باب: مردوں کے لیے ریشم وغیرہ (کی مختلف اقسام )پہننا حرا م ہے
)
Muslim:
The Book of Clothes and Adornment
(Chapter: The Prohibition Of Wearling Silk Etc. For Men)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2069.
حضرت اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے آزاد کردہ غلام عبداللہ (بن کیسان) سے روایت ہے، جو کہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا مولیٰ اور عطاء کے لڑکے کا ماموں تھا، نے کہا کہ مجھے اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پاس بھیجا اور کہلایا کہ میں نے سنا ہے کہ تم تین چیزوں کو حرام کہتے ہو، ایک تو کپڑے کو جس میں ریشمی نقش ہوں، دوسرے ارغوانی (یعنی سرخ گدے) زین پوش کو اور تیسرے تمام رجب کے مہینے میں روزے رکھنے کو، تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا کہ رجب کے مہینے کے روزوں کو کون حرام کہے گا؟ جو شخص ہمیشہ روزہ رکھے گا (حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہمیشہ روزہ علاوہ عیدین اور ایام تشریق کے رکھتے تھے اور ان کا مذہب یہی ہے کہ صوم دہر مکروہ نہیں ہے)۔ اور کپڑے کے ریشمی نقوش کا تو نے ذکر کیا ہے تو میں نے حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرماتے تھے کہ حریر (ریشم) وہ پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں، تو مجھے ڈر ہوا کہ کہیں نقشی کپڑا بھی حریر (ریشم) نہ ہو اور ارغوانی زین پوش، تو خود عبداللہ کا زین پوش ارغوانی ہے۔ یہ سب میں نے جا کر حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ جبہ موجود ہے، پھر انہوں نے طیالسی کسروانی جبہ (جو ایران کے بادشاہ کسریٰ کی طرف منسوب تھا) نکالا، جس کے گریبان پر ریشم لگا ہوا تھا اور دامن بھی ریشمی تھے۔ سیدہ اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ یہ جبہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات تک ان کے پاس تھا۔ جب وہ فوت ہو گئیں تو یہ جبہ میں نے لے لیا اور رسول اللہ ﷺ اس کو پہنا کرتے تھے، اب ہم اس کو دھو کر اس کا پانی بیماروں کو شفاء کے لئے پلاتے ہیں۔
تشریح:
فائدہ:
(1) کپڑے پر تھوڑی مقدار میں ریشم لگا ہو تو اس کا استعمال ممنوع نہیں، آئندہ احادیث میں وہ مقدار بیان کر دی گئی ہے جس کی اجازت ہے۔ (2) دائمی روزوں سے مراد اتنے دنوں کے روزے ہیں جنہیں رسول اللہ ﷺ نے دائمی روزوں کے برابر قراردیا تھا۔ رجب میں تو اور بھی زیادہ روزے رکھے جا سکتے ہیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے نہیں روکا تھا۔
لباس شرم وحیا،صحت اورموسم کےحوالےسےانسان کی بنیادی ضرورت ہےاوراس کےلیے زینت کاسبب بھی۔ اللہ تعالیٰ نےعورت اورمردکوالگ الگ اندازسےخوبصورت بنایاہے۔ دونوں کےلیے زینت کےاندازبھی مختلف ہیں۔ مرداگرعورت کی طرح زینت اختیارکرےتوبرالگتاہےاورعورت اگرمردکیطرح زینت اختیارکرےتوبری لگتی ہے۔
اسی طرح زینت اوراستکباربھی دوالگ الگ چیزیں ہیں۔ ان کےدرمیان جولکیرحائل ہےوہ مٹ جائےتوعام انسانوں کےلیے بہت سی مشکلات پیداہوتی ہیں۔ انسان کارہناسہنابھلےآرام دہ ہولیکن امارت کی نمودونمائش کاایساذریعہ نہ ہوجس سےعام لوگ مرعوب ہوں اوران کی دلوں میں اپنی محرومی اوردوسروں کی بےحدوحساب اورغیرمنصفانہ امارت کااذیت ناک احساس پیداہو۔
امام مسلمنےکتاب اللباس والزینۃ میں انسانی رہن سہن ،لباس اورسواری وغیرہ کےحوالےسےرسول اللہﷺ کےفرامین مقدسہ کوبیان کیاہے۔ سب سےپہلےامارت کی بےجانمائش اورانتہائی مسرفانہ زندگی کےحوالےسےسونےچاندی کےبرتن وغیرہ کےاستعمال کی حرمت بیان کی ہے۔ اس کےبعدصرف عورتوں کےلیے سونےکی زیورات کےجوازکابیان ہے۔ مردوں کےلیے انہیں قطعی طورپرحرام قراردیاگیاہے۔ اسی طرح ریشم کالباس بھی صرف عورتوں کےلیےجائزقراردیاگیاہے، مردوں کےلیے حرام ہے۔اگرغورکیاجائے تواس سےزینت کےحوالےسےعورتوں کووسیع ترمیدان ملتاہے۔ اس میں عورتوں کوایک طرح سےبرتری حاصل ہے۔ یہ چیزیں اگرمرداستعمال کریں تویہ ان کی وجاہت اوروقار کےخلاف ہے۔چونکہ یہ چیزیں عورتوں کےلیے حلال ہیں اس لیے مردان کی خریدوفروخت کرسکتےہیں۔ مردوں کواس حوالےسےاتنی سہولت دی گئی ہےکہ ان کےلباس میں بہت معمولی مقدارمیں ریشم موجودہوتووہ اسےاستعمال کرسکتےہیں، تاہم جلدی بیماری وغیرہ کی صورت میں طبی ضرورت کےتحت ریشم کالباس پہننےکی اجازت ہے۔
مردوں کواس طرح کےشوخےرنگ پہننےکی بھی اجازت نہیں جوصرف عورتوں ہی کواچھےلگتےاورنسوانی جمال کونمایاں کرتےہیں ،البتہ اسراف سےپرہیزکرتےہوئےمردوں کےلیے بھی دھاریوں والےیادوسرےجائز نقش ونگارسےمزین لباس کی اجازت ہے۔لباس کےذریعےسےکبرونخوت کااظہاراورمتکبرانہ لباس پہنناممنوع ہے۔ زمانہ قدیم سےکپڑوں کولٹکانا،مردوں کےلیے اظہارتکبرکی ایک علامت ہے۔ مسلمانوں کواس سےمنع کیاگیاہے۔رسول اللہﷺنےجب اردگردکےبادشاہو اورحاکموں کواسلام کی دعوت دینےکےلیے خط لکھنےکاارادہ فرمایاتوبطورمہراستعمال کرنےکےلیے چاندی کی انگوٹھی تیارکروائی ،ضرورتادیگرمسلمانوں کوبھی اس کی اجازت دی گئی اوریہ بھی بتایاگیاکہ کس انگلی میں پہنناموزوں ہے۔ جوتےپہننےکےحوالےسےآپﷺکن باتوں کوملحوظ رکھتے،اس کی وضاحت ہے۔ کس طرح کالباس استعمال کرتےہوئےکیاکیااحتیاط ملحوظ رکھنی چاہیےتاکہ ستراورحیاکےتقاضےپامال نہ ہوں، اس کی بھی وضاحت ہے۔ بالوں کےرنگنےکےحوالےسےاسلامی آداب بھی اسی کتاب میں بیان ہوئےہیں ۔گھرمیں اورخاص طورپرکپڑوں پرجانداروں کی تصویروں کی ممانعت اسلام کاشعارہے۔ اس کےساتھ ہی امام مسلمنےتصویریں بنانےکےحوالےسےاسلامی تعلیمات کوبیان کیاہے۔
اس کےبعدسواریوں اوردیگرجانوروں کےبارےمیں اورراستےکےحقوق کےحوالےسےرسول اللہﷺ کےفرامین بیان کیےگئےہیں۔ آخرمیں بالوں کی قبیح صورتوں اورتزیین وجمال کی غرض سےدجل وفریب پرمبنی اقدامات کی تددیدہے۔ اس کامقصدیہ ہےکہ انسان ایک دوسرےکومحض ظاہری حسن کےحوالےسےپسندنا پسندکرنےکےبجائےپوری شخصیت کےخالص اورحقیقی جمال کوترجیح دیں تاکہ کوئی بھی انسان،خصوصاعورت نہ محض آرائش کی چیزبن کراپنی شخصیت کوپست کرے،نہ ہی کوئی عورت ظاہری جمال میں کمی کی بناپرکم قدرقراردی جائے۔ سادگی حقیقت پسندی اورظاہری خوبیوں کےساتھ باطنی خوبیوں کوسراہنامعاشرےکی مضبوطی کاباعث بنتاہے۔ ظاہری خوبیوں کےدلدادہ لوگوں کےنزدیک چندبچوں کی پیدائش کےبعدعورت قابل نفرت بن جاتی ہے،جبکہ خاندان کےلیے اس وقت اس کی خدمات اورزیادہ ناگزیراورقابل قدرہوتی ہیں، محض ظاہری جمال ہی کوسراہاجانےلگےتوگھراجڑنےاورنمودونمائش کی دکانیں آبادہونےلگتی ہیں۔
حضرت اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے آزاد کردہ غلام عبداللہ (بن کیسان) سے روایت ہے، جو کہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا مولیٰ اور عطاء کے لڑکے کا ماموں تھا، نے کہا کہ مجھے اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پاس بھیجا اور کہلایا کہ میں نے سنا ہے کہ تم تین چیزوں کو حرام کہتے ہو، ایک تو کپڑے کو جس میں ریشمی نقش ہوں، دوسرے ارغوانی (یعنی سرخ گدے) زین پوش کو اور تیسرے تمام رجب کے مہینے میں روزے رکھنے کو، تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا کہ رجب کے مہینے کے روزوں کو کون حرام کہے گا؟ جو شخص ہمیشہ روزہ رکھے گا (حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہمیشہ روزہ علاوہ عیدین اور ایام تشریق کے رکھتے تھے اور ان کا مذہب یہی ہے کہ صوم دہر مکروہ نہیں ہے)۔ اور کپڑے کے ریشمی نقوش کا تو نے ذکر کیا ہے تو میں نے حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرماتے تھے کہ حریر (ریشم) وہ پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں، تو مجھے ڈر ہوا کہ کہیں نقشی کپڑا بھی حریر (ریشم) نہ ہو اور ارغوانی زین پوش، تو خود عبداللہ کا زین پوش ارغوانی ہے۔ یہ سب میں نے جا کر حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ جبہ موجود ہے، پھر انہوں نے طیالسی کسروانی جبہ (جو ایران کے بادشاہ کسریٰ کی طرف منسوب تھا) نکالا، جس کے گریبان پر ریشم لگا ہوا تھا اور دامن بھی ریشمی تھے۔ سیدہ اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ یہ جبہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات تک ان کے پاس تھا۔ جب وہ فوت ہو گئیں تو یہ جبہ میں نے لے لیا اور رسول اللہ ﷺ اس کو پہنا کرتے تھے، اب ہم اس کو دھو کر اس کا پانی بیماروں کو شفاء کے لئے پلاتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
(1) کپڑے پر تھوڑی مقدار میں ریشم لگا ہو تو اس کا استعمال ممنوع نہیں، آئندہ احادیث میں وہ مقدار بیان کر دی گئی ہے جس کی اجازت ہے۔ (2) دائمی روزوں سے مراد اتنے دنوں کے روزے ہیں جنہیں رسول اللہ ﷺ نے دائمی روزوں کے برابر قراردیا تھا۔ رجب میں تو اور بھی زیادہ روزے رکھے جا سکتے ہیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے نہیں روکا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے آزاد کردہ غلام عبداللہ جو عطارد کی اولاد کے ماموں تھے، بیان کرتے ہیں، مجھے حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پاس بھیجا اور کہا: مجھے خبر ملی ہے کہ آپ تین چیزوں کو حرام ٹھہراتے ہیں، کپڑوں کے نقش و نگار، ارغوانی گدے اور پورے رجب کے روزے تو حضرت عبداللہ ررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے جواب دیا: جو تو نے رجب کے بارے میں کہا تو وہ انسان جو ہمیشہ روزہ رکھتا ہے تو وہ یہ کیسے کہہ سکتا ہے، رہا جو تو نے کپڑے کے نقش و نگار کے بارے میں کہا ہے تو میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ فرماتے سنا ہے وہ کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ’’ریشم وہی پہنتا ہے جس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔‘‘ اس لیے مجھے اندیشہ ہے کہ نقش و نگار اس میں داخل نہ ہو، رہے انتہائی سرخ (ارغوانی) گدے تو یہ عبداللہ کا گدا ہے اور وہ ارغوانی تھا تو میں حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس واپس آیا اور انہیں بتایا تو انہوں نے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جبہ ہے اور انہوں نے میرے سامنے ایک ارغوانی کسروانی جبہ پیش کیا، جس کا گریبان دیباج کا تھا اور اس کے دامن دیباج سے سلے ہوئے تھے اور انہوں نے بتایا: یہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات تک ان کے پاس تھا، جب وہ وفات پا گئیں تو میں نے لے لیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے پہنتے تھے اور ہم اسے صحت یابی کے لیے دھو کر بیماروں کو پلاتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) العلم في الثوب: کپڑے کے نقش ونگار، بیل بوٹے۔ (2) ارجوان: انتہائی سرخ رنگ، اگر گدانے سرخ ریشم کا تو جائز نہیں ہے، ریشم کےعلاوہ سرخ گدا جائز ہے۔ (3) كيف بمن يصوم الابد: یہ بات وہ کیسے کہہ سکتا ہے، جو ممنوعہ ایام کے علاوہ ہمیشہ روزہ رکھتا ہے۔ (4) خفت ان يكون العلم منه: مجھے یہ اندیشہ ہے کہ ریشمی نقش ونگار ریشم کے حکم میں نہ ہوں۔ (5) طيالسة: طيلسان کی جمع ہے، بادشاہوں اور سرداروں کا مخصوص لباس۔ (6) كسروانيه: کسریٰ ایران کی طرف منسوب ہے۔ (7) لبنة:گریبان کا نقش۔ (8) فروج الجبة: جبہ کا دامن۔ (9) خرجان: اگلا اورپچھلا چاق۔ المكفوف: سلا ہوا، گریبان، آستین اور دامن پر ریشمی بیل بوٹے، بشرطیکہ چار انگلی سے زائد نہ ہوں، جائز ہیں۔
فوائد ومسائل
حضرت اسماء رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جبہ دکھایا، تاکہ یہ معلوم ہو سکے، ریشم کے نقش و نگار ریشم کے حکم میں نہیں ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abdullah. the freed slave of Asma' (the daughter of Abu Bakr). the maternal uncle of the son of 'Ata, reported: Asma' sent me to 'Abdullah bin 'Umar saying: The news has reached me that you prohibit the use of three things: the striped robe. saddle cloth made of red silk. and the fasting in the holy month of Rajab. 'Abdullah said to me: So far as what you say about fasting in the month of Rajab, how about one who observes continuous fasting? -and so far as what you say about the striped garment, I heard Umar bin Khatab say that he had heard from Allah's Messenger (ﷺ) : He who wears silk garment has no share for him (in the Hereafter), and I am afraid it may not be that striped garment; and so far as the red saddle clotb is concerned that is the saddle cloth of'Abdullah and it is red. I went back to Asma' and informed her. whereupon she said: Here is the cloak of Allah's Messenger (ﷺ) . and she brought out to me that cloak made of Persian cloth with a hem of brocade, and its sleeves bordered with brocade and said: This wall Allah's Messenger's cloak with 'A'isha until she died, and when she died. I got possession of it. The Apostle of Allah (ﷺ) used to wear that, and we waslied it for the sick and sought cure thereby.