیت کے سقوط اور گواہی رد ہونے کا سبب نہیں بنتی اس حصے میں امام مسلم نے رضاعت کے علاوہ نکاح، خاندان اور خواتین کی عادت کو حوالے سے کچھ دیگر مسائل بھی بیان کیے ہیں کتاب الرضاع حقیقت میں کتاب النکاح ہی کا ایک ذیلی حصہ ہے جس میں رضاعت کے رشتوں کے حوالے سے نکاح کے جواز اور عدم جواز اور عدم جواز کے مسائل بیان ہوئے ہیں اس کا آخری حصہ کتاب النکاح کا تتمہ ہے۔
محمد بن بکر نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابن جریج نے خبر دی، کہا: مجھے عطاء نے خبر دی، کہا: سرف کے مقام پر ہم حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے جنازے میں حاضر ہوئے تو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا: یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ ہیں۔ جب تم ان کی چارپائی اٹھاؤ تو اس کو ادھر اُدھر حرکت دینا نہ ہلانا، نرمی (اور احترام) سے کام لینا، امر واقع یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاں تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ کے لیے باری تقسیم کرتے اور ایک کے لیے تقسیم نہ کرتے تھے۔ عطاء نے کہا: جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم باری نہیں دیتے تھے وہ حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں۔
حدیث حاشیہ:
فوائدومسائل
یہ عطا یا ابن جریج کا وہم ہے۔ حقیقت میں وہ حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں جنہوں نے اپنی باری حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دی تھی جیسا کہ اس باب کی پہلی حدیث میں وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ امام مسلم نے اُن احادیث کے بعد اس حدیث کو بیش کر کے اشارہ کیا ہے کہ یہ ایک وہم ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عطاء بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ساتھ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے جنازے میں مقام سَرف میں حاضر تھے۔ تو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا: یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہیں، تو جب تم ان کی چارپائی کو اٹھاؤ تو اسے جھٹکے نہ دینا اور نہ ہی زیادہ حرکت دینا، اور آرام و سکون کے ساتھ چلنا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاں تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ کو باری دیتے تھے اور ایک کو باری نہیں دیتے تھے۔ عطاء کہتے ہیں، جس کو باری نہیں دیتے تھے وہ صفیہ بنت حیی بن اخطب رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خالہ تھیں۔ سب ازواج کے بعد عمرۃ القضاء 7 ہجری میں ذوالقعدہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام سرف پر ان سے شادی کی تھی۔ پہلے ان کا نام برہ تھا۔ سرف جو مکہ مکرمہ سے نو (9) میل یا اس سے کم وبیش فاصلہ پر ہے، ہی پر سب ازواج سے آخر میں 61ہجری میں وفات پائی۔ لیکن یہ عطاء کا وہم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کوباری نہیں دیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کی باری مقرر فرمائی تھی۔ آخر میں سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی باری حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ہبہ کردی تھی، لیکن ان کی باری تو بہرحال تھی۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس بھی جاتے تھے۔ لیکن رات عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں ٹھہرتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Ata related that when they were with Ibn 'Abbas (RA) at the funeral of Maimuna In Sarf, Ibn 'Abbas (RA) said: This is the wife of Allah's Apostle (ﷺ) ; so when you lift her bier, do not shake her or disturb her, but be gentle, for Allah's Messenger (ﷺ) had nine wives, with eight of whom he shared his time, but to one of them, he did not allot a share. 'Ata said: The one to whom he did not allot a share of time was Safiyya, daughter of Hayy bin Akhtab.