باب: بد شگونی،(نیک )فال اور ان چیزوں کا بیان جن میں نحوست ہے
)
Muslim:
The Book of Greetings
(Chapter: (Evil) Omens And Al-Fa'l, And That Which May Be Regarded As Inauspicious)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2223.
معمر نے زہری سے، انھوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت کی کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہو ئے سنا: ’’بد شگونی کی کو ئی حقیقت نہیں اور شگون میں سے اچھی نیک فال ہے ۔‘‘ عرض کی گئی۔ اللہ کے رسول ﷺ! فال کیا ہے؟ (وہ شگون سے کس طرح مختلف ہے؟) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’(فال ) نیک کلمہ ہے تو تم میں سے کوئی شخص سنتا ہے۔‘‘
تشریح:
فائدہ:
عرب لوگ پرندوں کے اڑنے، جانوروں کے سامنے سے گزرنے ، ان کی رنگت وغیرہ سے شگوں لیتے تھے اور اچھے اور انتہائی ضروری کام ان کی وجہ سے چھوڑ دیتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کا مقصود یہ تھا کہ جانوروں کی حرکات کو بالاتر سمجھتے ہوئے انسان اپنے اچھے اصولوں کی بنیاد پر اپنے اعلی فہم و عقل اور فکر و تدبر کے ذریعے سے کیے ہوئے فیصلوں کی تحقیر نہ کرے بلکہ وہ اللہ پر توکل کرتے ہوئے اپنے نیک فیصلوں کو عملی جامہ پہنائے۔ بد شگونی کی بنا پر ترک عمل کے بجائے اچھے انسانوں کی نیک تمناؤں پر مبنی دعائیہ اور حوصلہ افزائی کے جملوں سے اپنے عزم و ارادے کو مزید پختہ کرے اور اپنی جدوجہد کو عرج پر لے جائے۔ شگون کے حوالے سے اگلی تمام احادیث بلکہ ’’لا عودي و لا طيرى ولا نوء ولا صفر و لا غول‘‘ کے تمام جملوں سے مقصود عقائد کی تصحیح کے ساتھ ساتھ انسان کی قوتِ عمل کو مہمیز لگاتا بھی ہے۔
اسلامی سلامتی کادین ہے۔ صرف انسان کےلیے نہیں بلکہ تمام مخلوقات کی سلامتی سکھاتاہے۔ ہرمسلمان کوسکھایاگیاہےکہ دنیاکاہروہ انسان جواللہ کاباغی نہیں اوردوسرےانسان کی سلامتی کاقائل ہےوہ صرف اسےسلامتی کایقین ہی نہ دلائےبلکہ سلامتی کی دعابھی دے۔ پہلافقرہ جوکوئی مسلمان کوکہتاہےوہ السلام علیکم ہے۔ وہ صرف اپنےمخاطب کوسلامتی کاپیغام اورسلامتی کی دعانہیں دیتابلکہ اس کےتمام ساتھیوں کوبھی اس میں شامل کرتاہے۔ قرآن مجیدنےمسلمانوں کےدرمیان سلامتی کی خواہش کےاظہاراوردعاکولازمی قراردیاہے۔ اسلام کونہ ماننےوالوں کوبھی سلام کہاجاتاتھالیکن جب انہوں نےثابت کردیاکہ وہ مسلمان بلکہ خوداللہ کےرسول اللہﷺکےلیے بھی سلامتی کےبجائےچالاکی سےہلاکت کی بددعادیتےہیں تویہ طریقہ اپنانےکاحکم دیاگیاکہ غیرمسلم اگرسلام کہیں توجواب میں سلام کہاجائےاوروہ اگروہ سام علیکم (آپ پرموت ہو،یااس جیسےاورجملے)کہیں توبھی ترکی بہ ترکی جواب دینےکےبجائےصرف علیکم کہنےپراکتفاکیاجائے۔ غیرمسلموں کےساتھ پرامن بقائےباہمی مسلمانوں کاوتیرہ ہے۔ جوسلامتی کےباہمی عہدکوتوڑدےاوردرپےآزادہوجائے تواس کی چیرہ دستیوں سےدفاع ضروری ہے۔
زمین پربسنےوالی اللہ کی دوسری مخلوقات کی سلامتی کوبھی یقینی بنانےکاحکم دیاگیاہے،البتہ جوموذی جانورانسانی آبادیوں میں گھس کرانسانوں اورانسان کےزیرحفاظت دوسرےچوپایوں کےلیے ضررسانی یاہلاکت کاباعث بنیں ان سےنجات حاصل کرنےکی اجازت دی گئی۔ ایسےموذی جانوروں میں بڑےاورچھوٹےسب طرح کےجانورشامل ہیں۔ اگرکوئی جانورموذی سمجھاجاتاہےلیکن وہ بھی عرصہ درازسےانسانی آبادی میں بس رہاہےتواپنےعمل سےاسےبھی سلامتی کےساتھ وہاں سےجانےکاپیغام دیناچاہیے،اگرپھربھی نہ جائےتواس سےچھٹکاراپانےکی اجازت ہے،ورنہ انسانی آبادی میں اپنی موجودگی سےغلط فائدہ اٹھاکروہ کل کلاں ہلاکت کاموجب بنےگا۔
سلامتی کےحوالےسےمسلمانوں کونہایت عمدہ آداب سکھائےگئےہیں۔ اجازت کےبغیرکسی کےگھرمیں داخل نہ ہونا،عورتیں ضروری کاموں سےباہرجائیں توان کےلیے راستوں کومحفوظ بنانااوربوقت ضرورت ان کی مددکرنا،معاشرےخاندانوں،خصوصاخواتین کی سلامتی کےتحفظ کےلیے کسی اجنبی خاتون کےساتھ خلوت میں نہ رہنااوراگرمحرم خاتون ساتھ ہےتوضرورت محسوس ہونےپراس کےساتھ اپنےرشتےکی وضاحت کردینا ضروری ہے۔ سلامتی کےلیے گھروں اورمجلسوں کی سلامتی ضروری ہے۔ مجلسوں میں مساوات،ایک دوسرےکےحقوق کےتحفظ اوراہل مجلس میں سےہرایک کےآرام کاخیال رکھنےسےمجلسوں کی سلامتی کویقینی بنایاجاسکتاہے،گھروں میں وہ لوگ داخل نہ ہوں جوفتنہ انگیزی کرسکتےہیں۔ دوآمیوں کی سرگوشی تک سےپرہیز اورضرورت کےوقت دوسروں کی مدداوران کےمسائل حل کرنےسےسب لوگوں کےدل میں سلامتی کااحساس مضبوط ہوتاہے۔
سلامتی کےمتعلق ان تمام امورکےبارےمیں رسول اللہﷺکےفرامین بیان کرنےکےبعدامام مسلم نےصحت سےمتعلق امورکوبیان کیاہے۔ سب سےپہلےان بیماریوں کےحوالےسےاحادیث لائی گئی ہیں جن کےاسباب کاکھوج لگاناعام طبیب کےلیےناممکن یاکم ازکم مشکل ہوتاہے۔ ان میں جادو،نظربداورزہرخورانی وغیرہ شامل ہیں۔ ان کےعلاج کےلیے مختلف تدابیربتائی گئی ہیں جن میں دم کرنااوردعاکرناشامل ہیں، پھرمختلف بیماریوں کےعلاج کےلیے ان مناسب طریقوں کاذکرہےجورسول اللہﷺکےزمانےمیں رائج تھے۔ ان میں سےکچھ طریقوں کورسول اللہﷺنےپسندفرمایا،کچھ کوناپسندکیا۔ یہ بھی بتایاگیاکہ آپ پسندفرماتےہیں کہ بیمارکودی جانےوالی دوائیں اورطریقہ علاج تکلیف دہ نہ ہواورغذاپسندیدہ اورعمدہ ہونی چاہیے۔ اس کےبعدمختلف وباؤں کےحوالےسےرسول اللہﷺکی ہدایات بیان کی گئی ہیں جن کےذریعےسےزیادہ سےزیادہ جانوں کاتحفظ کیاجاسکتاہے،بیمارہونےوالوں کی تیمارداری کویقینی بنانےکی ہدایات ہیں، اس کےبعدسلامتی کےحوالے سےمختلف اوہام کاذکرہےاورآخرمیں موذی جانوروں کےبارےمیں ہدایات ہیں اورعمومی طورپرہرجاندارکے ساتھ رحم دلی کاسلوک کرنےکی تلقین ہے۔
معمر نے زہری سے، انھوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت کی کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہو ئے سنا: ’’بد شگونی کی کو ئی حقیقت نہیں اور شگون میں سے اچھی نیک فال ہے ۔‘‘ عرض کی گئی۔ اللہ کے رسول ﷺ! فال کیا ہے؟ (وہ شگون سے کس طرح مختلف ہے؟) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’(فال ) نیک کلمہ ہے تو تم میں سے کوئی شخص سنتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
عرب لوگ پرندوں کے اڑنے، جانوروں کے سامنے سے گزرنے ، ان کی رنگت وغیرہ سے شگوں لیتے تھے اور اچھے اور انتہائی ضروری کام ان کی وجہ سے چھوڑ دیتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کا مقصود یہ تھا کہ جانوروں کی حرکات کو بالاتر سمجھتے ہوئے انسان اپنے اچھے اصولوں کی بنیاد پر اپنے اعلی فہم و عقل اور فکر و تدبر کے ذریعے سے کیے ہوئے فیصلوں کی تحقیر نہ کرے بلکہ وہ اللہ پر توکل کرتے ہوئے اپنے نیک فیصلوں کو عملی جامہ پہنائے۔ بد شگونی کی بنا پر ترک عمل کے بجائے اچھے انسانوں کی نیک تمناؤں پر مبنی دعائیہ اور حوصلہ افزائی کے جملوں سے اپنے عزم و ارادے کو مزید پختہ کرے اور اپنی جدوجہد کو عرج پر لے جائے۔ شگون کے حوالے سے اگلی تمام احادیث بلکہ ’’لا عودي و لا طيرى ولا نوء ولا صفر و لا غول‘‘ کے تمام جملوں سے مقصود عقائد کی تصحیح کے ساتھ ساتھ انسان کی قوتِ عمل کو مہمیز لگاتا بھی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا، ’’طيرة (بدشگونی) کی کوئی حقیقت نہیں، نیک شگون اچھی چیز ہے۔‘‘ پوچھا گیا، اے اللہ کے رسول! نیک شگون (فال) کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’اچھا بول، جو تم میں سے کوئی سنتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
طيرة سے بدشگونی اور نیک شگون دونوں لیتے ہیں، اس لیے فرمایا، شگون کا اچھا حصہ نیک شگون ہے، جو انسان اچھا بول سن کر محسوس کرتا ہے، مثلا کوئی انسان بیمار ہے تو وہ یا سالم، اے سالم، سن کر تندرستی اور سلامتی کا شگون لے، کوئی ضرورت مند ہے، وہ یا نجیع، یا واجد، یا راشد وغیرہ سن کر مقصد پورا ہونے یا ضرورت پوری ہونے کا شگون لے، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن ہے اور اس کی رحمت اور خیر کا امیدوار ہونا ہے اور بدشگونی اللہ کی رحمت و خیر سے مایوسی اور ناامیدی ہے، جو ناپسندیدہ چیز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported: I heard Allah's Messenger (ﷺ) as saying: There is no divination but the best type is the good omen. It was said to Allah's Messenger (ﷺ) : What is good omen? Thereupon he said: A good word which one of you hears.