Muslim:
The Book of Vows
(Chapter: One Who Vows To Walk To The Ka'bah)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1644.
مفضل بن فضالہ نے ہمیں حدیث بیان کی، (کہا: ) مجھے عبداللہ بن عیاش نے یزید بن ابی حبیب سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوالخیر سے اور انہوں نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: میری بہن نے ننگے پاؤں پیدل چل کر بیت اللہ جانے کی نذر مانی اور مجھ سے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ سے اس کے لیے فتویٰ لوں، میں نے آپﷺ سے فتویٰ پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ (بقدر استطاعت) پیدل چلے اور سوار ہو۔‘‘
نذر یہ ہے کہ آدمی کسی نیکی کو جو اس پر واجب نہیں ،خود اپنے لیے واجب کر لے عموماً یہ مشروط ہوتی ہے اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو میں اتنے نوافل پڑھوں گا،یا اتنے روزے رکھوں گا بعثت سے پہلے بھی لوگ نذر مانتے تھے مثلاً کعبہ کی طرف پیدل جانے ،کعبہ میں اعتکاف کرنے،جانور وہاں لے جا کر قربان کرنے یا مطلق کسی جانور کی قربانی جیسی نذریں مانی جاتی تھیں۔ نیکی کے صحیح کاموں کی نذریں جو لوگوں نے اسلام لانے سے پہلے مانی تھیں،اسلام لانے کے بعد انھیں پورا کرنے کا حکم دیا گیا شرط عموما کسی کام کے ہو جانے ،کسی تکلیف کے رفع ہونے یا کسی خدشے سے محفوظ ہونے اور کسی اچھی خبر ملنے کے حوالے سے ہوتی ہے شوافع اس کو نذرِ لحاج کہتے ہیں۔جب شرط پوری ہو جائے تو نذر کا ایفاء(پورا کرنا) بھی ضروری ہوتا ہے ۔شرط کے بغیر بھی نذر مانی جاتی ہے اسے بہر صورت پورا کرنا ضروری ہے رسول اللہ ﷺ کا اپنا طرق کار یہ تھا کہ مشکل کے وقت دعا اور عبادت کے ذ ریعے سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع فرماتے تھے بعد میں ازخود سجدہ شکر کا اہتمام فرماتے ۔یہی سب سے اچھا طریقہ ہے آپﷺ نے واضح فرمایا کہ نذر کے کے ذریعے سے تقدیر نہیں بدل سکتی جبکہ اس کے بالمقابل دعا کے حوالے سے آپ نے فرمایا :لَا يَرُدُّ القَضَاءَ إِلَّا الدُّعَاءُ تقدیر کے فیصلے کو دعا ہی بدل سکتی ہے ‘‘ (جامع ترمذی،حدیث 2139) اس لیےآپ نے نذر نہ ماننے کی تلقین فرمائی اور واضح کیا کہ نذر کے ذریعے سے کسی بخیل کا مال اللہ کی راہ میں خرچ ہو جاتا ہے یا نہ کرنے والا اس طرح کوئی اچھا کام کر لیتا ہے یہی وجہ ہے کہ آپ نے نذر کو ممنوع قرار نہیں دیا بلکہ مانی ہوئی نذر کو ،اگراس میں اللہ کی نافرمانی نہ ہو پورا کرنے کا حکم دیا اگر کسی شخص نے ایسا کام کرنے کی نذر مانی جو گنا ہ ہے تو وہ نذر ساقط ہے ، گناہ کا کام ہر گز نہیں کرنا چاہیے۔یہ بھی اسلام کی رحمت ہے کہ اگر کوئی ایسی نذر مان لے جو اس کے اختیار میں نہیں مثلاً:کوئی ایسا کام کرنے کی نذر جو اس کی استطاعت سے باہر ہے کہ کوئی شخص ایسی چیز اللہ کی راہ میں دینے یا قربان کرنے کی نذر جو اس کی ملکیت میں ہی نہیں توایسی نذر اس سے ساقط ہو جاتی ہے اگر نذر ماننے والا ایسے کام کی نذر مانے جسے وہ مکمل طور پر تو پورا کرنے کی سکت نہیں رکھتا لیکن جزوی طور پر سکت موجود ہے ،اسے استطاعت کے مطابق پورا کرنا ضروری ہے ۔
اگر اس کی نذر جائز یا نیکی کے حوالے سے تھی اور اس نے اس نذر کو پورا نہیں کیا تو اس پر کیا کفارہ عائد ہو گا؟اس کے بارے میں اختلاف ہے بہت سے علماء کفارے کو جائز قرار نہیں دیتے بلکہ مستحب گردانتے ہیں وہ صحیح مسلم کی اس کتاب کی آخری حدیث میں کفارے کے حوالے سے جو حکم ہے اس استحباب پر محمول کرتے ہیں لیکن احتیاط یہی ہے کہ نذر پوری نہ کرنے کی صورت میں قسم توڑنے کا کفارہ دیا جائے۔حضرت عقبہ بن عامر ؓنے اپنی بہن کی نذر کے حوالے سے دو حدیث بیان کی (حدیث 4250)سنن ابي داود میں اسی روایت کے آخر میں :’’تُھدِیَ ھَدْيًا‘‘(اور قربانی کے جانور ساتھ لے جانے )کے الفاظ بھی ہیں (سنن ابي داود حديث 3296)حضرت عقبہ بن عامر کے علاوہ حضرت ابن عباس ؓ نے بھی رسول اللہ ﷺ سے یہی الفاظ روایت کیے ہیں اس لیے نذر ایفاء نہ کرنے یا ادھوری ایفاء کرنے کی صورت میں قسم والا کفارہ دینا ہی قرین احتیاط ہے۔امام شافعی مشروط نذر(نذر لحاج)کے معاملے میں کفارہ ضروری خیال کرتے ہیں۔اگر نذر غیر مشروط ہو اس کے عدم ایفاء پر کفارہ دینا ضروری ہے ، اس پر سب کا اتفاق ہے۔
مفضل بن فضالہ نے ہمیں حدیث بیان کی، (کہا: ) مجھے عبداللہ بن عیاش نے یزید بن ابی حبیب سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوالخیر سے اور انہوں نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: میری بہن نے ننگے پاؤں پیدل چل کر بیت اللہ جانے کی نذر مانی اور مجھ سے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ سے اس کے لیے فتویٰ لوں، میں نے آپﷺ سے فتویٰ پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ (بقدر استطاعت) پیدل چلے اور سوار ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ واقعہ یہ ہے کہ میری بہن نے نذر مانی کہ وہ ننگے پاؤں پیدل چل کر بیت اللہ جائے گی، تو اس نے مجھے کہا، کہ میں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ کر یہ مسئلہ بتاؤں، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، اس پر آپﷺ نے فرمایا: ’’وہ پیدل چلے (اور تھک جائے) تو سوار ہو جائے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Uqba bin Amir reported: My sister took a vow that she would walk bare foot to the house of Allah (Ka’bah). She asked me to inquire from Allah's Messenger (ﷺ) about it. I sought his decision and he said: She should walk on foot and ride also.