باب: ابوالقاسم کنیت رکھنے کی ممانعت اور اچھے ناموں کا بیان
)
Muslim:
The Book of Manners and Etiquette
(Chapter: The Prohibition Of Taking The Kunyah Abul-Qasim, And The Names Which Are Recommended)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2134.
ابو بکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، زہیر بن حرب، اور ابن نمیر نے کہا: ہمیں سفیان بن عینیہ نے ایوب سے حدیث بیان کی، انھوں نے محمد بن سیرین سے روایت کی، کہا: میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: ابو القاسم ﷺ نے فرمایا: ’’میرے نام پر نام رکھو اور میری کنیت پر کنیت نہ رکھو۔‘‘عمرو نےکہا: ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ر وایت ہے‘‘ کہا اور’’میں نے سنا‘‘ نہیں کہا۔
تشریح:
فوائدو مسائل:
1۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ حدیث ان کے دو شاگردوں سالم بن ابی جعد اور محمد بن منکدر کے واسطے سے روایت ہوئی ہے۔ سالم بن ابی جعد کی روایت امام مسلم نے ان کے شاگردوں منصور، حسین، اعمش، قتادہ ، محمد بن جعفر غندر، سلیمان اور ان کے بعد ان کے مختلف شاگردوں کے حوالے سے بیا ن کی ہے۔ سالم اور ان کے شاگردوں کی جن سندوں سے امام مسلم نے یہ حدیث بیان کی ان سب نے یہ روایت کیا ہے کہ ’’اس شخص نے اپنے بیٹے کا نام محمد رکھا‘‘ یہی الفاظ درست ہیں۔ اس کی ایک اہم ترین دلیل یہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں سالم بن ابی جعد ہی کے شاگردوں سے ’’أراد أن يسميه القاسم‘‘ ’’اس نے چاہا کہ اس کا نام قاسم رکھے ‘‘ (صحیح البخاري ،حديث: 3114) اگلی روایت میں ہے: (ولد لي غلامٌ فسميته القاسم) ’’میرا ایک بیٹا پیدا ہوا میں نے اس کا نام قاسم رکھاہے۔‘‘ (صحيح البخاري، حديث: 3115) اسی طرح صحیح البخاری میں سالم ہی سے یہ الفاظ منقول ہیں: (عن جابر رضي الله تعالي عنه قال: ولد لرجل منِاَّ غلام ٌ فسماه القاسم)’’حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ کہ ہم ( انصار)میں سے ایک شحص کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو اس نے اس کا نام قاسم رکھا‘‘ (صحيح البخاري، حديث: 6187) یہ سب احادیث اسی حدیث کی مؤید ہیں جو امام بخاری اور امام مسلم رحمہا اللہ نے محمد بن منکدر کے حوالے سے بیان کی ہے: (صحيح البخاري، حديث 6186، و صحيح مسلم، حديث:5595) انصار کے الفاظ کہ ہم تمھیں ابو القاسم کی کنیت سے نہیں پکاریں گے اور رسول اللہ ﷺ کا فرمان: ’’میرے نام پر نام نہ رکھو اور میری کنیت پر کنیت نہ رکھو‘‘ اسی کی تائید کرتے ہیں کہ اس شخص نے اپنے بیٹے کا نام قاسم تجویز کیا تھا۔ یہ بات بعص راویوں کا وہم ہے کہ اس نے بیٹے کا نام محمدرکھا تھا۔ نام کے حوالے سے بعض راویوں کے وہم کے باوجود سب نے رسول اللہ ﷺ کے اپنے الفاظ: جن سے شریعت کا حکم اخذ ہوتا ہے : بالکل ایک ہی طرح سے روایت کیے ہیں: ’’میرے نام پر نام نہ رکھو اور میری کنیت پر کنیت نہ رکھو۔‘‘ راویانِ حدیث کی اصل توجہ رسول اللہ ﷺ کے اپنے الفاظِ مبارک کے ضبط و تحفظ پر مرکوز ہوتی تھی۔ دوسری چیز وں کی حیثیت مختلف تھی۔ 2۔ امت کے تمام ادوار کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ کے دوران میں کسی شخص کے لیے جائز نہ تھا کہ آپﷺ کی کنیت پر اپنی کنیت رکھے، اور آپﷺ کی رحلت کے بعد آپ کا نام اور آپﷺ کی کنیت دونوں ایک ساتھ اختیار کرنے کا جواز ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! اگر آپ کے بعد میرے ہاں بچہ پیدا ہو تو کیا میں اس کا نام اور کنیت آپ کے نام اور کنیت پر رکھ سکتا ہوں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ (سنن أبي داؤد، حديث:4967) امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یوں عنوان قائم کیا ہے: (باب في الرخصة في الجمع بينهما) ’’(نبی کریمﷺکا ) نام اور کنیت جمع کرلینے رخصت۔‘‘
ادب سے مراد زندگی گزارنے کے طریقوں میں سے بہترین طریقہ سیکھنا اور اختیار کرنا ہے۔ ایسا طریقہ جس سے انفرادی اور اجتماعی زندگی آسان ،مشکلات سے محفوظ،خوشگوار اور عزت مند ہو جائے رسول اللہ ﷺ کے فرمان(أدَّبَبَنِي رَبِّي فأحْسَنَ تَأ دِيبِي)"" میرے رب نے مجھے ادب سکھایا اور بہترین انداز میں سکھایا ‘‘ میں اسی مفہوم کی طرف اشارہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے وہی بہترین ادب اپنی امت کو بھی سکھایا ہے آپ نے ایسے عمومی آداب بھی سکھائے جو ہر انسان کے لیے ہیں ، اور اسے معزز اور لوگوں کا محبوب بنا دیتے ہیں آپ ﷺ نے خاص ذمہ داریوں اور پیشوں کے حوالے سے بھی بہترین آداب سکھائے ہیں،مدرس کے آداب ،طالب علم کے آداب ،قاضی اور حاکم وغیرہ کے آداب۔
ادب کا لفظ کسی زبان کی ان تحریروں پر بھی بولا جاتا ہے جو انسان کی دلی واردات کی ترجمانی کرتی ہیں یا ان کے ذریعے سے مختلف شخصیات کے حوالے سے کسی انسان کے جو جذبات ہیں، ان کا اظہار ہوتا ہے اس کے لیے نظم و نثر کے نوع در نوع کئی پیرائے اختیار کیے جاتے ہیں ان پر بھی لفظ ادب کے اطلاق کا ایک سبب یہی ہے کہ اس سے بھی کئی معاشرتی حوالوں سے انسانوں کی تربیت ہوتی ہے اردو اصطلاح میں فنون ادب کے لیے ’’ادبیات‘‘ کی اصطلاح مروج ہے۔
امام مسلم نے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے آداب کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ کے خوبصورت طریقے اور آپ کی تعلیمات اس کتا ب میں اور اس کے بعد کی متعدد ذیلی کتب میں جمع کی ہیں وہ سب بھی حقیقت میں کتاب الآداب ہی کا حصہ ہیں ۔انھیں اپنی اہمیت کی وجہ سے الگ الگ کتا ب کا عنوان دیا گیا ہے لیکن سب کا تعلق آداب ہی سے ہے بعض شارحین نے کتاب الرؤیا تک اگلے تمام ابواب کو کتاب الآداب ہی میں ضم کر دیا ہے اس سلسلے کی پہلی کتاب میں جس کا نام بھی کتاب الآداب ہے،ان میں سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی کنیت اور آپ کے نامِ نامی کے حوالے سے ادب بیان کیا گیا ہے اس کے بعد نام رکھنے کے آداب ، نا مناسب ناموں سے بچنے اور اگر رکھے ہوئے ہوں تو ان کو بدلنے کی اہمیت ،احترام،محبت اور شفقت کے اظہار کے لیے کسی اچھے رشتے کے نام پر کسی کو پکارنے کا جواز وغیرہ جیسے عنوانات کے تحت احادیث بیان کی گئی ہیں اس کے بعد کسی کے گھر داخل ہونے کے لیے اجازت مانگنے،اجازت نہ ملے تو واپس چلے جانے کے آداب بیان ہوئے ہیں۔ آخر میں گھروں کی خلوت کے احترام کی تاکید کے متعلق احادیث ذکر کی گئی ہیں۔
ابو بکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، زہیر بن حرب، اور ابن نمیر نے کہا: ہمیں سفیان بن عینیہ نے ایوب سے حدیث بیان کی، انھوں نے محمد بن سیرین سے روایت کی، کہا: میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: ابو القاسم ﷺ نے فرمایا: ’’میرے نام پر نام رکھو اور میری کنیت پر کنیت نہ رکھو۔‘‘عمرو نےکہا: ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ر وایت ہے‘‘ کہا اور’’میں نے سنا‘‘ نہیں کہا۔
حدیث حاشیہ:
فوائدو مسائل:
1۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ حدیث ان کے دو شاگردوں سالم بن ابی جعد اور محمد بن منکدر کے واسطے سے روایت ہوئی ہے۔ سالم بن ابی جعد کی روایت امام مسلم نے ان کے شاگردوں منصور، حسین، اعمش، قتادہ ، محمد بن جعفر غندر، سلیمان اور ان کے بعد ان کے مختلف شاگردوں کے حوالے سے بیا ن کی ہے۔ سالم اور ان کے شاگردوں کی جن سندوں سے امام مسلم نے یہ حدیث بیان کی ان سب نے یہ روایت کیا ہے کہ ’’اس شخص نے اپنے بیٹے کا نام محمد رکھا‘‘ یہی الفاظ درست ہیں۔ اس کی ایک اہم ترین دلیل یہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں سالم بن ابی جعد ہی کے شاگردوں سے ’’أراد أن يسميه القاسم‘‘ ’’اس نے چاہا کہ اس کا نام قاسم رکھے ‘‘ (صحیح البخاري ،حديث: 3114) اگلی روایت میں ہے: (ولد لي غلامٌ فسميته القاسم) ’’میرا ایک بیٹا پیدا ہوا میں نے اس کا نام قاسم رکھاہے۔‘‘ (صحيح البخاري، حديث: 3115) اسی طرح صحیح البخاری میں سالم ہی سے یہ الفاظ منقول ہیں: (عن جابر رضي الله تعالي عنه قال: ولد لرجل منِاَّ غلام ٌ فسماه القاسم)’’حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ کہ ہم ( انصار)میں سے ایک شحص کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو اس نے اس کا نام قاسم رکھا‘‘ (صحيح البخاري، حديث: 6187) یہ سب احادیث اسی حدیث کی مؤید ہیں جو امام بخاری اور امام مسلم رحمہا اللہ نے محمد بن منکدر کے حوالے سے بیان کی ہے: (صحيح البخاري، حديث 6186، و صحيح مسلم، حديث:5595) انصار کے الفاظ کہ ہم تمھیں ابو القاسم کی کنیت سے نہیں پکاریں گے اور رسول اللہ ﷺ کا فرمان: ’’میرے نام پر نام نہ رکھو اور میری کنیت پر کنیت نہ رکھو‘‘ اسی کی تائید کرتے ہیں کہ اس شخص نے اپنے بیٹے کا نام قاسم تجویز کیا تھا۔ یہ بات بعص راویوں کا وہم ہے کہ اس نے بیٹے کا نام محمدرکھا تھا۔ نام کے حوالے سے بعض راویوں کے وہم کے باوجود سب نے رسول اللہ ﷺ کے اپنے الفاظ: جن سے شریعت کا حکم اخذ ہوتا ہے : بالکل ایک ہی طرح سے روایت کیے ہیں: ’’میرے نام پر نام نہ رکھو اور میری کنیت پر کنیت نہ رکھو۔‘‘ راویانِ حدیث کی اصل توجہ رسول اللہ ﷺ کے اپنے الفاظِ مبارک کے ضبط و تحفظ پر مرکوز ہوتی تھی۔ دوسری چیز وں کی حیثیت مختلف تھی۔ 2۔ امت کے تمام ادوار کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ کے دوران میں کسی شخص کے لیے جائز نہ تھا کہ آپﷺ کی کنیت پر اپنی کنیت رکھے، اور آپﷺ کی رحلت کے بعد آپ کا نام اور آپﷺ کی کنیت دونوں ایک ساتھ اختیار کرنے کا جواز ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! اگر آپ کے بعد میرے ہاں بچہ پیدا ہو تو کیا میں اس کا نام اور کنیت آپ کے نام اور کنیت پر رکھ سکتا ہوں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ (سنن أبي داؤد، حديث:4967) امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یوں عنوان قائم کیا ہے: (باب في الرخصة في الجمع بينهما) ’’(نبی کریمﷺکا ) نام اور کنیت جمع کرلینے رخصت۔‘‘
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے نام پر نام رکھو اور میری کنیت پر کنیت نہ رکھو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported that Abu'l-Qasim (ﷺ) said: Give name (to your children) after my name but do not give the kunya (of Abu'l- Qasim) after my kunya. 'Amr reported from Abu Hurairah (RA) that he did not say that he had heard it directly from Allah's Apostle (ﷺ) .