باب: بلا ضرورت کثرت سے سوالات کرنے کرنے کیث ممانعت اور روکنا’لاؤ ‘‘کی ممانعت ئاس سے مراد اپنے ذمے جو حق ہے اس کو ادا نہ کرنا اور جو اور جس چیز کا حق نہیں ہے اس کا مطالبہ کرنا ہے
)
Muslim:
The Book of Judicial Decisions
(Chapter: The prohibition of asking too much with no need. The prohibition of withholding the rights of others and asking of them, which means refusing to give others their rights and asking for that to which one is not entitles)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1715.
جریر نے سہیل سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بلاشبہ اللہ تمہارے لیے تین چیزیں پسند کرتا ہے اور تین ناپسند کرتا ہے، وہ تمہارے لیے پسند کرتا ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں نہ بٹو۔ اور وہ تمہارے لیے قیل و قال (فضول باتوں)، کثرتِ سوال اور مال ضائع کرنے کو ناپسند کرتا ہے۔‘‘
اَقْضِيَہ،قضا کی جمع ہے۔ جب کسی حق کے بارے میں دو آدمیوں یا دو فریقوں کے درمیان اختلاف ہو تو شریعت کے حکم کے مطابق اصل حقدار کا تعین کر کے اس کے حق میں فیصلہ میں کرنا’’قضا‘‘ہے ۔فیصلہ کرنے والا قاضی کہلاتا ہے ان فیصلوں کا نفاذ حکومت کی طاقت سے ہوتا ہے کسی بھی حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں سے فیصلوں کا نفاذ ہے ان کے بالمقابل فتویٰ کسی معاملے میں شریعت کا حکم واضح کرنے کا نام ہے اس کے پیچھے قوت نافذ نہیں ہوتی لیکن عموماً رائے اس کی حامی ہوتی ہے اس لیے فتووں کا اپنا وزن بھی ہوتا ہے اور فیصلہ کرنے والوں کے لیے رہنمائی بھی ۔فتویٰ ان امور میں بھی حاصل کیا جاتا ہے جو انسان نے رضا کا رانہ طور پر خود اپنے آپ پر نافذ کرنے ہوتے ہیں۔
اس حصے میں فیصلہ کرنے کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ نے جو رہنمائی فرمائی ہے اس کو واضح کیا گیا ہے آج کل اسے Peocedural laws کہتے ہیں سب سے پہلے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ حل طلب قضیے کے حوالے سے ثبوت اور گواہی پیش کرنا مدعی کی ذمہ داری ہے جبکہ قسم مدعا علیہ پر آتی ہے اگر ثبوت اور گواہی کو اچھی طرح کھنگالنے اور دوسرے فریق کا موقف سننے کے بعدحق و انصاف پر مبنی فیصلہ ممکن ہے تو فبہا اور اگر ممکن نہیں ،مدعی اپنی بات ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے تو مدعا علیہ پر قسم ہو گی اور اس کے مطابق فیصلہ ہو گا بعض اوقات نا کافی گواہی کی صورت میں مدعی سے بھی قسم کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور اس کی روشنی میں فیصلہ دیا جاتا ہے فیصلہ صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی ۔غلط فیصلہ فافذ بھی ہو جائے تو حق پھر بھی اسی کا رہتا ہے جو اصل حق دار تھاغلط فیصلے سے فائدہ اٹھانے والے حتمی فیصلے کے دن اس کی سزا پائیں گے اور حق اسی کو ملے جس کا تھا گھریلو ا اور خاندانی معاملات میں بھی فیصلہ کیا جا سکتا اور بعض اوقات دوسرے فریق کی موجودگی کے بغیر اصل معاملے کے حوالے سے شریعت کا حکم واضح کر دیا جاتا ہے ایسے فیصلوں پر عمل کا معاملہ انسان کے ضمیر پر منحصر ہوتا ہے بعض فیصلوں میں فریق صرف ایک ہی ہوتا ہے اور عمل درآمد بھی وہ خود ہی کرتا ہے ۔بطور مثال کثرت سے سوالات کرنے،قیل و قال میں مشغول ہونے اور جن حقوق کا مطالبہ نہیں کیا گیا،ان کی ادائیگی کے معاملات ہیں ان میں فیصلہ ایک ہی فریق کو سنایا گیا ہے جسے اسی فریق ہی نے نا فذ کرنا ہے آخری حصے میں فیصلہ کرنے والوں کے لیے رہنمائی ہے کہ وہ فیصلے کس طرح کریں گے اور یہ کہ فیصلوں کے حوالے سے ان کی ذمہ داری کیا ہے۔
جریر نے سہیل سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بلاشبہ اللہ تمہارے لیے تین چیزیں پسند کرتا ہے اور تین ناپسند کرتا ہے، وہ تمہارے لیے پسند کرتا ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں نہ بٹو۔ اور وہ تمہارے لیے قیل و قال (فضول باتوں)، کثرتِ سوال اور مال ضائع کرنے کو ناپسند کرتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین باتوں کو پسند کرتا ہے اور تمہاری تین باتوں کو ناپسند فرماتا ہے، وہ تمہارے لیے پسند کرتا ہے کہ تم اس کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور تم سب مل کر اللہ کی رسی (قرآن، دین) کو مضبوطی سے پکڑو اور گروہ گروہ نہ بنو اور تمہارے لیے ناپسند کرتا ہے، بلامقصد، قیل و قال (بحث و تمحیص) کرو، بکثرت سوال کرو اور مال ضائع کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
أَنْ تَعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو، یعنی دین کی پابندی پورے استحکام و مضبوطی کے ساتھ، وحدت و یگانت کی صورت میں اختیار کرو، ولا تفرقوا، فرقوں اور گروہوں میں تقسیم نہ ہو، اس سے ثابت ہوتا ہے، مسائل میں اختلاف کے باوجود، ان کی بنیاد پر گروہ بندی اور فرقہ سازی درست نہیں ہے، اللہ کو مسلمانوں کی وحدت و یگانت ہی پسند ہے۔ قِيْلَ وَ قَالَ: دونوں فعل ماضی کے صیغے بھی بن سکتے ہیں اور مصدر بھی، مقصد یہ ہے کہ بلا مقصد، فضول بحث و مباحثہ کرنا یا بلا ضرورت دینی مسائل میں بلا تحقیق و احتیاط مختلف اقوال نقل کرنا یا محض اپنی دھونس اور علمی رعب جمانے کے لیے بلا تحقیق، بحث و مناظرہ کرنا درست نہیں ہے۔ كَثرَة السَّوَال: بلا حاجت و ضرورت، محض مال میں اضافہ کرنے کے لیے لوگوں سے مانگنا یا ایسے مسائل پوچھنا جو ابھی پیش نہیں آئے اور نہ آنے کا فی الوقت امکان ہے یا ان میں کسی قسم کا اشکال اور پیچیدگی ہے، مسائل برزخ اور آخرت کے امور کی حقیقت و کیفیت کے بارے میں سوال کرنا یا ایسے سوال کرنا جو انسان کو شک اور حیرت میں ڈالنے والے ہیں، مثلا اللہ نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا ہے تو اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے۔ إِضَاعة الماَل: یعنی اسراف و تبذیر کرنا یا غیر شرعی کاموں پر مال خرچ کرنا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: Verily Allah likes three things for you and He disapproves three things for you. He is pleased with you that you worship Him and associate not anything with Him, that you hold fast the rope of Allah, and be not scattered; and He disapproves for you irrelevant talk, persistent questioning and the wasting of wealth.