باب: برے نام اور نافع(نفع پہنچانے والا) جیسے نام رکھنا مکرو ہے
)
Muslim:
The Book of Manners and Etiquette
(Chapter: It Is Disliked To Use Objectionable Names And Names Such As Nafi' (Beneficial) Etc)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2137.
زہیر نے کہا: ہمیں منصور نے ہلال بن یساف سے، انھوں نے ربیع بن عمیلہ سے، انھوں نے حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ چارکلمات ہیں:‘‘ (سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ ) اور ،تم (ذکر کرتے ہوئے) ان میں سے جس کلمے کو پہلے کہو، کوئی حرج نہیں، اور تم اپنے لڑکے کا نام یسار، رباح، نجیح،(کامیاب ہونے والا) اور افلح نہ رکھنا، کیونکہ تم پوچھو گے: فلاں (مثلا: افلح) یہاں ہے، وہ نہیں ہو گا تو (جواب دینے والا) کہے گا: (یہاں کوئی) افلح (زیادہ فلاح پانے والا) نہیں ہے۔‘‘ (سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:) یہ چار ہی (نام) ہیں، میری ذمہ داری پر اور کوئی نام نہ بڑھانا۔
تشریح:
فوائد ومسائل:
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ نے جو چار نام رسول اللہ ﷺ سے سنے وہ بتائے اور حدیث میں جو نام ہیں ان کے علاوہ اور کوئی نام اپنی طرف سے بڑھا کر رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرنے سے منع کردیا۔ حدیث بیان کرتے ہوئے یہ احتیاط ضروری ہے لیکن بسا اوقات بتانے والا نسیان یا وہم کا شکار ہو جاتا ہے، مثلاً: پہلی دونوں روایتوں میں ان چار ناموں میں نافع کو شمار کیا گیاہے، اس حدیث میں اس کی بجائے نجیح ہے ایسا عمداً نہیں ہوا، اس لیے ان شاءاللہ اس پر اللہ تعالی عفوودرگزر سے کام لےگا۔ اس کے بارے میں اختلاف ہے کہ انھی ناموں کے ہم معنی ناموں کو ان پر قیاس کیا جا سکتاہے یا نہیں؟ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ ان جیسے دوسرے ناموں کو انھی ناموں پر قیاس کرنے کے قائل ہیں۔ لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ یہ نہی تنزیہی ہے (یعنی بہتر یہ ہے کہ نام نہ رکھے جائیں۔) تحریمی نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے ایک آزاد کروہ غلام کا نام (پہلے سے ہی) افلح اوردوسرے کا یسار تھا۔ آپ ﷺ نے ان ناموں کو تبدیل نہیں فرمایا۔
ادب سے مراد زندگی گزارنے کے طریقوں میں سے بہترین طریقہ سیکھنا اور اختیار کرنا ہے۔ ایسا طریقہ جس سے انفرادی اور اجتماعی زندگی آسان ،مشکلات سے محفوظ،خوشگوار اور عزت مند ہو جائے رسول اللہ ﷺ کے فرمان(أدَّبَبَنِي رَبِّي فأحْسَنَ تَأ دِيبِي)"" میرے رب نے مجھے ادب سکھایا اور بہترین انداز میں سکھایا ‘‘ میں اسی مفہوم کی طرف اشارہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے وہی بہترین ادب اپنی امت کو بھی سکھایا ہے آپ نے ایسے عمومی آداب بھی سکھائے جو ہر انسان کے لیے ہیں ، اور اسے معزز اور لوگوں کا محبوب بنا دیتے ہیں آپ ﷺ نے خاص ذمہ داریوں اور پیشوں کے حوالے سے بھی بہترین آداب سکھائے ہیں،مدرس کے آداب ،طالب علم کے آداب ،قاضی اور حاکم وغیرہ کے آداب۔
ادب کا لفظ کسی زبان کی ان تحریروں پر بھی بولا جاتا ہے جو انسان کی دلی واردات کی ترجمانی کرتی ہیں یا ان کے ذریعے سے مختلف شخصیات کے حوالے سے کسی انسان کے جو جذبات ہیں، ان کا اظہار ہوتا ہے اس کے لیے نظم و نثر کے نوع در نوع کئی پیرائے اختیار کیے جاتے ہیں ان پر بھی لفظ ادب کے اطلاق کا ایک سبب یہی ہے کہ اس سے بھی کئی معاشرتی حوالوں سے انسانوں کی تربیت ہوتی ہے اردو اصطلاح میں فنون ادب کے لیے ’’ادبیات‘‘ کی اصطلاح مروج ہے۔
امام مسلم نے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے آداب کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ کے خوبصورت طریقے اور آپ کی تعلیمات اس کتا ب میں اور اس کے بعد کی متعدد ذیلی کتب میں جمع کی ہیں وہ سب بھی حقیقت میں کتاب الآداب ہی کا حصہ ہیں ۔انھیں اپنی اہمیت کی وجہ سے الگ الگ کتا ب کا عنوان دیا گیا ہے لیکن سب کا تعلق آداب ہی سے ہے بعض شارحین نے کتاب الرؤیا تک اگلے تمام ابواب کو کتاب الآداب ہی میں ضم کر دیا ہے اس سلسلے کی پہلی کتاب میں جس کا نام بھی کتاب الآداب ہے،ان میں سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی کنیت اور آپ کے نامِ نامی کے حوالے سے ادب بیان کیا گیا ہے اس کے بعد نام رکھنے کے آداب ، نا مناسب ناموں سے بچنے اور اگر رکھے ہوئے ہوں تو ان کو بدلنے کی اہمیت ،احترام،محبت اور شفقت کے اظہار کے لیے کسی اچھے رشتے کے نام پر کسی کو پکارنے کا جواز وغیرہ جیسے عنوانات کے تحت احادیث بیان کی گئی ہیں اس کے بعد کسی کے گھر داخل ہونے کے لیے اجازت مانگنے،اجازت نہ ملے تو واپس چلے جانے کے آداب بیان ہوئے ہیں۔ آخر میں گھروں کی خلوت کے احترام کی تاکید کے متعلق احادیث ذکر کی گئی ہیں۔
زہیر نے کہا: ہمیں منصور نے ہلال بن یساف سے، انھوں نے ربیع بن عمیلہ سے، انھوں نے حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ چارکلمات ہیں:‘‘ (سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ ) اور ،تم (ذکر کرتے ہوئے) ان میں سے جس کلمے کو پہلے کہو، کوئی حرج نہیں، اور تم اپنے لڑکے کا نام یسار، رباح، نجیح،(کامیاب ہونے والا) اور افلح نہ رکھنا، کیونکہ تم پوچھو گے: فلاں (مثلا: افلح) یہاں ہے، وہ نہیں ہو گا تو (جواب دینے والا) کہے گا: (یہاں کوئی) افلح (زیادہ فلاح پانے والا) نہیں ہے۔‘‘ (سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:) یہ چار ہی (نام) ہیں، میری ذمہ داری پر اور کوئی نام نہ بڑھانا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ نے جو چار نام رسول اللہ ﷺ سے سنے وہ بتائے اور حدیث میں جو نام ہیں ان کے علاوہ اور کوئی نام اپنی طرف سے بڑھا کر رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرنے سے منع کردیا۔ حدیث بیان کرتے ہوئے یہ احتیاط ضروری ہے لیکن بسا اوقات بتانے والا نسیان یا وہم کا شکار ہو جاتا ہے، مثلاً: پہلی دونوں روایتوں میں ان چار ناموں میں نافع کو شمار کیا گیاہے، اس حدیث میں اس کی بجائے نجیح ہے ایسا عمداً نہیں ہوا، اس لیے ان شاءاللہ اس پر اللہ تعالی عفوودرگزر سے کام لےگا۔ اس کے بارے میں اختلاف ہے کہ انھی ناموں کے ہم معنی ناموں کو ان پر قیاس کیا جا سکتاہے یا نہیں؟ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ ان جیسے دوسرے ناموں کو انھی ناموں پر قیاس کرنے کے قائل ہیں۔ لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ یہ نہی تنزیہی ہے (یعنی بہتر یہ ہے کہ نام نہ رکھے جائیں۔) تحریمی نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے ایک آزاد کروہ غلام کا نام (پہلے سے ہی) افلح اوردوسرے کا یسار تھا۔ آپ ﷺ نے ان ناموں کو تبدیل نہیں فرمایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعلی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چار بول اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں، (سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ ) ان میں سے کسی سے بھی ابتدا کر لو تو تمہارے لیے کوئی نقصان کی بات نہیں ہے اور تم اپنے غلام یا بچے کا نام يسار اور نہ رباح اور نہ نجيح (کامیاب) اور نہ افلح رکھنا، کیونکہ تم پوچھو گے، کیا فلاں ادھر ہے؟ اور وہ نہیں ہو گا تو جواب دینے والا کہے گا، نہیں" یہ چار ہی ہیں، مجھ سے بیان کرتے وقت ان پر اضافہ نہ کرنا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث کے راوی کا قول ہے کہ میں نے یہ چار ہی نام سنے ہیں، مجھ سے بیان کرتے وقت ان پر اضافہ نہ کرنا، اگرچہ قیاس کی رو سے ان کے ہم معنی اور ہم مقصود نام اور بھی ہو سکتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ahadeeth bin Jundub reprted: The dearest words to Allah are four: Subhan Allah (Hallowed be Allah), Al-Hamdulillah (Praise be to Allah), Wa la ilaha illa-Allah (There is no god but Allah), Allah-o-Akbar (God is the Greatest). There is no harm for you in which order you begin (them while remembering Allah), and he also said: Do not give these names to your servants, Yasar and Rabah and Nafi and Nafi.