باب: کسی سے خود بخود مرض کا چمٹ جا نا ،بد فالی ،مقتول کی کھوپڑی سے الونکلنا ماہ صفر (کی نحوست )ستاروں کی منزلوں کا بارش برسانا اور چھلاوہ ،ان کی کو ئی حقیقت نہیں اور بیمار (اونٹوں )والا ،(اپنے اونٹ ) صحت مند اونٹوں والے (چرواہے ) کے پاس نہ لا ئے۔
)
Muslim:
The Book of Greetings
(Chapter: There Is No 'Adwa, No Tiyarah (Evil Omens), No Hamah. No Safar, No Nawa', And No Ghoul, And No Sick Camel Should Be Brought To A Healthy Camel)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2220.
یونس نے کہا: ابن شہاب نے کہا: مجھے ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث بیان کی کہ جب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مرض کا کسی دوسرے کو چمٹنا ماہ صفر کی نحوست اور مقتول کی کھوپڑی سے الوکا نکلنا سب بے اصل ہیں‘‘ تو ایک اعرا بی (بدو ) نے کہا: تو پھر اونٹوں کا یہ حال کیوں ہوتا ہے کہ وہ صحرامیں ایسے پھر رہے ہوتے ہیں جیسے ہرن (صحت مند چاق چوبند)، پھر ایک خارش زدہ اونٹ آتا ہے، ان میں شامل ہوتا ہے، اور ان سب کو خارش لگا دیتا ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’پہلے اونٹ کو کس نے بیماری لگائی تھی۔؟‘‘
اسلامی سلامتی کادین ہے۔ صرف انسان کےلیے نہیں بلکہ تمام مخلوقات کی سلامتی سکھاتاہے۔ ہرمسلمان کوسکھایاگیاہےکہ دنیاکاہروہ انسان جواللہ کاباغی نہیں اوردوسرےانسان کی سلامتی کاقائل ہےوہ صرف اسےسلامتی کایقین ہی نہ دلائےبلکہ سلامتی کی دعابھی دے۔ پہلافقرہ جوکوئی مسلمان کوکہتاہےوہ السلام علیکم ہے۔ وہ صرف اپنےمخاطب کوسلامتی کاپیغام اورسلامتی کی دعانہیں دیتابلکہ اس کےتمام ساتھیوں کوبھی اس میں شامل کرتاہے۔ قرآن مجیدنےمسلمانوں کےدرمیان سلامتی کی خواہش کےاظہاراوردعاکولازمی قراردیاہے۔ اسلام کونہ ماننےوالوں کوبھی سلام کہاجاتاتھالیکن جب انہوں نےثابت کردیاکہ وہ مسلمان بلکہ خوداللہ کےرسول اللہﷺکےلیے بھی سلامتی کےبجائےچالاکی سےہلاکت کی بددعادیتےہیں تویہ طریقہ اپنانےکاحکم دیاگیاکہ غیرمسلم اگرسلام کہیں توجواب میں سلام کہاجائےاوروہ اگروہ سام علیکم (آپ پرموت ہو،یااس جیسےاورجملے)کہیں توبھی ترکی بہ ترکی جواب دینےکےبجائےصرف علیکم کہنےپراکتفاکیاجائے۔ غیرمسلموں کےساتھ پرامن بقائےباہمی مسلمانوں کاوتیرہ ہے۔ جوسلامتی کےباہمی عہدکوتوڑدےاوردرپےآزادہوجائے تواس کی چیرہ دستیوں سےدفاع ضروری ہے۔
زمین پربسنےوالی اللہ کی دوسری مخلوقات کی سلامتی کوبھی یقینی بنانےکاحکم دیاگیاہے،البتہ جوموذی جانورانسانی آبادیوں میں گھس کرانسانوں اورانسان کےزیرحفاظت دوسرےچوپایوں کےلیے ضررسانی یاہلاکت کاباعث بنیں ان سےنجات حاصل کرنےکی اجازت دی گئی۔ ایسےموذی جانوروں میں بڑےاورچھوٹےسب طرح کےجانورشامل ہیں۔ اگرکوئی جانورموذی سمجھاجاتاہےلیکن وہ بھی عرصہ درازسےانسانی آبادی میں بس رہاہےتواپنےعمل سےاسےبھی سلامتی کےساتھ وہاں سےجانےکاپیغام دیناچاہیے،اگرپھربھی نہ جائےتواس سےچھٹکاراپانےکی اجازت ہے،ورنہ انسانی آبادی میں اپنی موجودگی سےغلط فائدہ اٹھاکروہ کل کلاں ہلاکت کاموجب بنےگا۔
سلامتی کےحوالےسےمسلمانوں کونہایت عمدہ آداب سکھائےگئےہیں۔ اجازت کےبغیرکسی کےگھرمیں داخل نہ ہونا،عورتیں ضروری کاموں سےباہرجائیں توان کےلیے راستوں کومحفوظ بنانااوربوقت ضرورت ان کی مددکرنا،معاشرےخاندانوں،خصوصاخواتین کی سلامتی کےتحفظ کےلیے کسی اجنبی خاتون کےساتھ خلوت میں نہ رہنااوراگرمحرم خاتون ساتھ ہےتوضرورت محسوس ہونےپراس کےساتھ اپنےرشتےکی وضاحت کردینا ضروری ہے۔ سلامتی کےلیے گھروں اورمجلسوں کی سلامتی ضروری ہے۔ مجلسوں میں مساوات،ایک دوسرےکےحقوق کےتحفظ اوراہل مجلس میں سےہرایک کےآرام کاخیال رکھنےسےمجلسوں کی سلامتی کویقینی بنایاجاسکتاہے،گھروں میں وہ لوگ داخل نہ ہوں جوفتنہ انگیزی کرسکتےہیں۔ دوآمیوں کی سرگوشی تک سےپرہیز اورضرورت کےوقت دوسروں کی مدداوران کےمسائل حل کرنےسےسب لوگوں کےدل میں سلامتی کااحساس مضبوط ہوتاہے۔
سلامتی کےمتعلق ان تمام امورکےبارےمیں رسول اللہﷺکےفرامین بیان کرنےکےبعدامام مسلم نےصحت سےمتعلق امورکوبیان کیاہے۔ سب سےپہلےان بیماریوں کےحوالےسےاحادیث لائی گئی ہیں جن کےاسباب کاکھوج لگاناعام طبیب کےلیےناممکن یاکم ازکم مشکل ہوتاہے۔ ان میں جادو،نظربداورزہرخورانی وغیرہ شامل ہیں۔ ان کےعلاج کےلیے مختلف تدابیربتائی گئی ہیں جن میں دم کرنااوردعاکرناشامل ہیں، پھرمختلف بیماریوں کےعلاج کےلیے ان مناسب طریقوں کاذکرہےجورسول اللہﷺکےزمانےمیں رائج تھے۔ ان میں سےکچھ طریقوں کورسول اللہﷺنےپسندفرمایا،کچھ کوناپسندکیا۔ یہ بھی بتایاگیاکہ آپ پسندفرماتےہیں کہ بیمارکودی جانےوالی دوائیں اورطریقہ علاج تکلیف دہ نہ ہواورغذاپسندیدہ اورعمدہ ہونی چاہیے۔ اس کےبعدمختلف وباؤں کےحوالےسےرسول اللہﷺکی ہدایات بیان کی گئی ہیں جن کےذریعےسےزیادہ سےزیادہ جانوں کاتحفظ کیاجاسکتاہے،بیمارہونےوالوں کی تیمارداری کویقینی بنانےکی ہدایات ہیں، اس کےبعدسلامتی کےحوالے سےمختلف اوہام کاذکرہےاورآخرمیں موذی جانوروں کےبارےمیں ہدایات ہیں اورعمومی طورپرہرجاندارکے ساتھ رحم دلی کاسلوک کرنےکی تلقین ہے۔
یونس نے کہا: ابن شہاب نے کہا: مجھے ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث بیان کی کہ جب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مرض کا کسی دوسرے کو چمٹنا ماہ صفر کی نحوست اور مقتول کی کھوپڑی سے الوکا نکلنا سب بے اصل ہیں‘‘ تو ایک اعرا بی (بدو ) نے کہا: تو پھر اونٹوں کا یہ حال کیوں ہوتا ہے کہ وہ صحرامیں ایسے پھر رہے ہوتے ہیں جیسے ہرن (صحت مند چاق چوبند)، پھر ایک خارش زدہ اونٹ آتا ہے، ان میں شامل ہوتا ہے، اور ان سب کو خارش لگا دیتا ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’پہلے اونٹ کو کس نے بیماری لگائی تھی۔؟‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عدویٰ، صفر اور ہامہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔‘‘ تو ایک اعرابی نے کہا، اے اللہ کے رسول! تو کیا وجہ ہے، اونٹ، ریگستان میں، ہرن کی طرح چاق و چوبند ہوتے ہیں تو ایک خارشی اونٹ آ کر تمام کو خارشی کر دیتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’تو پہلے کو کس نے بیماری لگائی؟‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
(1) لا عدویٰ: کوئی بیماری ایک مریض سے دوسرے کی طرف منتقل نہیں ہوتی، یہاں قابل غور بات اسباب ظاہرہ کی تاثیر یا اشیاء کے خواص اور تاثیرات ہیں کہ کیا وہ علت نامہ ہیں، جن کے پائے جانے سے معلول کا پایا جانا یا نتائج و اثرات کا ظہور یقینی و قطعی ہے اور ان نتائج و اثرات کا اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادے سے کوئی تعلق نہیں ہے، یا اسباب ظاہرہ، علت تامہ نہیں ہیں اور اشیاء کے خواص و تاثیرات کے نتائج و اثرات یقینی اور قطعی نہیں ہیں، اصل علت العلل اللہ کی منشا اور ارادہ ہے، وہ چاہے تو معلول ظاہر ہوتا ہے اور اسباب ظاہرہ مؤثر بنتے ہیں، اشیاء کے خواص اور اثرات ظہور پذیر ہوتے ہیں اور یہ محض علامات اور امارات ہیں، اس کی مشیت اور ارادہ کے بغیر کچھ نہیں ہوتا، اہل جاہلیت کا عقیدہ یہ تھا کہ اسباب ظاہرہ علت تامہ ہے اور علت اور معلول ایک دوسرے کے لیے لازم ہیں، اللہ کے ارادہ اور مشیت کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس طرح اشیاء کے خواص و تاثیرات کے نتائج اور اثرات یقینی ہیں، وہ محض علامت یا نشانی نہیں ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عقیدہ کی بیخ کنی کی ہے کہ اصل مؤثر اور علت العلل اللہ کی مشیت اور ارادہ ہے، اس کو معلل یا غیر مؤثر قرار دینا شرک اور کفر ہے، اس لیے بیمار کا تندرست کے ساتھ اختلاط و امتزاج، بیماری کے جراثیم یا وائرس کے منتقل ہونے کا ایک ظاہری سبب ہے، جس کا اثر اللہ کی مشیت اور ارادہ پر موقوف ہے، اس کے ارادہ کے بغیر کوئی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی، اس لیے آپ نے یہ حکم دیا کہ طاعون زدہ علاقہ میں نہ جاؤ، بیمار کو تندرست کے پاس نہ لے جاؤ، کوڑھی سے بھاگو، تاکہ اسباب ظاہرہ کو بالکلیہ نظرانداز نہ کر دیا جائے، اور خود آپ نے کوڑھی کے ساتھ کھایا بھی ہے، تاکہ یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ اسباب کی تاثیر قطعی ہے، اللہ کی مشیت اور ارادہ پر موقوف نہیں ہے اور بقول بعض، جراثیم اور وائرس کے انتقال کی کوئی حیثیت یا حقیقت نہیں ہے، جس طرح پہلے تندرست کو بیماری لگی ہے، دوسرے کو بھی اللہ کی مشیت اور ارادہ سے لگی ہے، اس لیے آپ نے اعرابی کے جواب میں فرمایا، پہلے اونٹ کو بیماری کس نے لگائی اور آپ نے طاعون زدہ علاقہ میں جانے، بیمار کو تندرست کے پاس نہ لے جانے اور کوڑھی سے بھاگنے کا حکم اس لیے دیا کہ اگر ان کو اللہ کے ارادہ اور مشیت سے بیماری لگ گئی تو وہ بیماری کے متعدی ہونے کے شرکیہ عقیدہ میں مبتلا ہو جائیں گے اور اس سے باہمی نفرتوں اور کدورتوں میں اضافہ ہو گا، اس غلط عقیدہ سے بچانے کے لیے آپﷺ نے حفاظتی تدابیر یا پرہیز و اجتناب برتنے کا حکم دیا، خلاصہ کلام یہی ہے کہ اصل مؤثر اور علت العلل اللہ تعالیٰ ہے، کسی چیز کا اثر یا خاصہ ذاتی نہیں ہے، اللہ کا پیدا کردہ ہے، اس کے ارادہ اور مشیت کے بغیر کوئی اثر، نتیجہ، یا خاصہ ظاہر نہیں ہو سکتا، کوئی علت اپنا معلول پیدا نہیں کر سکتی۔ عدوی: بیماری کے متعدی ہونے کی کوئی حقیقت نہیں تفصیل کے لیے دیکھیے۔ (منة المنعم ج 3 ص 467) لا صفر: صفر کی کوئی حقیقت نہیں، یعنی (ا) محرم کو صفر بنانا درست نہیں۔ یا (ب) اہل جاہلیت کی یہ بات درست نہیں ہے کہ صفر ایسے کسی جاندار یا کیڑوں کا نام ہے، جو پیٹ میں ہوتے ہیں، ان کی وجہ سے بھوک لگتی ہے اور بعض دفعہ انسانوں کے قتل کا باعث بن جاتے ہیں۔ یا (ج) پیٹ کی کوئی بیماری ایسی نہیں جو دوسرے کی طرف منتقل ہو سکے اور اس کو صفر کا نام دیا جا سکے۔ یا (د) صفر کو منحوس خیال کرنا درست نہیں ہے۔ لا هامة: هامه کی کوئی حقیقت نہیں ہے، یعنی (1) مقتول کا اگر انتقام اور بدلہ نہ لیا جائے تو اس کی کھوپڑی قبر کے گرد چکر لگا کر یہ نہیں کہتی، مجھے پلاؤ، مجھے پلاؤ، یعنی میرا انتقام اور بدلہ لو۔ (2) کسی گھر میں الو کا آ بیٹھنا، گھر کے مالک یا کسی عزیز کی موت کی خبر دینا نہیں ہے، (3) مردہ کی ہڈیاں، الو بن کر پرواز نہیں کرتیں اور عدوی نامی جانور کی کوئی حقیقت نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: There is no infection, no safar, no hama. A desert Arab said: Allah's Messenger, how is it that when the camel is in the sand it is like a deer-then a camel afflicted with scab mixes with it and it is affected by sub? He (the Holy Prophet) said: Who infected the first one?