کتاب: سیرابی کے عوض پیدوار میں حصہ داری اور مزارعت
(
باب: قرض میں سے کچھ معاف کر دینا (اللہ کے نزدیک )پسندیدہ ہے
)
Muslim:
The Book of Musaqah
(Chapter: It is recommended to waive debts)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1557.
عمرہ بنت عبدالرحمان (بن عوف) نے کہا: میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو کہتے ہوئے سنا: رسول اللہ ﷺ نے دروازے کے پاس جھگڑا کرنے والوں کی آواز سنی، ان دونوں کی آوازیں بلند تھیں اور ان میں سے ایک دوسرے سے کچھ کمی کرنے کی اور کسی چیز میں نرمی کی درخواست کر رہا تھا اور وہ (دوسرا) کہہ رہا تھا: اللہ کی قسم! میں ایسا نہیں کروں گا۔ رسول اللہ ﷺ ان دونوں کے پاس باہر تشریف لے گئے اور فرمانے لگے: ’’اللہ (کے نام) پر قسم اٹھانے والا کہاں ہے کہ وہ نیکی کا کام نہیں کرے گا؟‘‘ اس نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! میں ہوں، اس شخص کے لیے وہی صورت ہے جو یہ پسند کرے۔ (وہ فورا اپنے بھائی کا مطالبہ مان گیا۔)
تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) جب تجارت میں نقصان ہو جائے یا کسی بھی وجہ سے مقروض کے پاس قرض اتارنے کی سکت باقی نہ رہے تو معاشرے کو اس کی مدد کرنی چاہئے۔ بیت المال سے بھی ایسے قرض چکانے کا اہتمام ہونا چاہئے۔ (2) اگر ایسا انتظام نہ ہو سکے یا لوگوں کی مدد کے باوجود قرض چکایا نہ جا سکے تو جتنا مقروض کے پاس موجود ہے، وہی قرض خواہوں کو ان کے قرض کے تناسب سے دے دیا جائے گا۔ اس کے بعد ان کی طرف سے مقروض پر کوئی دعویٰ باقی نہیں رہے گا، اسے تفلیس یا افلاس کہا جاتا ہے۔
یہ حقیقت میں کتاب البیوع ہی کا تسلسل ہے۔کتاب البیوع کے آخری حصے میں زمین کو بٹائی پر دینے کی مختلف جائز اور نا جائز یا مختلف فیہ صورتوں کا ذکر تھا مساقات (سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری)اور مزارعت کا معاملہ امام ابوحنیفہ اور زفرکے علاوہ تمام فقہاء کے ہاں جائز ہے یہی معاملہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی فتح کے بعد خود یہود کے ساتھ کیا اس حوالے سے اما م ابو حنیفہ اور زفر کے نقط نظر کو ان کے اپنے اہم ترین شاگرد وں امام ابو یوسف اور امام محمد نے قبول نہیں کیایہ معاہدہ درختوں،ملحقہ کھیتوں ،مالکان اور نگہداشت کرنے والوں تمام کے مفادات کو محفوظ رکھنے کا ضامن ہے مساقات اور مزارعت کے لیے مخصوص باب کے بعد درخت لگانے اور زراعت کی فضیلت بیان کی گئی ہے اسی پر انسان کے رزق اور اس کی فلاح کا سب سے زیادہ انحصار ہے زمین پر محنت اور پیدا وار کے اشتراک کے انتہائی منصفانہ معاہدوں کی تمام صورتوں میں جنھیں اسلام نے رائج کیا ہے انصاف کے تمام تر تقاضے ملحوظ رکھنے کے باوجود نا گہانی مسئلہ یہ پید ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر متوقع قدرتی آفت پیداوار کو تباہ کر دے ۔ اس کے لیے رسول اللہ ﷺ کا واضح حکم ہے ایسے نقصان کے بعد حصے کا مطالبہ ساقط ہو جاتا ہے جب کسی قدرتی آفت کی بنا پر پھل حاصل ہی نہیں ہوا تو مطالبہ کس بنیاد پر؟اس کے ساتھ ہی تجارتی لین دین کی صورت میں جبکہ قبضہ اور ملکیت دوسرے فریق کو منتقل ہو چکی ہو اور ادائیگی باقی ہو تو کسی نقصان کی صورت میں مہلت اور اگر ممکن ہوتو تخفیف کی تلقین کی گئی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی تفلیس (قرض ادا کرنے کی صلاحیت کے فقدان)کے حوالے سے طریقہ کا ر واضح کیا گیا ہے دوسری طرف جس کے پاس ادائیگی کی صلاحیت موجود ہو اس کی طرف سے لیت و لعل کو ظلم قرار دیا گیا ہے اور اس کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔
اب تک لین دین کے معاہدوں کا ذکر تھا اس کے بعد ان چیزوں کا بیان ہے جن کی تجارت ممنوع ہے وہ غصب کی ہوئی چیزیں یا ایسی خدمات یا اشیاء ہیں جو حرام ہیں ،مثلاً:ناپاک جانور،جیسے کتے وغیرہ کو پالنا یا نشہ آور اشیاء مثلا شراب وغیرہ کو استعمال کرنا۔ پھر ان اشیاء کے لین دین میں جو بالکل حلال ہیں ان صورتوں کا ذکر ہے جن میں سود شامل ہو جاتا ہے یہ ربالفضل ہے ۔ایک ہی جنس کا اسی جنس سے کمی پیشی کے ساتھ تبادلہ ،ملتی جلتی اشیاء کا ادھار تبادلہ ،مثلا سونے چاندی کا،گندم اور جَو کا لین دین جس میں ایک چیز ادھار ہو یاد رہے کہ ایسی اشیاء کی قیمتوں میں موسم کے ساتھ یا مطقاً وقت اور تجارتی حالات کی بنا پر بہت جلد فرق پڑتا ہے اگرچہ قیمت(سونے ،چاندی یا سکے یا کرنسی نوٹ وغیرہ)کے ساتھ اشیاء کے تبادلے میں ادھار لین دین کی اجازت دی گئی ہے کیونکہ اگر اقتصادی معاملات انصاف کے ساتھ چلائے جائیں تو نقدی کی قیمت زیادہ عرصے تک مستحکم رہتی ہے ،دوسرا سبب یہ کہ نقدی کے عوض ادھار خریدو فروخت کے بغیر تجارتی معاملات چلنے ممکن نہیں تجارت کے جاری رہنے ہی سے انسانوں کے بنیادی اقتصادی مفادات حاصل بھی ہوتے ہے اور محفوظ رہتے ہیں ۔حیوانات کی بیع اجناس اور اشیاء کی بیع سے مختلف ہے بدوی معاشروں میں ان کا لین دین بہت زیادہ ہوتا ہے بلکہ کسی نہ کسی مویشی کو خود نقدی سے ملتی جلتی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔ ان کے لین دین کو آسان بنانے کے لیے اس میں جن مراعات کی ضرورت تھی ،اسلام نے ان مراعات کا ت اہتمام کیا ہے پھر تجارتی لین دین کے معاہدوں میں رہن کے مسائل کو واضح کیا گیا ہے۔ اس کے بعد بیع سلم یا سلف کے مسائل کو واضح کیا گیا ہے،پھر ذخیرہ اندوزی کی ممانعت بیان ہوئی ہے پھر شفعہ کے مسائل ہیں کہ لین دین اپنی جگہ درست ہو سکتا ہے لیکن ایک چیز میں شراکت رکھنے والے کا پہلا حق ہے کہ وہ بازار کی قیمت پر اس چیز کا باقی حصہ خیرید سکے۔ آخر میں زمین یا جائیداد کے حوالے سے حسن سلوک،کسی کی زمین دبانے کی ممانعت اور اختلاف کی صورت میں مشترکہ راستے کی چوڑائی متعین کرنے کے حوالے سے شریعت کے حکم کا بیان ہے۔
عمرہ بنت عبدالرحمان (بن عوف) نے کہا: میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو کہتے ہوئے سنا: رسول اللہ ﷺ نے دروازے کے پاس جھگڑا کرنے والوں کی آواز سنی، ان دونوں کی آوازیں بلند تھیں اور ان میں سے ایک دوسرے سے کچھ کمی کرنے کی اور کسی چیز میں نرمی کی درخواست کر رہا تھا اور وہ (دوسرا) کہہ رہا تھا: اللہ کی قسم! میں ایسا نہیں کروں گا۔ رسول اللہ ﷺ ان دونوں کے پاس باہر تشریف لے گئے اور فرمانے لگے: ’’اللہ (کے نام) پر قسم اٹھانے والا کہاں ہے کہ وہ نیکی کا کام نہیں کرے گا؟‘‘ اس نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! میں ہوں، اس شخص کے لیے وہی صورت ہے جو یہ پسند کرے۔ (وہ فورا اپنے بھائی کا مطالبہ مان گیا۔)
حدیث حاشیہ:
فوائد و مسائل:
(1) جب تجارت میں نقصان ہو جائے یا کسی بھی وجہ سے مقروض کے پاس قرض اتارنے کی سکت باقی نہ رہے تو معاشرے کو اس کی مدد کرنی چاہئے۔ بیت المال سے بھی ایسے قرض چکانے کا اہتمام ہونا چاہئے۔ (2) اگر ایسا انتظام نہ ہو سکے یا لوگوں کی مدد کے باوجود قرض چکایا نہ جا سکے تو جتنا مقروض کے پاس موجود ہے، وہی قرض خواہوں کو ان کے قرض کے تناسب سے دے دیا جائے گا۔ اس کے بعد ان کی طرف سے مقروض پر کوئی دعویٰ باقی نہیں رہے گا، اسے تفلیس یا افلاس کہا جاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھے بہت سے اساتذہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی یہ حدیث سنائی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازہ پر جھگڑنے والوں کی آواز سنی، جو بلند ہو رہی تھی، ان میں سے ایک دوسرے سے نقصان وضع کرنے کی استدعا کر رہا تھا، اور اس سے اصل رقم میں کچھ کمی کا مطالبہ کر رہا تھا اور دوسرا کہہ رہا تھا، اللہ کی قسم! میں یہ نہیں کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکل کر اس کے پاس آئے، اور فرمایا: ’’کہاں ہے وہ جو اللہ کی قسم اٹھا رہا تھا، کہ میں نیکی اور بھلائی کا کام نہیں کروں گا؟‘‘ اس نے کہا، میں ہوں، اے اللہ کے رسول! میں اس کی پسند کا کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
وضع سے مراد یہ ہے کہ اصل رقم میں کمی کردو، اور اس کا مطالبہ کرنے میں نرمی، اور سہولت سے کام لو، یایہ ہے جو مجھے نقصان ہو گیا ہے، اس کو چھوڑ دو اور جو باقی بچا ہے، اس کی قیمت بھی کم کر دو، جب فریقین کی آواز سن کر حضور تشریف لائے اور فرمایا، مقروض کا مطالبہ منظور نہ کرنے کی قسم اٹھانا، نیکی نہ کرنے کی قسم اٹھانا ہے، جومسلمان کے لیے زیبا نہیں ہے، تو حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ آپﷺ کی بات سمجھ گئے، اور عبداللہ بن ابی حدرد کا مطالبہ منظور کرنے کے لیے آمادہ ہو گئے کہ وہ جو پسند کریں، میں وہی کرنے کے لیے تیار ہوں، پھر آپﷺ کے کہنے پر آدھا قرضہ معاف کر دیا، اس حدیث سے معلوم ہوا، مقروض، قرض خواہ سے قرض کے کل یا جز کی معافی کی درخواست کر سکتا ہے، اور اس کو معاف کر دینا پسندیدہ عمل ہے، اور اس سلسلہ میں سفارش کرنا بھی درست ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
A'isha (Allah be pleased with her) reported: Allah's Messenger (ﷺ) heard the voices of altercation of two disputants at the door; both the voices were quite loud. The one demanded some remission and desired that the other one should show leniency to him, whereupon the (other one) was saying: By Allah will not do that. Then there came Allah's Messenger (ﷺ) to them and said: Where is he who swears by Allah that he would not do good? He said: Massenger of Allah, it is I. He may do as he desires.