باب: خریدے گئے سامان کو قبضے میں لینے سے پہلے آگے بیچنا باطل ہے
)
Muslim:
The Book of Transactions
(Chapter: It is invalid to sell goods before taking possession of them)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1525.
حماد نے ہمیں عمرو بن دینار سے حدیث بیان کی، انہوں نے طاؤس سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے غلہ خریدا تو وہ اسے پورا کر لینے سے پہلے آگے فروخت نہ کرے۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے کہا: میں ہر چیز کو اسی کے مانند خیال کرتا ہوں۔
تجارت انسانی معاشرے کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ انسانوں کو ہر وقت مختلف اشیاء کی ضرورت رہتی ہے۔ وہ اس کی تمام اشیاء بیک وقت حاصل کر کے ان تمام کا ذ خیرہ نہیں کر سکتا۔ بعض اشیاء کو زیادہ مقدار میں ذخیرہ کیا ہی نہیں جاسکتا، اس لیے ایسے لوگوں کی موجودگی جومختلف اشیاء کو لائیں ، رکھیں اور ضرورت مندوں کو قیمت مہیا کر میں ناگزیر ہے۔
خرید وفروخت کے معاملات اگر انصاف پر مبنی ، دھوکے اور فریب سے پاک اور ضرر سے محفوظ ہوں تو یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ لیکن ہمیشہ ایسا ہوتا نہیں۔ انسانی معاشرے میں تجارت کی تاریخ جتنی پرانی ہے، تجارت کی آڑ میں لوگوں کے استحصال کی تاریخ بھی تقریبا اتنی ہی پرانی ہے۔ اسلام کا مشن یہی ہے کہ انسانی زندگی کے تمام معاملات عدل و انصاف، انسانوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور اجتمائی اور انفرادی فلاح و بہبود پر استوار کیے جائیں۔ انسانی تاریخ میں تجارت کو سب سے پہلے ان بنیادوں پر استوارکرنے کا سہرا اسلام کے سر ہے۔
بعثت سے پہلے عرب سمیت پوری دنیا میں ایسے سودوں ، خرید و فروخت کی ایسی صورتوں کی بھر مارتھی جن میں کسی نہ کسی فریق کو شدید نقصان اٹھانا پڑتا تھا۔ خرید وفروخت کے طریقوں میں دھوکا شامل تھا۔ اس حوالے سے کیے گئے معاہدوں میں فریب موجود تھا۔ قیمت اور اشیاء اجناس، منفعت یا خدمات جن کا لین دین ہوتا تھا ، ان سب میں فریب شامل تھا۔ عرب میں فریب پرمبی بیع کی جو صورتیں رائج تھیں ان میں ملامسہ اور منابذہ بھی تھیں ۔ اگر خر یدا غور کیے بغیر کپڑے کو چھو لے تو بیع پکی ہوگئی ، مثلا: تم اپنا کپڑا میری طرف پھینک دو، میں اپنا کیر تمھاری طرف پھینک دیتا ہوں سودا کیا ہو گیا، جس کی جو قسمت اسے مل جائے گا۔ میں ایک کنگری پھینکوں گا جس کپڑے کی جس لمبائی تک جائے گی، وہ تمھارا ‘‘ اس میں سوچنےسمجھنے کی گنجائش نہ صحیح پیمائش کی ۔ وہ ایسی چیزوں کی بیع بھی کر لیتے تھے جو ابھی وجود میں نہیں آئیں، اس کا دیکھنا مکن نہ رکھنا ، مثلا: یہ کہ اونٹنی بچہ دے گی ، وہ حاملہ ہو کر پھر بچہ دے گی وہ تمھارا ہوگا ۔ یہ حبل الحبلہ بیع کہلاتی تھی۔
مصنوعی طریقے سے قیمت بڑھانے کے حیلے کیے جاتے تھے۔ اب بھی کیے جاتے ہیں۔ فرضی گا ہک کھڑےکر کے ضرورت کی چیزوں کی قیمتیں بڑھائی جاتی تھیں ۔ اسے نجش کہا جاتا تھا۔ اب اشتہار بازی کے ذریعے باور کرایا جاتا ہے کہ فلاں چیز آپ کی شدید ضرورت ہے۔ مصنوعی قلت پیدا کر کے قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ خریدنے میں بھی فریب کا چلن تھا۔ راستے میں جا کر، منڈی کے بھاؤ سے بے خبر مال لانے والوں سے اشیاء خریدنا ، جوشخص منڈی کے ریٹ پر اپنی اشیاء فروخت کرنا چاہتا ہے، اسے زیادہ قیمت کا لالچ دے کر فروخت کی ذمہ داری لینا اور قیمتیں بڑھا کر خود فائدہ اٹھانا اور مہنگائی پیدا کرتا۔ دودھ دینے والے جانورکے تھنوں میں دودھ روک کر زیادہ قیمت پر بیچنا، اشیاءکو تولے یا نا پے بغیر ان کا سودا کر لینا ، باغ کے درختوں پر بور لگتے ہیں یا اس سے بھی پہلے ان کے پھل کا سودا کر دیتا چاہیے بورہی نہ لگے،یالگے تو آندھی یا بیماری وغیرہ کا شکار ہو کر ضائع ہو جائے ۔ فصل پکنے کے بعد اناج اکٹھا کر کے وزن باماپ سے بچنے کی بجائے کھڑی فصل کو اناج کی متعین مقدار کے عوض بیچ دینا، چیز کا عیب چھپا کر دھوکے سےبیچ دینا، غیر منصفانہ طریقے سے زمین کو اجرت پر دینا، یہ سب دھوکے اور فریب کی صورتیں معاشرے میں رائج تھیں۔ رسول اللہ ﷺنے فریب مبنی لین دین کی تمام صورتوں کو حرام قرار دیا۔ دیکھ بھال کر، پرکھ کر اور تسلی سے قیمت چکا کر سودا کرنےکے طریقے رائج فرمائے ۔ لین دین کرنے والے فریقوں کو سودا ہو جانے کے بعد بھی مناسب وقت تک اس کی واپسی کا اختیار دیا۔ عیب اور دھوکے کی بنا پر پتہ لگنے تک واپسی کو یقینی بنایا ۔ غرض چیز، قیمت، خریدار فروخت کرنے والے ، خرید و فروخت کی صورت اور شرائط ، تمام اجزائےبیع کے حوالے سے دیانت و امانت، شفافیت، حقوق کی پاسداری اور کسی بھی غلطی کے ازالے کو یقینی بنایا۔ ان اصلاحات کے بعد دنیا بھر میں مسلمانوں کا انداز تجارت انتہائی مقبول ہو گیا۔ مسلمان تاجر اسلامی معاشرے کے نقیب بن گئے اور عالمی تجارت کو فروغ حاصل ہوا۔ پوری دنیا نے ان میں سے اکثر اصولوں کو تجارت کی بنیاد کے طور پر اپنا لیا۔ بعض معاشروں نے البتہ سود اور حرام چیزوں کی خرید وفروخت کونئی سے نئی صورتوں میں نہ صرف جاری رکھا بلکہ ان کے ذریعے سے دنیا بھر کا استحصال کیا اور ابھی تک جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ لین دین کے پورے نظام کا بغور جائزہ لیا جائے تو انصاف اور اجتماعی فلاح کی ضمانت انہی اصولوں پر عمل کرنے سے حاصل ہو سکتی ہے جو اسلام نے رائج کیے ہیں ۔ افسوں کہ خود مسلمان انصاف اور فلاح کے ان اصولوں کوچھوڑ کر ظالمانہ طریقوں پر عمل پیرا ہو گئے اور تجارت میں بھی شدید پسماندگی کا شکار ہو گئے ۔ دوسرے معاشروں نے جس حد تک دیانت و امانت کے اسلامی اصولوں کو اپنایا اسی نسبت سے وہ آگے بڑھ گئے۔ صحیح مسلم کی کتاب البیوع کے بعد کتاب المساقاة والمزارعد بھی لین دین کے اصولوں پر محیط ہے۔
حماد نے ہمیں عمرو بن دینار سے حدیث بیان کی، انہوں نے طاؤس سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے غلہ خریدا تو وہ اسے پورا کر لینے سے پہلے آگے فروخت نہ کرے۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے کہا: میں ہر چیز کو اسی کے مانند خیال کرتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے غلہ، اناج خریدا تو وہ اسے پورا پورا لینے سے پہلے فروخت نہ کرے۔‘‘ ابن عباس کہتے ہیں، میرے نزدیک ہر چیز کا حکم ایسا ہی ہے۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
حتي يستوفيه: حتیٰ کہ اس کو ماپ یا تول یا گن لے، لیکن اس کا قبضہ میں لینا، اس معنی کی رو سے شرط نہیں ہے، لیکن یہاں یہ لفظ قبضہ کے معنی میں ہی ہے، جیسا کہ اگلی حدیث میں اس کی جگہ حتي يقبضه، حتیٰ کہ قبضہ میں لے لے کا لفظ موجود ہے۔
فوائد ومسائل
(1) قبضہ کا مفہوم : قبضہ یہ ہے کہ شئی مشتری کی حرز تحفظ وپناہ اور ضمانت (ذمہ داری) میں آ جائے، اس لیے امام مالک اور احناف کے ہاں قبضہ، تخلیہ یعنی بائع کا شئی سے دستبردار ہو جانا اور مشتری کو اپنے تحفظ میں لینے کا موقع دینے کا نام ہے اور شوافع و حنابلہ کے ہاں غیر منقولہ اشیاء میں قبضہ، تخلیہ کا نام ہے اور منقولہ اشیاء میں نقل و تحویل (خریدی ہوئی جگہ سے نقل کرتا ہے )اور امام بخاری کے نزدیک حق تصرف تسلیم کر لینا ہے، لیکن صحیح بات یہی ہے کہ منقول اشیاء میں قبضہ نقل و تحویل کا نام ہے، جیسا کے حضرت زید بن ثابت کی حدیث ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں سامان خریدا ہے وہاں بیچنے سے منع کیا، جب تک کہ تاجرا سے اپنی جگہ میں محفوظ نہیں کر لیتا۔ (2) امام شافعی اور امام محمد بن الحسن کے نزدیک حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرح قبضہ سے پہلے کسی چیز کی خریدوفروخت جائز نہیں ہے، کیونکہ خریدار جب تک سامان پر قبضہ نہیں کر لیتا، بائع کا حق تصرف پوری طرح ختم نہیں ہوتا اور وہ اگر اسے زیادہ منافع ملے تو سودا فسخ کر سکتا ہے یا قبضہ دینے سے ٹال مٹول کر سکتا ہے، اور آج کل بقول علامہ تقی یہ حکمت بھی ظاہر ہوئی ہے کہ اس سے سٹہ کو فروغ مل رہا ہے جس سے اشیاء بہت مہنگی ہو جاتی ہیں، مثلا ایک بحری جہاز جاپان سے کسی تاجر کا سامان لارہا ہوتا ہے اور سامان ابھی راستہ میں ہی ہوتا ہے کہ وہ منگوانے والا تاجر وہ سامان دوسرے تاجر کو بیچ دیتا ہے اور دوسرا تاجر تیسرے تاجر کو بیچ دیتا ہے اس طرح جہاز کے لنگر انداز ہونے سے پہلے پہلے سامان کئی دفعہ بک جاتا ہے، اس طرح وہ چیز جو جاپان سے دس روپے میں چلی تھی، راستہ میں ہی بار بار بکنے سے وہ چیز سو دو سو تک پہنچ جاتی ہے اور ابھی کسی کے قبضے میں نہیں آئی اور نہ وہ سامان کسی نے دیکھا ہے، حالانکہ یہ سامان راستہ میں تباہ بھی ہو سکتا ہے (تکلمۃ فتح الملھم :ج1، ص:354) لیکن اس پر سوال یہ ہے کہ قبضہ کا مطلب، احناف کے نزدیک بائع کا سامان سے دستبردار ہو جانا ہی مشتری کو تصرف کاحق دے دینا ہے، اور یہاں ہر تاجر دوسرے کے حق میں دستبردار ہو گیا ہے اور اس کے حق ملکیت کو تسلیم کر لیا ہے، اس لیے اس نے آگے بیچا ہے، اس لیے صحیح بات یہ ہے کہ یہ طریقہ اس حدیث کے خلاف ہے جسے حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے، آپﷺ نے فرمایا : لا تبع ما ليس عندك جو چیز تیرے پاس نہیں ہے اس کو فروخت نہ کرے، یا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول صادق آتا ہے کہ جب ایک چیز خریدی ہے، لیکن وہ اپنے قبضہ میں نہیں لی، اور وہ آگے بیچ دی، تو یہ تو رقم کا رقم سے سودا ہوا ہے، کیونکہ سامان آیا نہیں ہے، نہ دیکھا ہے تو ایک تاجر نےاس کو مثلا بیس روپیہ میں خرید لیا، دوسرے کو پچیس میں بیچ دیا ہے،اس نے تیسرے کو تیس میں بیچ دیا ہے، اس طرح ہر تاجر، رقم کا رقم سے سودا کر رہاہے، سامان تو ابھی غائب ہے اور غرر کا بھی احتمال ہے کہ مال راستہ میں ضائع ہو جائے۔ امام احمد کا بھی ایک قول امام شافعی والا ہے، اور علامہ غلام رسول سعیدی نے اس موقف کو صحیح تسلیم کیا ہے۔ (شرح صحیح مسلم :ج 4/ص162) ( 3) امام احمد اور اسحاق کے نزدیک ماپ و تول سے تعلق رکھنے والی اشیاء کا قبضے سے پہلے بیچنا جائز نہیں ہے، باقی اشیاء بیچنا جائز ہے، اور بقول علامہ ابن قدامہ نہی کا تعلق امام احمد کے نزدیک صرف اناج اور غلہ سے ہے۔ (4) امام مالک کے نزدیک غلہ کیلی ہو یا وزنی۔ اس کا قبضہ سے پہلے بیچنا جائز نہیں ہے اور قاضی عیاض مالکی نے ہر اس چیز کی قبضہ سے پہلے بیع ناجائز قرار دی ہے جس کا تعلق ناپ تول یا عدد سے ہو، اور سحنون اور ابن حبیب نے اس کے ساتھ غلہ ہونے کی شرط لگائی ہے اور ابن وہب نے کہا اس کا تعلق ربوی (سودی) اشیاء سے ہے۔ (5) امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف کے نزدیک منع کا تعلق منقول اشیاء سے ہے، غیر منقول اشیاء سے نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn Abbas (RA) reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: He who buys foodgrain should not sell it until he has taken possession of it.