Muslim:
The Book of Transactions
(Chapter: The invalidity of Mulamasah and Munabadhah transactions)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1512.
یونس نے مجھے ابن شہاب سے خبر دی، انہوں نے کہا: مجھے عامر بن سعد بن ابی وقاص نے بتایا کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں دو قسم کی بیعوں اور دو قسم کے پہناووں سے منع فرمایا: بیع میں آپﷺ نے ملامسہ اور منابذہ سے منع فرمایا۔ ملامسہ یہ ہے کہ کوئی آدمی دوسرے کے کپڑے کو دن میں یا رات میں اپنے ہاتھ سے چھوئے اور اس کے علاوہ اسے الٹ کر بھی نہ دیکھے۔ اور منابذہ یہ ہے کہ کوئی آدمی دوسرے آدمی کی طرف اپنا کپڑا پھینکے اور دوسرا اس کی طرف اپنا کپڑا پھینکے اور بغیر دیکھے اور (بغیر حقیقی) رضامندی کے یہی ان کی بیع ہو۔
تشریح:
فوائد ومسائل
(1) ملامسہ، لمس (چھونے) سے ہے اور منابذہ، نبذ (پھینکنے) سے ہے۔ خریدوفروخت سوچ سمجھ کر، مکمل رضامندی سے کیے ہوئے تبادلے کا نام ہے۔ جوئے کی طرح آنکھیں بند کر کے قسمت پر بھروسہ کرنے کا نام نہیں ہے۔ بیع کے جاہلی طریقوں میں جوئے کا عنصر موجود ہے۔ آپ ﷺ نے ان کو ختم کر کے حقیقی تجارت کو فروغ دینے کا اہتمام فرمایا۔ (2) خریدنے اور بیچنے والے دونوں کی مکمل رضامندی کے لیے ضروری ہے کہ چیز، اس کی قیمت کو اچھی طرح دیکھنے، پرکھنے، اس کی قیمت کا اندازہ کرنے اور اس کے بعد فیصلے کرنے کا حوالے سے کسی طرح کی رکاوٹ موجود نہ ہو۔ اس تمام عمل کے لیے فریقین کو پرکھنے سوچنے اور سمجھنے کا پورا موقع ملے۔ اس موقع کو محدود یا کسی غیر منصفانہ شرط کے ذریعے سے ختم نہ کیا گیا ہو۔
تجارت انسانی معاشرے کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ انسانوں کو ہر وقت مختلف اشیاء کی ضرورت رہتی ہے۔ وہ اس کی تمام اشیاء بیک وقت حاصل کر کے ان تمام کا ذ خیرہ نہیں کر سکتا۔ بعض اشیاء کو زیادہ مقدار میں ذخیرہ کیا ہی نہیں جاسکتا، اس لیے ایسے لوگوں کی موجودگی جومختلف اشیاء کو لائیں ، رکھیں اور ضرورت مندوں کو قیمت مہیا کر میں ناگزیر ہے۔
خرید وفروخت کے معاملات اگر انصاف پر مبنی ، دھوکے اور فریب سے پاک اور ضرر سے محفوظ ہوں تو یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ لیکن ہمیشہ ایسا ہوتا نہیں۔ انسانی معاشرے میں تجارت کی تاریخ جتنی پرانی ہے، تجارت کی آڑ میں لوگوں کے استحصال کی تاریخ بھی تقریبا اتنی ہی پرانی ہے۔ اسلام کا مشن یہی ہے کہ انسانی زندگی کے تمام معاملات عدل و انصاف، انسانوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور اجتمائی اور انفرادی فلاح و بہبود پر استوار کیے جائیں۔ انسانی تاریخ میں تجارت کو سب سے پہلے ان بنیادوں پر استوارکرنے کا سہرا اسلام کے سر ہے۔
بعثت سے پہلے عرب سمیت پوری دنیا میں ایسے سودوں ، خرید و فروخت کی ایسی صورتوں کی بھر مارتھی جن میں کسی نہ کسی فریق کو شدید نقصان اٹھانا پڑتا تھا۔ خرید وفروخت کے طریقوں میں دھوکا شامل تھا۔ اس حوالے سے کیے گئے معاہدوں میں فریب موجود تھا۔ قیمت اور اشیاء اجناس، منفعت یا خدمات جن کا لین دین ہوتا تھا ، ان سب میں فریب شامل تھا۔ عرب میں فریب پرمبی بیع کی جو صورتیں رائج تھیں ان میں ملامسہ اور منابذہ بھی تھیں ۔ اگر خر یدا غور کیے بغیر کپڑے کو چھو لے تو بیع پکی ہوگئی ، مثلا: تم اپنا کپڑا میری طرف پھینک دو، میں اپنا کیر تمھاری طرف پھینک دیتا ہوں سودا کیا ہو گیا، جس کی جو قسمت اسے مل جائے گا۔ میں ایک کنگری پھینکوں گا جس کپڑے کی جس لمبائی تک جائے گی، وہ تمھارا ‘‘ اس میں سوچنےسمجھنے کی گنجائش نہ صحیح پیمائش کی ۔ وہ ایسی چیزوں کی بیع بھی کر لیتے تھے جو ابھی وجود میں نہیں آئیں، اس کا دیکھنا مکن نہ رکھنا ، مثلا: یہ کہ اونٹنی بچہ دے گی ، وہ حاملہ ہو کر پھر بچہ دے گی وہ تمھارا ہوگا ۔ یہ حبل الحبلہ بیع کہلاتی تھی۔
مصنوعی طریقے سے قیمت بڑھانے کے حیلے کیے جاتے تھے۔ اب بھی کیے جاتے ہیں۔ فرضی گا ہک کھڑےکر کے ضرورت کی چیزوں کی قیمتیں بڑھائی جاتی تھیں ۔ اسے نجش کہا جاتا تھا۔ اب اشتہار بازی کے ذریعے باور کرایا جاتا ہے کہ فلاں چیز آپ کی شدید ضرورت ہے۔ مصنوعی قلت پیدا کر کے قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ خریدنے میں بھی فریب کا چلن تھا۔ راستے میں جا کر، منڈی کے بھاؤ سے بے خبر مال لانے والوں سے اشیاء خریدنا ، جوشخص منڈی کے ریٹ پر اپنی اشیاء فروخت کرنا چاہتا ہے، اسے زیادہ قیمت کا لالچ دے کر فروخت کی ذمہ داری لینا اور قیمتیں بڑھا کر خود فائدہ اٹھانا اور مہنگائی پیدا کرتا۔ دودھ دینے والے جانورکے تھنوں میں دودھ روک کر زیادہ قیمت پر بیچنا، اشیاءکو تولے یا نا پے بغیر ان کا سودا کر لینا ، باغ کے درختوں پر بور لگتے ہیں یا اس سے بھی پہلے ان کے پھل کا سودا کر دیتا چاہیے بورہی نہ لگے،یالگے تو آندھی یا بیماری وغیرہ کا شکار ہو کر ضائع ہو جائے ۔ فصل پکنے کے بعد اناج اکٹھا کر کے وزن باماپ سے بچنے کی بجائے کھڑی فصل کو اناج کی متعین مقدار کے عوض بیچ دینا، چیز کا عیب چھپا کر دھوکے سےبیچ دینا، غیر منصفانہ طریقے سے زمین کو اجرت پر دینا، یہ سب دھوکے اور فریب کی صورتیں معاشرے میں رائج تھیں۔ رسول اللہ ﷺنے فریب مبنی لین دین کی تمام صورتوں کو حرام قرار دیا۔ دیکھ بھال کر، پرکھ کر اور تسلی سے قیمت چکا کر سودا کرنےکے طریقے رائج فرمائے ۔ لین دین کرنے والے فریقوں کو سودا ہو جانے کے بعد بھی مناسب وقت تک اس کی واپسی کا اختیار دیا۔ عیب اور دھوکے کی بنا پر پتہ لگنے تک واپسی کو یقینی بنایا ۔ غرض چیز، قیمت، خریدار فروخت کرنے والے ، خرید و فروخت کی صورت اور شرائط ، تمام اجزائےبیع کے حوالے سے دیانت و امانت، شفافیت، حقوق کی پاسداری اور کسی بھی غلطی کے ازالے کو یقینی بنایا۔ ان اصلاحات کے بعد دنیا بھر میں مسلمانوں کا انداز تجارت انتہائی مقبول ہو گیا۔ مسلمان تاجر اسلامی معاشرے کے نقیب بن گئے اور عالمی تجارت کو فروغ حاصل ہوا۔ پوری دنیا نے ان میں سے اکثر اصولوں کو تجارت کی بنیاد کے طور پر اپنا لیا۔ بعض معاشروں نے البتہ سود اور حرام چیزوں کی خرید وفروخت کونئی سے نئی صورتوں میں نہ صرف جاری رکھا بلکہ ان کے ذریعے سے دنیا بھر کا استحصال کیا اور ابھی تک جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ لین دین کے پورے نظام کا بغور جائزہ لیا جائے تو انصاف اور اجتماعی فلاح کی ضمانت انہی اصولوں پر عمل کرنے سے حاصل ہو سکتی ہے جو اسلام نے رائج کیے ہیں ۔ افسوں کہ خود مسلمان انصاف اور فلاح کے ان اصولوں کوچھوڑ کر ظالمانہ طریقوں پر عمل پیرا ہو گئے اور تجارت میں بھی شدید پسماندگی کا شکار ہو گئے ۔ دوسرے معاشروں نے جس حد تک دیانت و امانت کے اسلامی اصولوں کو اپنایا اسی نسبت سے وہ آگے بڑھ گئے۔ صحیح مسلم کی کتاب البیوع کے بعد کتاب المساقاة والمزارعد بھی لین دین کے اصولوں پر محیط ہے۔
یونس نے مجھے ابن شہاب سے خبر دی، انہوں نے کہا: مجھے عامر بن سعد بن ابی وقاص نے بتایا کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں دو قسم کی بیعوں اور دو قسم کے پہناووں سے منع فرمایا: بیع میں آپﷺ نے ملامسہ اور منابذہ سے منع فرمایا۔ ملامسہ یہ ہے کہ کوئی آدمی دوسرے کے کپڑے کو دن میں یا رات میں اپنے ہاتھ سے چھوئے اور اس کے علاوہ اسے الٹ کر بھی نہ دیکھے۔ اور منابذہ یہ ہے کہ کوئی آدمی دوسرے آدمی کی طرف اپنا کپڑا پھینکے اور دوسرا اس کی طرف اپنا کپڑا پھینکے اور بغیر دیکھے اور (بغیر حقیقی) رضامندی کے یہی ان کی بیع ہو۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
(1) ملامسہ، لمس (چھونے) سے ہے اور منابذہ، نبذ (پھینکنے) سے ہے۔ خریدوفروخت سوچ سمجھ کر، مکمل رضامندی سے کیے ہوئے تبادلے کا نام ہے۔ جوئے کی طرح آنکھیں بند کر کے قسمت پر بھروسہ کرنے کا نام نہیں ہے۔ بیع کے جاہلی طریقوں میں جوئے کا عنصر موجود ہے۔ آپ ﷺ نے ان کو ختم کر کے حقیقی تجارت کو فروغ دینے کا اہتمام فرمایا۔ (2) خریدنے اور بیچنے والے دونوں کی مکمل رضامندی کے لیے ضروری ہے کہ چیز، اس کی قیمت کو اچھی طرح دیکھنے، پرکھنے، اس کی قیمت کا اندازہ کرنے اور اس کے بعد فیصلے کرنے کا حوالے سے کسی طرح کی رکاوٹ موجود نہ ہو۔ اس تمام عمل کے لیے فریقین کو پرکھنے سوچنے اور سمجھنے کا پورا موقع ملے۔ اس موقع کو محدود یا کسی غیر منصفانہ شرط کے ذریعے سے ختم نہ کیا گیا ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو بیعوں اور دو لباسوں سے منع فرمایا، بیع ملامسہ سے اور بیع منابذہ سے اور بیع ملامسہ یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کا کپڑا، دن یا رات کو اپنے ہاتھ سے چھو لے اور یہی پلٹنا تصور ہو، اور بیع منابذہ یہ ہے کہ ایک شخص اپنا کپڑا دوسرے کی طرف پھینک دے اور دوسرا شخص اپنا کپڑا اس کی طرف پھینک دے اور اس طرح بغیر دیکھے اور بغیر رضا مندی کے ہی بیع ہو جائے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے، جو چیز سامنےموجود نہیں ہے اس کی بیع جائز نہیں ہے، ائمہ کے اس بیع کے بارے میں تین نظریات ہیں: (1) غائب چیز کی بیع جائز نہیں ہے۔ امام شافعی کا قول یہی ہے۔ (2) غائب چیزکی بیع جائز ہے اور دیکھنے کے بعد خریدارکو رکھنے یا چھوڑنے کا اختیار ہوگا۔ احناف ائمہ کا قول یہی ہے اور امام مالک اور امام شافع کی طرف بھی یہ قول منسوب کیا گیا ہے۔ (3) جب غائب چیز کی صحیح صحیح صورت حال یعنی اس کی کیفیت وحالت بیان کر دی جائے تو بیع جائز ہے اور اگر چیز بیان کردہ صفت اورحالت کے مطابق نہ ہو تو پھر خریدار کو رکھنے یا چھوڑنے کا اختیار ہو گا، امام احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے۔ امام مالک اور امام شافعی کا ایک قول بھی یہی ہےاور یہی قول صحیح معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس میں غرر اور قمار کا خطرہ نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Sa'id al-Khudri (RA) reported: Allah's Messenger (ﷺ) forbade us (from), two types of business transactions and two ways of dressing. He forbade Mulamasa and Munabadha in transactions. Mulamasa means the touching of another's garment with his hand, whether at night or by day, without turning it over except this much. Munabadha means that a man throws his garment to another and the other throws his garment, and thus confirming their contract without the inspection of mutual agreement.