ابوزمیل سماک حنفی نے کہا: مجھے عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: جب بدر کا دن تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ کی سندوں سے بیان کرتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ جب بدر کا دن آیا۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) يَهْتفُ بِرََبِّه: بلند آواز سے، اللہ سے دعا کرنے لگے، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس گریہ و زاری اور دعا کو دیکھ کر مسلمان مطمئن ہو جائیں اور ان کے دل تقویت حاصل کر لیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب آپ کی یہ کیفیت دیکھی تو انہیں اطمینان ہو گیا کہ اللہ آپ کی دعا قبول فرمائے گا اور اپنا وعدہ جلد پورا فرمائے گا، اس لیے عرض کیا، اے اللہ کے نبی! كَفَاكَ منَا شِدَّتكَ: آپ نے بلند آواز (نشید) سے جو دعا فرمائی ہے، وہ کافی ہے، اس لیے آپ بس کریں، خُطِمَ أَنفُهُ: اس کی ناک پر نشان پڑ گیا۔ (2) صناديد:صنديد کی جمع ہے، لیڈر، سردار۔ (3) هَوِيَ: پسند کیا۔ بتاكيت: میں رونے والی صورت بنا لوں گا، تاکہ آپ کی موافقت ہو سکے۔ (4) يُثخِنَ فِي الارض: زمین میں خون بہائے۔
فوائد ومسائل
غزوہ بدر 17 رمضان المبارک جمعہ کے دن پیش آیا اور یہ مسلمانوں کی کافروں سے باضابطہ پہلی جنگ تھی، جس میں ہر اعتبار سے ظاہری وسائل کے لحاظ سے مسلمان کم تر تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اور ان کے اطمینان قلب کے لیے ایک ہزار فرشتے نازل فرمانے کی بشارت فرمائی، تاکہ وہ ظاہری وسائل و اسباب میں فائق ہونے سے خوش ہو کر پوری جراءت و بسالت سے جنگ میں حصہ لیں، وگرنہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے بغیر بھی ان کو فتح یاب کر سکتا تھا، لیکن اس کی نصرت و مدد اسباب کے پردے میں آتی ہے، اس لیے ایک فرشتہ کی بجائے، جو ان کی تباہی کے لیے کافی تھا، ہزار فرشتے بھیجے اور ان میں سے بعض نے باقاعدہ جنگ میں بھی حصہ لیا ہے، جیسا کہ اس صحیح حدیث سے ثابت ہو رہا ہے، جمہور کا یہی موقف ہے، جب مسلمان فتح یاب ہو گئے اور ستر (70) مشرک قید کر لیے گئے تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے سامنے دو صورتیں پیش کیں، ان کو قتل کر دیا جائے یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے، لیکن اس صورت میں آئندہ سال اتنے ہی مسلمان شہید ہوں گے، ان دو صورتوں میں ایک کا انتخاب دراصل مسلمانوں کا امتحان تھا کہ وہ اپنی رائے سے کس کو اختیار کرتے ہیں، جیسا کہ ازواج مطہرات کے امتحان و آزمائش کے لیے انہیں دو صورتوں میں سے ایک کو اختیار کرنے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزادی دی تھی، جس کی تفصیل سورہ احزاب کی آیت، إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا۔ میں ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے واقعہ معراج میں دودھ اور شراب اور شہد پیش کیا گیا تھا تو آپ نے صحابہ سے رائے لی ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی طبعی نرم دلی اور شفقت کی بناء پر یہ رائے دی کہ یہ قیدی اپنے بھائی بند ہیں، آپ ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دیں، اس نرم سلوک اور احسان کی بنا پر ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ ان کے لیے ہدایت کا راستہ کھول دے اور یہ لوگ اور ان کے اتباع اولاد مسلمان ہو کر ہمارے دست بازو بنیں اور فدیہ کے مال سے ہم اپنی جنگی ضرورتیں پوری کر لیں گے، عام صحابہ نے بھی اس رائے کو پسند کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی طبعی رحم دلی اور شفقت و صلہ رحمی کی خاطر اس رائے کو پسند کیا، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس رائے سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی رائے پیش کی کہ یہ قیدی کفر کے امام اور کافروں کے لیڈر ہیں، ان کو ختم کر دیا جائے تو کفر و شرک کا زور ٹوٹ جائے گا، تمام مشرکوں پر رعب و دبدبہ قائم ہو جائے گا اور ہم کفر و شرک اور ان لوگوں سے انتہائی نفرت و بغض کا اظہار کرنے کی خاطر، اپنے اپنے عزیز و اقارب کو اپنے ہاتھوں سے قتل کریں اور حضرت سعد بن معاذ نے بھی ان کی تائید کی، لیکن فدیہ والوں کی رائے پر عمل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعہ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا اور اس کو (تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا) تم دنیا کا سازوسامان چاہتے ہو سے تعبیر کیا، یہ غلطی بظاہر ایسی تھی کہ اس پر مواخذہ ہوتا اور سخت سزا ملتی اور وہ عذاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا بھی گیا، لیکن اس بناء پر یہ عذاب روک دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ اجتہادی غلطی پر سزا نہیں دیتا، آیت میں آمدہ تہدید و عتاب کی بناء پر مسلمان ڈر گئے اور مال غنیمت سے احتراز کرنے لگے، اس لیے مال غنیمت کے حلال و طیب ہونے کا اعلان کر دیا گیا، (تفصیل کے لیے اس آیت کی تفسیر، حاشیہ عثمانی میں دیکھئے)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It has been narrated on the authority of 'Umar bin al-Khattab who said: When it was the day on which the Battle of Badr.