باب: تکبر کی بنا پر کپڑا گھسیٹ کر چلنے کی ممانعت اور یہ وضا حت کہ کپڑا لٹکا نے کی جا ئز حد کیا ہے اور مستحب کیا ہے؟
)
Muslim:
The Book of Clothes and Adornment
(Chapter: The Prohibition Of Letting One's Garment Drag Out Of Pride, And The Extent To Which It Is Permissible To Let It Hang Down And The Extent To Which It Is Recommended)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2085.
امام مالک نے نافع عبد اللہ بن دینار اور زید بن اسلم سے روایت کی، ان سب نے انھیں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص تکبر سے کپڑا گھسیٹ کر چلے اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظر تک نہیں کرے گا۔‘‘
لباس شرم وحیا،صحت اورموسم کےحوالےسےانسان کی بنیادی ضرورت ہےاوراس کےلیے زینت کاسبب بھی۔ اللہ تعالیٰ نےعورت اورمردکوالگ الگ اندازسےخوبصورت بنایاہے۔ دونوں کےلیے زینت کےاندازبھی مختلف ہیں۔ مرداگرعورت کی طرح زینت اختیارکرےتوبرالگتاہےاورعورت اگرمردکیطرح زینت اختیارکرےتوبری لگتی ہے۔
اسی طرح زینت اوراستکباربھی دوالگ الگ چیزیں ہیں۔ ان کےدرمیان جولکیرحائل ہےوہ مٹ جائےتوعام انسانوں کےلیے بہت سی مشکلات پیداہوتی ہیں۔ انسان کارہناسہنابھلےآرام دہ ہولیکن امارت کی نمودونمائش کاایساذریعہ نہ ہوجس سےعام لوگ مرعوب ہوں اوران کی دلوں میں اپنی محرومی اوردوسروں کی بےحدوحساب اورغیرمنصفانہ امارت کااذیت ناک احساس پیداہو۔
امام مسلمنےکتاب اللباس والزینۃ میں انسانی رہن سہن ،لباس اورسواری وغیرہ کےحوالےسےرسول اللہﷺ کےفرامین مقدسہ کوبیان کیاہے۔ سب سےپہلےامارت کی بےجانمائش اورانتہائی مسرفانہ زندگی کےحوالےسےسونےچاندی کےبرتن وغیرہ کےاستعمال کی حرمت بیان کی ہے۔ اس کےبعدصرف عورتوں کےلیے سونےکی زیورات کےجوازکابیان ہے۔ مردوں کےلیے انہیں قطعی طورپرحرام قراردیاگیاہے۔ اسی طرح ریشم کالباس بھی صرف عورتوں کےلیےجائزقراردیاگیاہے، مردوں کےلیے حرام ہے۔اگرغورکیاجائے تواس سےزینت کےحوالےسےعورتوں کووسیع ترمیدان ملتاہے۔ اس میں عورتوں کوایک طرح سےبرتری حاصل ہے۔ یہ چیزیں اگرمرداستعمال کریں تویہ ان کی وجاہت اوروقار کےخلاف ہے۔چونکہ یہ چیزیں عورتوں کےلیے حلال ہیں اس لیے مردان کی خریدوفروخت کرسکتےہیں۔ مردوں کواس حوالےسےاتنی سہولت دی گئی ہےکہ ان کےلباس میں بہت معمولی مقدارمیں ریشم موجودہوتووہ اسےاستعمال کرسکتےہیں، تاہم جلدی بیماری وغیرہ کی صورت میں طبی ضرورت کےتحت ریشم کالباس پہننےکی اجازت ہے۔
مردوں کواس طرح کےشوخےرنگ پہننےکی بھی اجازت نہیں جوصرف عورتوں ہی کواچھےلگتےاورنسوانی جمال کونمایاں کرتےہیں ،البتہ اسراف سےپرہیزکرتےہوئےمردوں کےلیے بھی دھاریوں والےیادوسرےجائز نقش ونگارسےمزین لباس کی اجازت ہے۔لباس کےذریعےسےکبرونخوت کااظہاراورمتکبرانہ لباس پہنناممنوع ہے۔ زمانہ قدیم سےکپڑوں کولٹکانا،مردوں کےلیے اظہارتکبرکی ایک علامت ہے۔ مسلمانوں کواس سےمنع کیاگیاہے۔رسول اللہﷺنےجب اردگردکےبادشاہو اورحاکموں کواسلام کی دعوت دینےکےلیے خط لکھنےکاارادہ فرمایاتوبطورمہراستعمال کرنےکےلیے چاندی کی انگوٹھی تیارکروائی ،ضرورتادیگرمسلمانوں کوبھی اس کی اجازت دی گئی اوریہ بھی بتایاگیاکہ کس انگلی میں پہنناموزوں ہے۔ جوتےپہننےکےحوالےسےآپﷺکن باتوں کوملحوظ رکھتے،اس کی وضاحت ہے۔ کس طرح کالباس استعمال کرتےہوئےکیاکیااحتیاط ملحوظ رکھنی چاہیےتاکہ ستراورحیاکےتقاضےپامال نہ ہوں، اس کی بھی وضاحت ہے۔ بالوں کےرنگنےکےحوالےسےاسلامی آداب بھی اسی کتاب میں بیان ہوئےہیں ۔گھرمیں اورخاص طورپرکپڑوں پرجانداروں کی تصویروں کی ممانعت اسلام کاشعارہے۔ اس کےساتھ ہی امام مسلمنےتصویریں بنانےکےحوالےسےاسلامی تعلیمات کوبیان کیاہے۔
اس کےبعدسواریوں اوردیگرجانوروں کےبارےمیں اورراستےکےحقوق کےحوالےسےرسول اللہﷺ کےفرامین بیان کیےگئےہیں۔ آخرمیں بالوں کی قبیح صورتوں اورتزیین وجمال کی غرض سےدجل وفریب پرمبنی اقدامات کی تددیدہے۔ اس کامقصدیہ ہےکہ انسان ایک دوسرےکومحض ظاہری حسن کےحوالےسےپسندنا پسندکرنےکےبجائےپوری شخصیت کےخالص اورحقیقی جمال کوترجیح دیں تاکہ کوئی بھی انسان،خصوصاعورت نہ محض آرائش کی چیزبن کراپنی شخصیت کوپست کرے،نہ ہی کوئی عورت ظاہری جمال میں کمی کی بناپرکم قدرقراردی جائے۔ سادگی حقیقت پسندی اورظاہری خوبیوں کےساتھ باطنی خوبیوں کوسراہنامعاشرےکی مضبوطی کاباعث بنتاہے۔ ظاہری خوبیوں کےدلدادہ لوگوں کےنزدیک چندبچوں کی پیدائش کےبعدعورت قابل نفرت بن جاتی ہے،جبکہ خاندان کےلیے اس وقت اس کی خدمات اورزیادہ ناگزیراورقابل قدرہوتی ہیں، محض ظاہری جمال ہی کوسراہاجانےلگےتوگھراجڑنےاورنمودونمائش کی دکانیں آبادہونےلگتی ہیں۔
امام مالک نے نافع عبد اللہ بن دینار اور زید بن اسلم سے روایت کی، ان سب نے انھیں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص تکبر سے کپڑا گھسیٹ کر چلے اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظر تک نہیں کرے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو انسان تکبر اور گھمنڈ سے اپنا کپڑا گھسیٹتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر نظر رحمت نہیں ڈالتا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
خيلاء:خود پسندی،انسان کا اپنے آپ کو کچھ سمجھنا اور اپنی کسی موہوم خوبی پر اترانا۔
فوائد ومسائل
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ٹخنوں سے نیچے تہبند شلوار، پاجامہ، قمیص وغیرہ لٹکانا جبکہ تکبر، گھمنڈ اور خود پسندی کے لیے ہو، حرام ہے، لیکن اگر بلا تکبر و غرور لٹکاتا ہے، تو وہ اسلامی آداب کے منافی ہے، اس لیے بعض روایات میں اس کو بلا قید ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’تہبند کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہو گا، وہ جہنم میں ہو گا۔‘‘ تکبر یا خود پسندی ایک مخفی امر ہے اور چادر لٹکانا اس کا فتنہ اور محل ہے، اس لیے چادر لٹکانا، تکبر اور خود پسندی کے قائم مقام ہو گا، جیسا کہ سفر کی علت مشقت ہے، لیکن یہ ایک پوشیدہ چیز ہے، اس لیے سفر کو بلا قید قصر اور افطار کا سبب قرار دیا جاتا ہے، اس لیے اگر کوئی جان بوجھ کر چادر لٹکاتا ہے اور کہتا ہے، میں تکبر کے لیے ایسے نہیں کرتا تو اس کی بات قابل قبول نہیں ہو گی، ہاں اگر غیر شعوری طور پر اتفاقا ایسے ہو جائے تو اس پر کوئی گرفت نہیں ہے، اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، ’’إياك وَجَر الإزار، فإن جَر الإزار من المخيلة‘‘ ’’چادر گھسیٹنے سے بچو، کیونکہ چادر گھسیٹنا خود پسندی کی بات ہے۔‘‘
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn 'Umar reported Allah's Messenger (ﷺ) having said: Allah will not look upon him who trails his garment out of pride.