کتاب: ادب اور دوسری باتوں(عقیدے اورانسانی رویوں)سے متعلق الفاظ
(
باب: کستوری کا استعمال اور یہ کہ وہ بہترین خوشبوہے اور ریحان (خوشبو دار پھول یا اس کی ٹہنی) اور خوشبو(کا تحفہ) رد کرنا مکروہ ہے
)
Muslim:
The Book Concerning the Use of Correct Words
(Chapter: Using Musk, Which Is The Best Of Perfume. It Is Disliked To Refuse A Gift Of Scent Or Perfume)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2252.
ابو اسامہ نے شعبہ سے روایت کی، کہا: مجھے خُلید بن جعفرنے ابو نضر ہ سے، انھوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے، انھوں نے نبی ﷺ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: بنی اسرا ئیل میں ایک پستہ قامت عورت دولمبے قد کی عورتوں کے ساتھ چلا کرتی تھی۔ اس نے لکڑی کی دو ٹانگیں (ایسے جوتے یا موزے جن کے تلووں والا حصہ بہت اونچا تھا ) بنوائیں اور سونے کی ایک بند، ڈھکنے والی انگوٹھی بنوائی، پھر اسے کستوری سے بھر دیا اور وہ خوشبوؤں میں سب سےاچھی خوشبو ہے وہ پھر وہ ان دونوں (لمبی عورتوں) کے درمیان میں ہو کر چلی تو لوگ اسے نہ پہچان سکے، اس پر اس نے اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا۔‘‘ اور شعبہ نے (شاگردوں کو دکھا نے کے لیے) اپنا ہاتھ جھٹکا۔
تشریح:
فائدہ:
اس حدیث کا پچھلا حصہ روایت نہیں ہوا، اسے لیے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس عورت کے دونوں کاموں کے بارےمیں کیا فرمایا۔ البتہ دومیان کا یہ ٹکڑا کہ ’’مستوری سب سے اچھی خوشبوہے‘‘ واضح اور مکمل ہے۔ اس ٹکڑے سے مندرجہ ذیل نکات واضح ہو جاتے ہیں: 1۔ رسول اللہ ﷺ کو کستوری کی خوشبو پسند تھی۔ 2۔ اس حدیث کے ذریعے سے اور دوسری احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ پاکیزہ چیز ہے۔ 3۔ پاکیزگی کو بڑھانے والی ہے۔ 4۔ اس کا استعمال مستحب ہے۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کو اسی ٹکڑے کی وجہ سے روایت کیا ہے۔
پچھلےابواب میں زندگی کےتمام مراحل کےحوالےسےوسیع ترمعنی میں آداب پراحادیث مبارکہ سےرہنمائی پیش کی گئی۔ اس کاآغازدنیامیں جنم لینےوالےبچےکانام رکھنےکےآداب سےہوا،پھرپرورش گاہ،یعنی گھروں کی خلوت اورسلامتی کےتحفظ کےآداب بیان ہوئے،پھرانسانی سلامتی کویقینی بنانے،اٹھنےبیٹھنے،چلنےپھرنے،گھریلوزندگی، عیادت اورتیمارداری ،انسانی سلامتی کےلیے خطرناک جانوروں سےتحفظ کےطورپرطریقوں اورآداب کاذکرہوا۔ اس کےبعدابواب پرمشتمل کتاب میں حسن ذوق کےساتھ الفاظ کےصحیح اورخوبصورت استعمال کےادب پرروشنی ڈالی گئی ہے۔
ادب کالفظ جب لٹریچرکےمعنی میں استعمال کیاجائےتووہاں شائستگی اورحسن ذوق کےساتھ الفاظ کےخوبصورت اورصحیح استعمال سےابلاغ کوبنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اس کتاب میں اسی پرروشنی ڈالی گئی ہے۔
جوشخص اپنی طبیعت بگڑجانےکی تعبیر’’خبثت نفسی‘‘(میرےمزاج میں خبث پیداہوگیاہے)کےالفاظ سےکررہاہے وہ نفس انسانی کی طرف جسےاللہ نےتکریم دی ہےتوہین آمیزبات کی نسبت کررہاہے۔ جویہ باورکرتےہوئےکہ اس کی زندگی کی مشکلات اسکےاپنےفکروعمل کی بنابرنہیں ایک اورقوت کی بناپرپیداہورہی ہیں، اس وقت کودہریازمانےکانام دےکراس کوبرابھلاکہہ رہاہے،وہ دراصل اس حقیقی قوت کوبرابھلاکہہ رہاہےجس کےحکم پرزندگی کاسارانظام چل رہاہے۔
یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہیےکہ سیاق وسباق اورمعنی کی مطلوبہ جہت کےبدلنےسےالفاظ کااستعمال مناسب یانامناسب قرارپاتاہے،مثلا:اگرکوئی انسان کفر،سرکشی اورظلم وستم میں حدسےآگےگزرگیاہےتووہ حقیقتااللہ کی دی ہوئی عزت وکرامت کوکھوکرخبثت النفس کاشکارہوگیاہے۔ایسےآدمی کےبارےمیں یہ ترکیب استعمال کرناغیرمناسب نہیں ہوگا۔
رب اورعبدکےالفاظ کئی معانی میں استعمال ہوئےہیں۔ حقیقی طورپررب صرف اللہ ہےاورہرانسان اسی کاعبدہے،لیکن عربی زبان میں عبدکالفظ کسی انسان کےمملوکہ غلام اورب کالفظ اس کےآقاکےلیے بھی مستعمل ہے۔ رسول اللہﷺنےعام حالات میں غلام اوراس کےمالک کےلیے مناسب ترین متبادل الفاظ کی طرف رہنمائی کی ہے،لیکن سورہ یوسف میں غلام کےسامنےاس کےبادشاہ کےلیےرب کالفظ استعمال کرناضروری تھاکیونکہ وہ بادشاہ کےلیے ،جواسکاآقابھی تھا،اس کےعلاوہ کوئی دوسرالفظ استعمال ہی نہیں کرتاتھا۔ وہ اس کےبجائےکسی دوسرےلفظ کےذریعےسےیہ بات سمجھ ہی نہیں سکتاتھاکہ اس کےسامنے بادشاہ کاذکرکیاجارہاہے۔ متبادل الفاظ اس ماحول میں دوسروں کےلیے استعمال ہوتےتھےاوربادشاہ کےلیے جودوسرےالفاظ استعمال ہوتےتھےان کامفہوم اس لفظ کی نسبت بھی زیادہ قابل اعتراض تھا۔
آخرمیں الفاظ کےخوبصورت استعمال کی طرح خوشبواستعمال کرنے،اس کاتحفہ پیش کرنےاورقبول کرنےکی بات کی گئی ہےکہ اس سےبھی خودکواوردوسرےانسانوں کوفرحت اورمسرت نصیب ہوتی ہے۔
ابو اسامہ نے شعبہ سے روایت کی، کہا: مجھے خُلید بن جعفرنے ابو نضر ہ سے، انھوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے، انھوں نے نبی ﷺ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: بنی اسرا ئیل میں ایک پستہ قامت عورت دولمبے قد کی عورتوں کے ساتھ چلا کرتی تھی۔ اس نے لکڑی کی دو ٹانگیں (ایسے جوتے یا موزے جن کے تلووں والا حصہ بہت اونچا تھا ) بنوائیں اور سونے کی ایک بند، ڈھکنے والی انگوٹھی بنوائی، پھر اسے کستوری سے بھر دیا اور وہ خوشبوؤں میں سب سےاچھی خوشبو ہے وہ پھر وہ ان دونوں (لمبی عورتوں) کے درمیان میں ہو کر چلی تو لوگ اسے نہ پہچان سکے، اس پر اس نے اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا۔‘‘ اور شعبہ نے (شاگردوں کو دکھا نے کے لیے) اپنا ہاتھ جھٹکا۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
اس حدیث کا پچھلا حصہ روایت نہیں ہوا، اسے لیے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس عورت کے دونوں کاموں کے بارےمیں کیا فرمایا۔ البتہ دومیان کا یہ ٹکڑا کہ ’’مستوری سب سے اچھی خوشبوہے‘‘ واضح اور مکمل ہے۔ اس ٹکڑے سے مندرجہ ذیل نکات واضح ہو جاتے ہیں: 1۔ رسول اللہ ﷺ کو کستوری کی خوشبو پسند تھی۔ 2۔ اس حدیث کے ذریعے سے اور دوسری احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ پاکیزہ چیز ہے۔ 3۔ پاکیزگی کو بڑھانے والی ہے۔ 4۔ اس کا استعمال مستحب ہے۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کو اسی ٹکڑے کی وجہ سے روایت کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بنی اسرائیل میں ایک پستہ قد عورت تھی، وہ دو لمبی عورتوں کے ساتھ چلتی تھی، اس لیے اس نے لکڑی کی دو ٹانگیں بنوائیں اور سونے کی خول دار انگوٹھی بنوائی، جو بند ہوتی تھی، پھر اس کے اندر کستوری بھری اور وہ سب سے عمدہ خوشبو ہے تو وہ ان دو عورتوں کے درمیان سے گزری تو انہوں نے اسے پہچانا نہیں تو اس نے اپنا ہاتھ جھٹکایا‘‘ شعبہ نے اپنا ہاتھ جھاڑا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Sa'id Khudri reported Allah's Apostle (ﷺ) as saying: There was a woman from Bani Isra'il who was short-statured and she walked in the company of two tall women with wooden sandals in her feet and a ring of gold made of plates with musk filled in them and then looked up, and musk is the best of scents; then she walked between two women and they (the people) did not recognise her, and she made a gesture with her hand like this, and Shu'bah shook his hand in order to give an indication how she shook her hand.