کتاب: سیرابی کے عوض پیدوار میں حصہ داری اور مزارعت
(
باب: مالدار کا ٹال مٹول کرنا حرام ہے ‘ِحوالہ (مقروض کی طرف سے اپنے ذمے قرض کو دوسرے کے ذمے )کرنا درست ہے جب (قرض )کسی (مالدار شخص )کے حوالے کیا جائے تو اسے قبول کرنا مستحب ہے
)
Muslim:
The Book of Musaqah
(Chapter: The prohibition of a rich man delaying repayment. The validity of Hawalah (Transferal of Debts) and it is recommended to accept transferal of a debt if it is transferred to a rich man)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1564.
اعرج (عبدالرحمٰن بن ہرمز مدنی) نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’غنی آدمی کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے اور جب تم میں سے کسی کو کسی مال دار (سے وصولی) پر لگایا جائے تو اسے لگ جانا چاہئے۔‘‘
یہ حقیقت میں کتاب البیوع ہی کا تسلسل ہے۔کتاب البیوع کے آخری حصے میں زمین کو بٹائی پر دینے کی مختلف جائز اور نا جائز یا مختلف فیہ صورتوں کا ذکر تھا مساقات (سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری)اور مزارعت کا معاملہ امام ابوحنیفہ اور زفرکے علاوہ تمام فقہاء کے ہاں جائز ہے یہی معاملہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی فتح کے بعد خود یہود کے ساتھ کیا اس حوالے سے اما م ابو حنیفہ اور زفر کے نقط نظر کو ان کے اپنے اہم ترین شاگرد وں امام ابو یوسف اور امام محمد نے قبول نہیں کیایہ معاہدہ درختوں،ملحقہ کھیتوں ،مالکان اور نگہداشت کرنے والوں تمام کے مفادات کو محفوظ رکھنے کا ضامن ہے مساقات اور مزارعت کے لیے مخصوص باب کے بعد درخت لگانے اور زراعت کی فضیلت بیان کی گئی ہے اسی پر انسان کے رزق اور اس کی فلاح کا سب سے زیادہ انحصار ہے زمین پر محنت اور پیدا وار کے اشتراک کے انتہائی منصفانہ معاہدوں کی تمام صورتوں میں جنھیں اسلام نے رائج کیا ہے انصاف کے تمام تر تقاضے ملحوظ رکھنے کے باوجود نا گہانی مسئلہ یہ پید ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر متوقع قدرتی آفت پیداوار کو تباہ کر دے ۔ اس کے لیے رسول اللہ ﷺ کا واضح حکم ہے ایسے نقصان کے بعد حصے کا مطالبہ ساقط ہو جاتا ہے جب کسی قدرتی آفت کی بنا پر پھل حاصل ہی نہیں ہوا تو مطالبہ کس بنیاد پر؟اس کے ساتھ ہی تجارتی لین دین کی صورت میں جبکہ قبضہ اور ملکیت دوسرے فریق کو منتقل ہو چکی ہو اور ادائیگی باقی ہو تو کسی نقصان کی صورت میں مہلت اور اگر ممکن ہوتو تخفیف کی تلقین کی گئی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی تفلیس (قرض ادا کرنے کی صلاحیت کے فقدان)کے حوالے سے طریقہ کا ر واضح کیا گیا ہے دوسری طرف جس کے پاس ادائیگی کی صلاحیت موجود ہو اس کی طرف سے لیت و لعل کو ظلم قرار دیا گیا ہے اور اس کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔
اب تک لین دین کے معاہدوں کا ذکر تھا اس کے بعد ان چیزوں کا بیان ہے جن کی تجارت ممنوع ہے وہ غصب کی ہوئی چیزیں یا ایسی خدمات یا اشیاء ہیں جو حرام ہیں ،مثلاً:ناپاک جانور،جیسے کتے وغیرہ کو پالنا یا نشہ آور اشیاء مثلا شراب وغیرہ کو استعمال کرنا۔ پھر ان اشیاء کے لین دین میں جو بالکل حلال ہیں ان صورتوں کا ذکر ہے جن میں سود شامل ہو جاتا ہے یہ ربالفضل ہے ۔ایک ہی جنس کا اسی جنس سے کمی پیشی کے ساتھ تبادلہ ،ملتی جلتی اشیاء کا ادھار تبادلہ ،مثلا سونے چاندی کا،گندم اور جَو کا لین دین جس میں ایک چیز ادھار ہو یاد رہے کہ ایسی اشیاء کی قیمتوں میں موسم کے ساتھ یا مطقاً وقت اور تجارتی حالات کی بنا پر بہت جلد فرق پڑتا ہے اگرچہ قیمت(سونے ،چاندی یا سکے یا کرنسی نوٹ وغیرہ)کے ساتھ اشیاء کے تبادلے میں ادھار لین دین کی اجازت دی گئی ہے کیونکہ اگر اقتصادی معاملات انصاف کے ساتھ چلائے جائیں تو نقدی کی قیمت زیادہ عرصے تک مستحکم رہتی ہے ،دوسرا سبب یہ کہ نقدی کے عوض ادھار خریدو فروخت کے بغیر تجارتی معاملات چلنے ممکن نہیں تجارت کے جاری رہنے ہی سے انسانوں کے بنیادی اقتصادی مفادات حاصل بھی ہوتے ہے اور محفوظ رہتے ہیں ۔حیوانات کی بیع اجناس اور اشیاء کی بیع سے مختلف ہے بدوی معاشروں میں ان کا لین دین بہت زیادہ ہوتا ہے بلکہ کسی نہ کسی مویشی کو خود نقدی سے ملتی جلتی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔ ان کے لین دین کو آسان بنانے کے لیے اس میں جن مراعات کی ضرورت تھی ،اسلام نے ان مراعات کا ت اہتمام کیا ہے پھر تجارتی لین دین کے معاہدوں میں رہن کے مسائل کو واضح کیا گیا ہے۔ اس کے بعد بیع سلم یا سلف کے مسائل کو واضح کیا گیا ہے،پھر ذخیرہ اندوزی کی ممانعت بیان ہوئی ہے پھر شفعہ کے مسائل ہیں کہ لین دین اپنی جگہ درست ہو سکتا ہے لیکن ایک چیز میں شراکت رکھنے والے کا پہلا حق ہے کہ وہ بازار کی قیمت پر اس چیز کا باقی حصہ خیرید سکے۔ آخر میں زمین یا جائیداد کے حوالے سے حسن سلوک،کسی کی زمین دبانے کی ممانعت اور اختلاف کی صورت میں مشترکہ راستے کی چوڑائی متعین کرنے کے حوالے سے شریعت کے حکم کا بیان ہے۔
اعرج (عبدالرحمٰن بن ہرمز مدنی) نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’غنی آدمی کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے اور جب تم میں سے کسی کو کسی مال دار (سے وصولی) پر لگایا جائے تو اسے لگ جانا چاہئے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’غنی کا ٹال مٹول کرنا حق تلفی ہے، اور جب تم میں سے کسی کو مالدار کے پیچھے لگایا جائے (قرض کا انتقال مالدار کی طرف کیا جائے)، تو وہ اس کا پیچھا کرے، (اس انتقال اور حوالہ کو قبول کر لے)‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
ایک انسان نے کسی کا قرضہ دینا ہے، اور وہ اپنا قرضہ دوسرے کی طرف منتقل کر دیتا ہے، جس کو حوالہ کا نام دیا جاتا ہے، کیونکہ اس نے دوسرے انسان سے اپنا قرضہ لینا ہے یا دوسراانسان اپنی طرف سے اس کا قرض ادا کرنے کے لیے تیارہے۔ اس طرح حوالہ یا انتقال قرضہ کے چار ارکان ہیں۔ (1) محيل: جس کے ذمہ در حقیقت قرضہ ہے، جس کو اصيل بھی کہتے ہیں،۔ (2) دائن قرض خواہ، جس نے قرضہ وصول کرناہے،اس کو محال یا محتال کہتے ہیں۔ (3) محتال عليه يا محال عليه: جس کو قرض کی ادائیگی کا ذمہ دار ٹھہرایاجا رہا ہے یا جس کی طرف قرضہ منتقل کیا جا رہا ہے۔ (4) محال به، محتال به: یا قرض جوادا کرتا ہے، ایک انسان قرضہ ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن ادائیگی کی قدرت رکھنے کے باوجود، قرضہ ادا نہیں کرتا، یہ ظلم اور زیادتی ہے، لیکن قرضہ کا صاحب حیثیت کی طرف انتقال یا حوالہ یہ ظلم اور زیادتی نہیں ہے، شرط صرف یہ ہے کہ وہ ملی یعنی ادائیگی کی قدرت اور استطاعت رکھتا ہو، جمہور (احناف،شوافع،موالک) کے نزدیک اس حوالہ اور انتقام کو قبول کرنا فرض نہیں ہے، بہتر اور افضل ہے، اس لیے حوالہ کے لیے قرض خواہ کا قبول کرنا شرط ہے، لیکن امام احمد اور اہل ظاہر کے نزدیک اس حدیث کی روسے، قرض خواہ پر حوالہ قبول کرنا لازم ہے، اس طرح حوالہ کی درستگی کے لیے محتال عليه کا قرض کی ادائیگی کہ حوالہ کو قبول کرنا، کہ میں یہ قرضہ اپنے ذمہ لیتا ہوں، احناف کے نزدیک شرط ہے، لیکن باقی ائمہ کے نزدیک شرط نہیں ہے، لیکن ظاہر ہے، اگروہ ادائیگی کو تسلیم ہی نہیں کر رہا تو محال اس سے وصول کیسے کر سکتا ہے، الا یہ کہ عدالت اس کو پابند کرے، اس طرح حوالہ کی تکمیل کے بعد محيل (مقروض) قرض کی ادائیگی سے بری الذمہ یا سبکدوش ہوجائے گا، اور ائمہ ثلاثہ کے نزدیک اب قرض خواہ کسی صورت میں بھی مقروض سے مطالبہ نہیں کر سکتا، لیکن امام ابو حنیفہ کے نزدیک اپنے حق یا قرضہ کے ضیاع کی صورت میں مثلا محتال عليه ادائیگی سے انکار کردے یا دیوالیہ ہوجائے تو قرض خواہ، مقروض اصلی سے مطالبہ کر سکتا ہے، ظاہر ہے یہ اس صورت میں تو ممکن ہے، جب مديون (مقروض) نے محتال عليه سے رقم نہ لینی ہو، اس نے محض تبرعا نیکی کرتے ہوئے، قرضہ کی ادائیگی کی ذمہ داری قبول کی ہو اور اب وہ انکار کر رہا ہے یا ادائیگی کے قابل نہیں رہا، اور اصلی مقروض، رقم ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہے، لیکن اگر اس نے قرضہ وصول کرنا تھا، اور اسے منتقل کردیا ہے یا اس میں ادائیگی کی سکت ہی نہیں ہے، تو پھر رجوع یا واپسی کا سوال کیسے پیدا ہو سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: Delay (in the payment of debt) on the part of a rich man is injustice, and when one of you is retired to a rich man, he should follow him.