باب: اچھی قربانی کرنا کسی کو وکیل بنا ئے بغیر خود ذبح کرنا مستحب ہے اور بسم اللہ اور تکبیر پڑھنا
)
Muslim:
The Book of Sacrifices
(Chapter: It is recommended to select a good animal for the sacrifice and to slaughter it oneself, not delegating it to anyone else, and to say the name of Allah, and to say the Takbir)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1967.
عروہ بن زبیر نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک سینگوں والا مینڈھا لانے کا حکم دیا جو سیاہی میں چلتا ہو، سیاہی میں بیٹھتا ہو اور سیاہی میں دیکھتا ہو (یعنی پاؤں، پیٹ اور آنکھیں سیاہ ہوں)۔ پھر ایک ایسا مینڈھا قربانی کے لئے لایا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ "اے عائشہ! چھری لا۔" پھر فرمایا کہ "اس کو پتھر سے تیز کر لے۔" میں نے تیز کر دی۔ پھر آپ ﷺ نے چھری لی، مینڈھے کو پکڑا، اس کو لٹایا، پھر ذبح کرتے وقت فرمایا کہ "بسم اللہ، اے اللہ! محمد ( ﷺ) کی طرف سے اور محمد (ﷺ) کی آل کی طرف سے اور محمد (ﷺ) کی امت کی طرف سے اس کو قبول کر،" پھر اس کی قربانی کی۔
شکار اور ذبح کیے جانے والے عام جانوروں کے بعد امام مسلم نے قربانی کے احکام و مسائل بیان کیے ہیں جو بطور خاص اللہ کی رضا کے لیےذبح کی جاتی ہے ۔سب سے پہلے انہوں نے قربانی کے وقت کے بارے میں احادیث بیان کی ہیں کہ قربانی کا وقت نماز ،خطبے اور اجتماعی دعا کے بعد شروع ہوتا ہے۔اگر اس سے پہلے جانور ذبح کر دیا جائے تو وہ قربانی نہیں ، عام ذبیحہ ہے ۔اس کی مثال اس طرح ہے جیسے وضو سے پہلے نماز پڑھنے کی وہ اٹھک بیٹھک ہے ،تلاوت، تسبیح اور دعا بھی ہے مگر نماز نہیں ۔جن صحابہ نے لوگوں کو جلد گوشت تقسیم کرنے کی اچھی نیت سے نماز اور خطبے سے پہلے قربانیاں کر لیں تو انھیں دوبارہ قربانی کرنے کا حکم دیا گیا۔یہ فقر کا زمانہ تھا دوبارہ قربانی کرنا انتہائی مشکل تھا مشکلات کے حل کے لیے قربان کیے جانے والے جانوروں کی عمر وں میں کچھ سہولت اور رعایت دے دی گئی، لیکن قربانی دوبارہ کرنی پڑی۔پھر قربانی کے جانوورں کی کم از کم عمر کے بارے میں شریعت کے اصل حکم کا بیان ہے ، اس بعد پھر جن جانوروں کو اللہ کی رضا کے لیے ذبح کیا جا رہا ہے ان کو اچھے طریقے سے ذبح کرنے کی وضاحت ہے،پھر آلہ ذبح کا بیان ہے ۔اس میں وضاحت کی گئی ہے کہ ہڈی یا کسی جانور کے دانت سے ذبح نہیں کیا جا سکتا تیز دھار والی کسی چیز سے ذبح کیا جا سکتا ہے؟جس سے تیزی کے ساتھ اچھی طرح خون بہ جائے۔
قربانی کا گوشت کتنے دن تک کھایا جا سکتا ہے ؟اس حوالے سے احکام میں جو تدریج ملحوظ رکھی گئی ہے اس کو واضح کیا گیا ہے۔اس حوالے سے بھی یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بعض صحابہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کے بعد بھی حکم سے نا واقف رہ گئے تھے اور ابتدائی حکم کی پابندی کرتے رہے انسانی معاشرے میں یہ ایک فطری بات ہے ۔ ہر کسی کو ایک بات کا علم ہو جانا ممکن نہیں۔معتبر انھی کی بات ہے جنھیں علم ہے ۔قربانیوں کے ساتھ کسی مادہ جانور کے پہلوٹھی کے بچے کو بڑا ہونے کے بعد اللہ کی رضا کے لیے ذبح کرنے (العتیرہ) اور ریوڑ کے جانوروں کی ایک خاص تعداد کے بعد کسی ایک جانور کو اللہ کی راہ میں قربانی کرنے کا بیان بھی ہے ۔اس کے بعد قربانی کرنے والوں کے لیے ناخن اور بال نہ کٹوانے (حرام کی جیسی کچھ پابندیوں کو اپنانے) کا بیان ہے اور آخر میں اس بات کی وضاحت ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی رضا کے لیے (یا اس کے نام پر)ذبح کرنے والا اللہ کی لعنت کا مستوجب ہے۔ العیاذ باللہ
عروہ بن زبیر نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک سینگوں والا مینڈھا لانے کا حکم دیا جو سیاہی میں چلتا ہو، سیاہی میں بیٹھتا ہو اور سیاہی میں دیکھتا ہو (یعنی پاؤں، پیٹ اور آنکھیں سیاہ ہوں)۔ پھر ایک ایسا مینڈھا قربانی کے لئے لایا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ "اے عائشہ! چھری لا۔" پھر فرمایا کہ "اس کو پتھر سے تیز کر لے۔" میں نے تیز کر دی۔ پھر آپ ﷺ نے چھری لی، مینڈھے کو پکڑا، اس کو لٹایا، پھر ذبح کرتے وقت فرمایا کہ "بسم اللہ، اے اللہ! محمد ( ﷺ) کی طرف سے اور محمد (ﷺ) کی آل کی طرف سے اور محمد (ﷺ) کی امت کی طرف سے اس کو قبول کر،" پھر اس کی قربانی کی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، کہ ایک سینگوں والا مینڈھا لایا جائے، جس کے پیر، پیٹ اور آنکھیں سیاہ ہوں، تو اسے لایا گیا تاکہ آپ اسے قربانی کریں، آپﷺ نے اسے فرمایا: ’’اے عائشہ! چھری لاؤ‘‘ پھر فرمایا: ’’اسے پتھر سے تیز کرو‘‘ انہوں نے ایسا کیا، پھر آپ نے چھری پکڑی اور مینڈھا پکڑ کر اسے لٹایا، پھر اسے ذبح کرنے لگے اور فرمایا: ’’بسم اللہ! اے اللہ! محمد، آل محمد اور امت محمد کی طرف سے قبول فرمائیے‘‘، پھر اسے ذبح کر ڈالا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
مسلمانوں کے نزدیک بالاتفاق چھوٹا جانور بائیں پہلو پر لٹایا جائے گا، تاکہ دائیں ہاتھ میں چھری پکڑ کر بائیں ہاتھ سے اس کا سر پکڑا جا سکے اور ذبح کرنے میں سہولت ہو اور اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک ہی قربانی کرتے تھے، امام مالک اور امام احمد کے نزدیک انسان اپنے اہل و عیال سمیت ایک قربانی کر سکتا ہے، امام نووی نے اس کو اپنا اور جمہور کا موقف قرار دیا ہے اور کہا ہے، ثوری اور احناف کے نزدیک سب کی طرف سے ایک قربانی مکروہ ہے، لیکن خطیب الشربینی اور رملی نے لکھا ہے کہ یہ ثواب میں شرکت ہے، قربانی میں شرکت نہیں ہے، (تکملہ ج 3، ص 564)۔ اس طرح حنفیوں اور شافعیوں کے نزدیک دوسروں کو ثواب میں تو شریک کیا جا سکتا ہے، ان کی طرف سے قربانی نہیں ہو گی، یعنی احناف کے نزدیک قربانی صرف مالدار پر ہے، اس لیے زیر کفالت بچوں اور بیوی پر قربانی نہیں ہے، لیکن سوال یہ ہے، آپ نے کہیں یہ حکم دیا ہے کہ گھر کا ہر مالدار فرد قربانی دے، آپ نے اپنی بیویوں کو حکم دیا کہ قربانی کریں۔ اور یہ کہنا کہ اگر ایک بکری ایک سے زائد کے لیے کافی ہے، تو پھر گائے، سات سے زائد کی طرف سے جائز ہونی چاہیے، درست نہیں ہے، کیونکہ گائے میں سات حصے ہوں گے، یہ مراد نہیں ہے کہ سات افراد کی طرف سے ہے، اس طرح یہ کہنا کہ اگر بکری ایک گھرانے کی طرف سے ہے تو اس کا معنی ہوا کہ ایک گھر کے پانچ افراد ہیں، تو ایک کی طرف سے پانچواں حصہ ہوا، کیونکہ حدیث کا مقصد تو یہ ہے کہ خاندان کے نگران اور قیم کی قربانی سب کی طرف سے ہے، ہر ایک پر الگ الگ قربانی نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'A'isha reported that Allah's Messenger (ﷺ) commanded that a ram with black legs, black belly and black (circles) round the eyes should be brought to him, so that he should sacrifice it. He said to 'A'isha: Give me the large knife, and then said: Sharpen it on a stone. She did that. He then took it (the knife) and then the ram; he placed it on the ground and then sacrificed it, saying: Bismillah, Allah-humma Taqabbal min Muhammadin wa Al-i-Muhammadin, wa min Ummati Muhammadin (In the name of Allah," O Allah, accept [this sacrifice] on behalf of Muhammad and the family of Muhammad and the Umma of Muhammad" ).