Muslim:
The Book of Transactions
(Chapter: Ruling on selling Al-Musarrah (An animal in whose udder milk has been allowed to accumulate))
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1524.
موسیٰ بن یسار نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے دودھ روکی گئی بھیڑ (یا بکری) خرید لی تو وہ اسے لے کر گھر واپس آئے اور اس کا دودھ نکالے، اگر وہ اس کے دودھ دینے سے راضی ہو تو اسے رکھ لے، ورنہ کھجور کے ایک صاع سمیت اسے واپس کر دے۔‘‘
تشریح:
فوائدومسائل:
جانور کو وقت پر دوہنے کے بجائے زیادہ وقت کے لیے دودھ اس کے تھنوں میں روکا جائے تو دیکھنے میں یہی معلوم ہو گا کہ یہ بہت دودھ دینے والا جانور ہے۔ اگر کوئی اس طرح کا جانور خرید لاتا ہے تو حدیث کی روسے زیادہ سے زیادہ تین دنوں تک خریدارکو اختیار رہتا ہے کہ اگر وہ سمجھے کہ زیادہ دودھ ظاہر کرنے کے لیے اس جانور کا دودھ روکا گیا تھا تو وہ اسے واپس کر دے۔ اس کے ساتھ چونکہ اس نے دودھ استعمال کیا ہے، اس لیے کھجور (جو اس وقت کا وہاں کا عام کھانا تھا) کا ایک صاع بھی دے دے جو تقریباً سوا دو کلو بنتا ہے، اور اپنی قیمت واپس کر لے۔
تجارت انسانی معاشرے کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ انسانوں کو ہر وقت مختلف اشیاء کی ضرورت رہتی ہے۔ وہ اس کی تمام اشیاء بیک وقت حاصل کر کے ان تمام کا ذ خیرہ نہیں کر سکتا۔ بعض اشیاء کو زیادہ مقدار میں ذخیرہ کیا ہی نہیں جاسکتا، اس لیے ایسے لوگوں کی موجودگی جومختلف اشیاء کو لائیں ، رکھیں اور ضرورت مندوں کو قیمت مہیا کر میں ناگزیر ہے۔
خرید وفروخت کے معاملات اگر انصاف پر مبنی ، دھوکے اور فریب سے پاک اور ضرر سے محفوظ ہوں تو یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ لیکن ہمیشہ ایسا ہوتا نہیں۔ انسانی معاشرے میں تجارت کی تاریخ جتنی پرانی ہے، تجارت کی آڑ میں لوگوں کے استحصال کی تاریخ بھی تقریبا اتنی ہی پرانی ہے۔ اسلام کا مشن یہی ہے کہ انسانی زندگی کے تمام معاملات عدل و انصاف، انسانوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور اجتمائی اور انفرادی فلاح و بہبود پر استوار کیے جائیں۔ انسانی تاریخ میں تجارت کو سب سے پہلے ان بنیادوں پر استوارکرنے کا سہرا اسلام کے سر ہے۔
بعثت سے پہلے عرب سمیت پوری دنیا میں ایسے سودوں ، خرید و فروخت کی ایسی صورتوں کی بھر مارتھی جن میں کسی نہ کسی فریق کو شدید نقصان اٹھانا پڑتا تھا۔ خرید وفروخت کے طریقوں میں دھوکا شامل تھا۔ اس حوالے سے کیے گئے معاہدوں میں فریب موجود تھا۔ قیمت اور اشیاء اجناس، منفعت یا خدمات جن کا لین دین ہوتا تھا ، ان سب میں فریب شامل تھا۔ عرب میں فریب پرمبی بیع کی جو صورتیں رائج تھیں ان میں ملامسہ اور منابذہ بھی تھیں ۔ اگر خر یدا غور کیے بغیر کپڑے کو چھو لے تو بیع پکی ہوگئی ، مثلا: تم اپنا کپڑا میری طرف پھینک دو، میں اپنا کیر تمھاری طرف پھینک دیتا ہوں سودا کیا ہو گیا، جس کی جو قسمت اسے مل جائے گا۔ میں ایک کنگری پھینکوں گا جس کپڑے کی جس لمبائی تک جائے گی، وہ تمھارا ‘‘ اس میں سوچنےسمجھنے کی گنجائش نہ صحیح پیمائش کی ۔ وہ ایسی چیزوں کی بیع بھی کر لیتے تھے جو ابھی وجود میں نہیں آئیں، اس کا دیکھنا مکن نہ رکھنا ، مثلا: یہ کہ اونٹنی بچہ دے گی ، وہ حاملہ ہو کر پھر بچہ دے گی وہ تمھارا ہوگا ۔ یہ حبل الحبلہ بیع کہلاتی تھی۔
مصنوعی طریقے سے قیمت بڑھانے کے حیلے کیے جاتے تھے۔ اب بھی کیے جاتے ہیں۔ فرضی گا ہک کھڑےکر کے ضرورت کی چیزوں کی قیمتیں بڑھائی جاتی تھیں ۔ اسے نجش کہا جاتا تھا۔ اب اشتہار بازی کے ذریعے باور کرایا جاتا ہے کہ فلاں چیز آپ کی شدید ضرورت ہے۔ مصنوعی قلت پیدا کر کے قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ خریدنے میں بھی فریب کا چلن تھا۔ راستے میں جا کر، منڈی کے بھاؤ سے بے خبر مال لانے والوں سے اشیاء خریدنا ، جوشخص منڈی کے ریٹ پر اپنی اشیاء فروخت کرنا چاہتا ہے، اسے زیادہ قیمت کا لالچ دے کر فروخت کی ذمہ داری لینا اور قیمتیں بڑھا کر خود فائدہ اٹھانا اور مہنگائی پیدا کرتا۔ دودھ دینے والے جانورکے تھنوں میں دودھ روک کر زیادہ قیمت پر بیچنا، اشیاءکو تولے یا نا پے بغیر ان کا سودا کر لینا ، باغ کے درختوں پر بور لگتے ہیں یا اس سے بھی پہلے ان کے پھل کا سودا کر دیتا چاہیے بورہی نہ لگے،یالگے تو آندھی یا بیماری وغیرہ کا شکار ہو کر ضائع ہو جائے ۔ فصل پکنے کے بعد اناج اکٹھا کر کے وزن باماپ سے بچنے کی بجائے کھڑی فصل کو اناج کی متعین مقدار کے عوض بیچ دینا، چیز کا عیب چھپا کر دھوکے سےبیچ دینا، غیر منصفانہ طریقے سے زمین کو اجرت پر دینا، یہ سب دھوکے اور فریب کی صورتیں معاشرے میں رائج تھیں۔ رسول اللہ ﷺنے فریب مبنی لین دین کی تمام صورتوں کو حرام قرار دیا۔ دیکھ بھال کر، پرکھ کر اور تسلی سے قیمت چکا کر سودا کرنےکے طریقے رائج فرمائے ۔ لین دین کرنے والے فریقوں کو سودا ہو جانے کے بعد بھی مناسب وقت تک اس کی واپسی کا اختیار دیا۔ عیب اور دھوکے کی بنا پر پتہ لگنے تک واپسی کو یقینی بنایا ۔ غرض چیز، قیمت، خریدار فروخت کرنے والے ، خرید و فروخت کی صورت اور شرائط ، تمام اجزائےبیع کے حوالے سے دیانت و امانت، شفافیت، حقوق کی پاسداری اور کسی بھی غلطی کے ازالے کو یقینی بنایا۔ ان اصلاحات کے بعد دنیا بھر میں مسلمانوں کا انداز تجارت انتہائی مقبول ہو گیا۔ مسلمان تاجر اسلامی معاشرے کے نقیب بن گئے اور عالمی تجارت کو فروغ حاصل ہوا۔ پوری دنیا نے ان میں سے اکثر اصولوں کو تجارت کی بنیاد کے طور پر اپنا لیا۔ بعض معاشروں نے البتہ سود اور حرام چیزوں کی خرید وفروخت کونئی سے نئی صورتوں میں نہ صرف جاری رکھا بلکہ ان کے ذریعے سے دنیا بھر کا استحصال کیا اور ابھی تک جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ لین دین کے پورے نظام کا بغور جائزہ لیا جائے تو انصاف اور اجتماعی فلاح کی ضمانت انہی اصولوں پر عمل کرنے سے حاصل ہو سکتی ہے جو اسلام نے رائج کیے ہیں ۔ افسوں کہ خود مسلمان انصاف اور فلاح کے ان اصولوں کوچھوڑ کر ظالمانہ طریقوں پر عمل پیرا ہو گئے اور تجارت میں بھی شدید پسماندگی کا شکار ہو گئے ۔ دوسرے معاشروں نے جس حد تک دیانت و امانت کے اسلامی اصولوں کو اپنایا اسی نسبت سے وہ آگے بڑھ گئے۔ صحیح مسلم کی کتاب البیوع کے بعد کتاب المساقاة والمزارعد بھی لین دین کے اصولوں پر محیط ہے۔
موسیٰ بن یسار نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے دودھ روکی گئی بھیڑ (یا بکری) خرید لی تو وہ اسے لے کر گھر واپس آئے اور اس کا دودھ نکالے، اگر وہ اس کے دودھ دینے سے راضی ہو تو اسے رکھ لے، ورنہ کھجور کے ایک صاع سمیت اسے واپس کر دے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائدومسائل:
جانور کو وقت پر دوہنے کے بجائے زیادہ وقت کے لیے دودھ اس کے تھنوں میں روکا جائے تو دیکھنے میں یہی معلوم ہو گا کہ یہ بہت دودھ دینے والا جانور ہے۔ اگر کوئی اس طرح کا جانور خرید لاتا ہے تو حدیث کی روسے زیادہ سے زیادہ تین دنوں تک خریدارکو اختیار رہتا ہے کہ اگر وہ سمجھے کہ زیادہ دودھ ظاہر کرنے کے لیے اس جانور کا دودھ روکا گیا تھا تو وہ اسے واپس کر دے۔ اس کے ساتھ چونکہ اس نے دودھ استعمال کیا ہے، اس لیے کھجور (جو اس وقت کا وہاں کا عام کھانا تھا) کا ایک صاع بھی دے دے جو تقریباً سوا دو کلو بنتا ہے، اور اپنی قیمت واپس کر لے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے مصراۃ جانور خریدا وہ اسے گھر لائے اور اس کا دودھ نکالے، اگر اس کا نکالا ہوا دودھ پسند ہو تو اپنے پاس رکھ لے، وگرنہ وہ جانور واپس کر دے اور اس کے ساتھ کھجوروں کا ایک صاع دے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
مُصراة: تصریہ کا معنی ہوتا ہے روکنا، بند کرنا، تو معنی یہ ہوا دودھ والے جانور کا دودھ اس کے تھنوں میں روک دیا جائے تاکہ تھن بھرے بھرے نظر آئیں کہ خریدار سمجھے کہ یہ جانور بہت دودھ دیتا ہے، اس لیے خرید لے۔
فوائد ومسائل
امام مالک، امام شافعی، امام احمد، امام ابو یوسف اور جمہور علماء کے نزدیک، تصریہ کرنا دھوکا اور عیب ہے، اس وجہ سے مشتری کو یہ سودا فسخ کرنے کا حق حاصل ہے اور امام احمد، امام شافعی کے نزدیک رد کرنے کی صورت میں کھجوروں کا صاع واپس کرنا ہو گا۔ امام مالک کے نزدیک اپنے اپنے علاقہ کے غلہ کا صاع دینا ہو گا اور ایک قول شافعی کے مطابق ہے۔ اور امام ابو یوسف کے نزدیک جو دودھ نکالا ہے اس کی قیمت ادا کرنا ہو گی۔ امام ابو حنیفہ اور امام محمد کے نزدیک تصریہ عیب نہیں ہے، اس لیے بیع فسخ نہیں ہو سکتی، ہاں مشتری جانور کی قیمت کم کر سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر تصریہ عیب نہیں ہے تو قیمت میں کمی کیوں؟ مولانا انور شاہ نے اس حدیث کو دیانت پر محمول کیا ہے کہ تصریہ دھوکا ہے، اس لیے بائع کے دین کا تقاضا یہی ہے کہ اگر مشتری جانور واپس کرنا چاہے تو اس کو واپس لے لے، اور مولانا ظفر احمد عثمانی نے اس کو امام وقت کی رائے پر چھوڑا ہے، اور تقی عثمانی صاحب نے صاع کی واپسی کو تو امام وقت پر چھوڑا ہے اور جانور کی واپسی کو شرعی اصول تسلیم کیا ہے اور اس بات کو بھی تسلیم کیا ہے کہ یہ حدیث اصول صحیحہ کے منافی نہیں ہے جیسا کہ احناف کا دعویٰ ہے، کیونکہ تصریہ دھوکا ہے۔ اس لیے مشتری کو اختیار ملنا چاہیے۔ (تکملہ فتح الملہم: ج1/ ص 343 تا 345)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported Allah's Messenger (may peace be'upon him) as saying: He who bought a goat having its udder tied up should go back with it, milk it, and, if he is satisfied with its milk, he should retair it, otherwise he should return it along with a sa' of dates.