Muslim:
The Book of Virtues
(Chapter: The Cistern Of Our Prophet (SAW) And Its Attributes)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2296.
لیث نے یزید بن ابی حبیب سے، انھوں نے ابو الخیر سے،انھوں نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لے گئے اور اہل احد پر اسی طرح نماز جنازہ پڑھی جس طرح میت پر پڑھی جاتی ہے، پھر آپ پلٹ کر منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فر یا: ’’میں حوض پر تمھارا پیش رو ہوں گا اور میں تم پر گواہی دینے والا ہوں گا اور میں، اللہ کی قسم! جیسے اب بھی اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں گا۔ مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں یا (فرمایا:) زمین کی چابیاں عطا کی گئیں اور اللہ کی قسم! میں تمھا رے بارے میں اس بات سے نہیں ڈرتا کہ میرے بعد تم شرک کرو گے۔ لیکن میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تم ان (خزانوں کے معاملے) میں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کرو گے (کہ ان میں سے کو ن زیادہ فائدہ اٹھاتا اور زیادہ دولت مندی کا مظاہرہ کرتا ہے۔)‘‘
تشریح:
فائدہ:
اس حدیث سے بعض لوگوں نے بڑا بودا استدلال کیا ہے کہ آپﷺ کے اپنی امت کےشرک میں مبتلا ہونے کا کوئی خدشہ نہیں تھا کیونکہ آپﷺنے شرک کی جڑیں کاٹ دی تھیں۔ یہ استدلال فضول اور لا یعنی ہونے کے ساتھ دیگر نصوصِ شرعیہ جو امت محمدیہ میں شرک کے وجود پر دلالت کرتی ہیں، ان کے خلاف بھی ہے۔ اسی لیے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس کی تعیین کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کا مصداق صحابہ کرام ہیں: (و أن أصحابه لا يشركون بعده فكان كذٰلك) اور یہ کہ آپﷺ کے صحابہ آپ کے بعد شرک نہیں کریں گے، لہٰذا اسی طرح ہوا۔‘‘ (فتح الباري : 6/ 614) گویا اس حدیث کا تعلق صحابہ کرام سے ہے، عام امت سے نہیں ۔ اور صحابہ کرام ہی کو مخاطب کر کے آپﷺ نے یہ بات ارشا د فرمائی تھی- اگر بالفرض حدیث کے الفاظ کو عا م تسلیم کر لیا جائے تب بھی اس سے مراد امت کا ہر فرد نہیں ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کا مفہوم یوں واضح کرتے ہیں: (قوله ما أخاف عليكم أن تشركوا أي علي مجموعكم لأن ذالك قد وقع من البعض أعاذ الله تعالي) آپﷺ کے اس فرمان: ’’میں تمھارے بارے میں اس بات سے نہیں ڈرتا کہ میرے بعد تم شرک کرو گے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ تم مجموعی طور پرشرک نہیں کرو گے۔ اس لیے کہ امت مسلمہ میں سے بعض افراد کی جانب سے شرک کا وقوع ہوا، اللہ تعالی ہمیں اپنی پناہ میں رکھے۔ (فتح الباري: 3/ 211) قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے شرح میں لکھتے ہیں : ’’آپ ﷺ کا اس بات کی خبر دینا کہ انھیں اپنے بعد لوگوں کے شرک میں مبتلا ہونے کا خوف نہیں تو اس سے مراد یہ نہ تھی کہ وہ سب یا ان میں سے کچھ شرک کریں گے۔ آپﷺ نے بذات خود حدیث میں یہ بیان فرمایا کہ (آپ کی امت میں سے) بعض مرتد ہوں گے بلکہ آپﷺ کی مراد یہ تھی کہ مجموعی یا عمومی طور پر سب کے سب شرک میں مبتلا نہیں ہوں گے جیسا کہ آپﷺ کو اپنی امت کی اکثریت کا دنیا کی محبت میں مبتلا ہونے کا خوف تھا‘‘ (إكمال المعلم:267، 268) علامہ نووی، ملا علی قاری اور دیگر شارحین حدیث نے بھی یہی مفہوم بیان کیا ہے۔ مولانا غلام رسول سعیدی بریلوی نے اس حدیث کا ترجمہ کیا ہے ’’بے شک خدا کی قسم! مجھے تمھارے متعلق یہ خدشہ نہیں ہے تم (سب) میرے بعد مشرک ہو جاؤگے‘‘ (شر ح مسلم: 6 /738) موصوف نے ترجمہ حدیث میں ’’ سب‘‘ لکھ کر اس حقیقت کا اعتراف کر لیے کہ پوری امت محمدیہ کے شرک میں مبتلاہونےکا خوف نہیں، البتہ بعض لوگوں سے ایسا ممکن ہے اور یہی حدیث کامنشا ہے۔
صحیح مسلم میں کتاب الفضائل خاص اہمیت کی حامل ہے۔ امام مسلم نےاس میں ترتیب ،تبویب اورانتخاب مضامین کےذریعےسےجومثال پیش کی ہےامت محمدیہ کےچوٹی کےسیرت نگاروں نےاس سےخوب استفادہ کیاہے۔ سیرومغازی کےساتھ ساتھ دلائل نبوت اورفضائل وشمائل،جواس کتاب میں نمایاں ہیں، بتدریج سیرت طیبہ میں نہ صرف شامل ہوئےبلکہ سیرت کالازمی حصہ بن گئے۔
اس کتاب کےابتدائی ابواب کوایک طرح کےمقدمےکی حیثیت حاصل ہے۔آغازآپﷺکےاعلیٰ حسب ونسب اورمخلوقات میں آپ کےبلندترین مقام سےہوتاہےحتی کہ بعثت سےپہلےہی جمادات کی طرف سےآپ کوسلام کیاجاتاتھا۔ اس کےفورابعداس بات کاتذکرہ ہےکہ اخروی زندگی میں بھی ساری مخلوقات پرآپ ہی کوفضیلت حاصل ہوگی۔
اس کےبعددلائل نبوت کولیاگیاہے۔آپ کےعظیم معجزات جوبیک وقت آپ کی نبوت کےدلائل اورایمان لانےوالےکےلیےاضافہ ایمان کاسبب ہیں، وہ رسول اللہﷺکےساتھیوں کی ایسی ضرورتوں کی تکمیل کاذریعہ بنےجن کی تکمیل کی کوئی صورت نکلتی نظرنہ آتی تھی۔ پانی کی شدیدقلت کےوقت جس سےانسانی زندگی کےضائع ہوجانےکاخدشہ پیداہوجائے،آپﷺکےجسداطہرکےذریعےسےاس کی فراوانی اسی قسم کاایک معجزہ ہ۔حضرت موسیکی قوم کوچٹانوں کےاندرسےچشمےنکال کرسیراب کیاگیاجبکہ نبیﷺکےساتھیوں کےلیے آپ کی مبارک انگلیوں سےچشمےپھوٹےیاآپ کےوضوکےلیےاستعمال کیےہوئےپانی کوقطرہ قطرہ بہتےہوئےچشمےمیں ڈالنےسےاایسی آب رسانی کاانتظام ہواکہ اس سارےبنجرعلاقےکوباغ وبہارمیں تبدیل کردیاگیا(يُوشِكُ، يَا مُعَاذُ إِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ، أَنْ تَرَى مَا هَاهُنَا قَدْ مُلِئَ جِنَانًا)’’معاذ!اگرتمہاری زندگی لمبی ہوئی توتم دیکھوگےکہ یہاں جوجگہ ہےوہ گھنےباغات سےلہلہااٹھےگی۔‘‘(صحیح مسلم،حدیث:5947)غزوہ تبوک کےسفرکےدوران میں آتےجاتےہوئےجن معجزات کاظہورہوا،ان کامطالعہ ایمان افروزہے۔ اس کےبعداس ہدایت اورشریعت کی خصوصیات بیان ہوئی ہیں جوآپ لائے۔ اس پرصحیح طورپرعمل کرنےوالابھی دنیااورآخرت میں کامیاب ہےاورپوری طرح عمل نہ کرسکنےکےباوجوداس شریعت کوآگےپہنچانےوالااوراپنی نسلوں تک لےجانےوالابھی رحمت الہیٰ سےسرفرازہوا۔ اورجس نےنہ اپنایا،نہ آگےپہنچایاوہ ایسی بنجرزمین کےمانندہےجس پرکاونٹوں جھاڑجھنکارکےسواکچھ نہیں ہوتا۔ آپﷺبشیرکےساتھ ساتھ نذیربھی ہیں۔ آپ نےاللہ کےعذاب سے،جواس کی رضاکےانعام،جنت کیطرح برحق ہے،ڈرایا،جہنم میں لےجانےوالےاعمال کی نشاندہی فرمائی۔ جن لوگوں نےآپ کی بات مانی وہ جہنم سےبچ گئے۔ جنہوں نےانکارکیااوربعض وعنادکی شدت کی بناپرآگ میں گھسنےکی کوشش کی ،آپ نےان کوبھی بچانےکےلیےانتہائی کوششیں فرمائیں۔ آپ کی لائی ہوئی ہدایت کاعمل نمونہ آپﷺکااسوہ حسنہ ہے۔ آپ مکمل ترین پیکرجمال ہیں،اس جمال کی دلبربائی اوردلکشی ایسی ہےکہ ہرسلیم الفطرت انسان بےاختیاراس کی طرف کھچاچلاآتاہے۔ آپ ﷺکےاخلاق حسنہ،آپ کی بےکنارجودوسخا،آپ کی رحمت وعطا،آپ کی شفقت اورآپ کی حیااللہ کی ہدایت سےکنارہ کشی کرنےوالوں کوبھی زیادہ دورنہیں جانےدیتی ۔دنیاکےسب سےبڑےخوش نصیب تووہ لوگ تھےجنہوں نےآپ کی صفات حسنہ اوراخلاق عالیہ کےساتھ ساتھ آپ کےشخصی جمال کابھی اپنی آنکھوں سےمشاہدہ کیا۔ اوراحسان یہ کیاکہ وجوبہترین لفظ انہیں ملےان کےذریعےسےاسی جمال بےمثال کی تصویرکشی کی۔ آپ کےحلیہ مبارک سےلےکرآپ کے جسم مبارک سےنکلنےوالےمعطرپسینےکی خوشبوتک کوبیان کرنےکی سعادت حاصل کی ۔وہی خوشبوجس کےبارےمیں ام سلیمؓ نےکہاتھا:( عَرَقُكَ أَدُوفُ بِهِ طِيبِي)’’یہ آپ کاپسینہ اکٹھاکررہی ہوں کہ اس سےاپنےمشک وعنرکومعطرکرلوں۔‘‘(صحیح مسلم،حدیث:6057)امام مسلم نےاس تذکرےکےساتھ ہی وہ احادیث بیان کردیں کہ آپ کوسب سےزیادہ پسینہ اس وقت تھاجب آپ پروحی الہیٰ نازل ہوتی تھی۔ اس طرح انہوں نےسمجھادیاکہ اس خوشبوکاسرچشمہ کیاتھا۔ مشک وعنرکاچشمہ تووہ جاندارہیں جواللہ کی مخلوق ہیں اورآپ کےپیکراطہرکی خوشبوکاسلسلہ اللہ کےکلام سےجڑاہواتھا۔ آپ کاقلب اطہرمہبط وحی الہیٰ تھاجوآنکھوں کی نیندکےدوران میں بھی اللہ سےرابطےکےلیےمسلسل بیداررہتاتھا، پھرآپ کےجسم اطہرکی خوشبومشک وعنرکوبھی معطرکرنےوالی کیوں نہ ہوتی!
آپﷺکےجمال بےپایاں کوبیان کرنےکےلیے دنیاکےفصیح ترین لوگوں نےبہترین الفاظ کاانتخاب کیا،لیکن ان کےبیان کاایک ایک لفظ اس بات کی گواہی دےرہاہےکہ الفاظ اس جمال بےمثال کوبیان کرنےسےعاجزہیں۔ جوجمال حقیقت میں موجودتھااس کےلیے زبان میں الفاظ ہی موجودنہیں تھے۔ حضرت انسکےالفاظ پرغورتو کریں(لَيْسَ بِالطَّوِيلِ الْبَائِنِ، وَلَا بِالْقَصِيرِ، وَلَيْسَ بِالْأَبْيَضِ الْأَمْهَقِ وَلَا بِالْآدَمِ وَلَا بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ وَلَا بِالسَّبِطِ)’’آپﷺبہت درازقدتھےنہ پستہ قامت،بالکل سفیدرنگ والےتھےنہ بالکل گندمی،بال چھوٹےگھنگرالےتھےنہ بالکل سیدھے۔‘‘(صحیح مسلم،حدیث:6089)حضرت انسکےعلاوہ بیان کرنےوالےدوسرےصحابہ کےالفاظ بھی یہی اسلوب لیےہوئےہیں۔ کہاجاتاہےکہ بڑےمصوروں کی بعض تصویریں ایسی ہیں جن کی خوبصورتی کےمشاہدےاوران پرغوروخوض کرنےمیں بعض لوگوں نےاپنی عمریں بسرکردیں بعض عقل وخردسےبیگانہ بھی ہوگئے۔ آپ کےشمائل وخصائل اورآپ کی شریعت کی بعض خصوصیات بیان کرنےکےبعدامام مسلمنےکتاب فضائل النبیﷺکااختتام جس حدیث پرکیاہےوہ ایک انوکھی سمت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس پیکرجمال کےساتھ بےپناہ محبت کی طرف جس سےبڑھ کرکوئی اورجذبہ عظیم نہیں۔(وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ فِي يَدِهِ لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أَحَدِكُمْ يَوْمٌ وَلَا يَرَانِي، ثُمَّ لَأَنْ يَرَانِي أَحَبُّ إِلَيْهِ مَنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ مَعَهُمْ)’’اس ذات کی قسم جس کےہاتھ میں محمدکی جان ہے!تم لوگوں میں سےکسی پروہ دن ضرورآئےگاکہ وہ مجھےنہیں دیکھ سکےگا۔ اورمیری زیارت کرنااس کےلیے اپنےاس سارےاہل اورمال سےزیادہ محبوب ہوگاجوان کےپاس ہوگا۔‘‘(صحیح مسلم،حدیث:6129)
امام مسلمنےآخری حدیث سےپہلے،اس کتاب کےآخری حصےمیں وہ احادیث بیان کیں جن میں رسول اللہﷺ کےاسمائےگرامی بیان کئےگئےہیں۔ اسمائےمبارکہ آپ کی ان صفات کی نشاندہی کرتےہیں جوآپ کےمشن کی عظمتوں اورآپ کی لائی ہوئیں ہدایت کی خصوصیات کی آئینہ دارہیں۔ آپ محمدہیں،احمدہیں،ماحی ہیں جن کےذریعےسےکفرختم ہوگا،حاشرہیں جن کےپیچھےلوگ اللہ کےسامنےحاضرہوں گے،عاقب ہیں کہ آپ کےذریعےسےہدایت کی تکمیل کےبعدکسی نبی کی بعثت کی ضرورت نہیں، آپ کواللہ نےرؤف ورحیم قراردیاہے،آپ کےاسمائےگرامی میں نبی التوبہ ہے،کیونکہ آپ نےتوبہ کےدروازےکےکواڑپورےکےپورے کھول دیےاورزندگی کےآخری لمحےتک توبہ کی قبولیت کی نویدسنائی ،اورآپﷺنبی الرحمۃ ہیں کہ دنیااورآخرت دونوں میں انسان آپ کی رحمت سےفیض یاب ہوں گے۔
اس کےبعدامام مسلمنےوہ احادیث ذکرکی ہیں جن میں آپﷺ کی شریعت کی بعض امتیازی خصوصیات کابیان ہے۔آپ کی شریعت کی اہم ترین خصوصیت یہ ہےکہ یہ آسان ترین شریعت ہے۔ آپ نےانسانی کمزوریوں کاخیال رکھتےہوئےاپنی امت کوجن آسانیوں اوررخصتوں کی خوشخبری سنائی،بعض لوگوں نےاپنےمزاج کی بناپران کوقبول کرناتقویٰ اورخشیت الہیٰ کےخلاف جانا،ان کےنزدیک اللہ کےقرب کےلیے شدیدمشقتیں اٹھاناضروری تھا۔ آپ نےانہیں یاددلایاکہ بنی نوع انسان میں آپ سےبڑھ کراللہ اوراس کےدین کوجاننےوالااورآپ سےبڑھ کرخشیت الہیٰ رکھنےوالااورکوئی نہیں۔ آپ نےواضح کیاکہ دین جتنےاحکام کی ضرورت تھی وہ آپ کےذریعےسےعطا کردیےگئےاورآنےدنوں اورآخرت کےبارےمیں جن باتوں کاعلم ہوناضروری تھاآپ نےوہ سب باتیں بتادی ہیں، اس لیے اطاعت کابہترین طریقہ یہی ہےکہ پورےاخلاص سےان باتوں کوسیکھاجائے،ان کوسمجھاجائےاورخلوص نیت کےساتھ ان پرعمل کیاجائے۔ خواہ مخواہ بال کی کھال نکالنےاوراحکام شریعت کےحوالےسےجوباتیں پہنچادی گئی ہیں ان کومزیدکریدنےسےمکمل اجتناب کیاجائے۔ یہ احکام قیامت تک کےلیےہیں۔ ہردورمیں علم واخلاص کےساتھ ان پرغوروخوض سےصحیح راہ واضح ہوتی رہےگی۔ جوشخص سمجھنےکےلیے نہیں، غیرضروری طورپرکریدنے کےلیے سوال کرےاوراس کےسوال کی بناپرکسی حلال چیزکےحوالےسےحرمت کاحکم سامنےآجائےتواس سےبڑاظالم کوئی نہیں۔ ہرزمانےمیں غوروفکرکرنےوالوں کےلیے ہدایت میسرہونااس شریعت کی عظیم ترین خصوصیت ہے۔ وقت سےپہلےمفروضوں کی بنیادپرسوال کھڑےکرنااوراپنی طرف سےان کےجوابات گھڑکرووقع پذیرہونےوالےاصل حالات میں غورکرنےوالوں کےلیے مشکلات کھڑی کرنایاغوروخوض اوراجتہادکےدروازے بندکرنایاکتاب وسنت کےبجائےدوسروں کی آراءکواجتہادکامحورقراردینا اس امت پرظلم ہےجس سےاجتناب ضروری ہے۔
نبیﷺکےفضائل کےبعدامام مسلمنےبعض دسرےانبیاءکےفضائل کےبارےمیں احادیث بیان کیں اورسب سےپہلےیہ حدیث لائےکہ انبیاءمختلف ماؤں کی اولادکی طرح ہیں جواہم ترین رشتےکےحوالےسےایک ہوتےہیں۔ یہ سب انبیاءاللہ کی طرف سےمعبوث ہیں۔ ان کادین ایک ہے۔ہرعہداورہرقوم کی ضرورت کےمطابق شریعتوں میں تھوڑاسااختلاف ہے۔ رسول اللہﷺکےذریعےسےدین کی تکمیل ہوئی ہےاورقیامت تک کےلیے ایسی عالمگیراوردائمی شریعت عطاکی گئی ہےجوفطرت انسانی کےعین مطابق ہے۔ حدیث کایہ ٹکڑااس بڑی حدیث کاحصہ ہےکہ حضرت عیسیکےساتھ میراخصوصی تعلق ہے۔
دین کی وحدت کےعلاوہ یہ تعلق بھی ہےکہ ان کےاوررسول اللہﷺکےدرمیان کوئی اورنبی نہیں۔ نہ حضرت عیسیکی بعثت کےبعدنہ ان کےدوبارہ دنیامیں آنےسےپہلے۔ حضرت عیسیٰکی والدہ حضرت مریمؑ کی والدہ کی دعاکی بناپرشیطان سےتحفظ حاصل ہوااوررسول اللہﷺنےاپنی امت کواسی دعاکی تلقین فرمائی۔ پھروہ حدیث بیان کی گئی کہ ایک چورنے،جسےحضرت عیسینےاپنی آنکھوں سےچوری کرتےدیکھاتھا، جب جھوٹ بولتےہوئےاللہ کی قسم کھالی توحضرت عیسیٰنےاللہ تعالیٰ کی عزت وجلال کےسامنےخوداپنی نفی کرتےہوئےیہ فرمایا:میں اللہ پرایمان لایااورجس چیزکےبارےمیں تم نےاللہ کی قسم کھائی، اس میں اپنےآپ کوغلط کہتاہوں۔ جس نبی کی عبودیت اورجلال الہٰی کےسامنےخشوع وخضوع کایہ عالم ہووہ خودکواللہ کابیٹاکیسےقراردےسکتاہے۔ یہ بہت بڑابہتان ہےجس سےحضرت عیسیٰبالکل پاک ہیں۔
پھراختصارسےحضرت ابراہیم،جوآپ کےمجدامجدہیں، کےفضائل بیان ہوئےہیں۔ اس لیےجب آپ کو’’خیرالبریہ‘‘کہاگیاتوآپ ﷺنےفرمایا: یہ لقب حضرت ابراہیمکےشایان شان ہےجن کامیں بیٹابھی ہوں اوران کی ملت کامتبع بھی۔ پھرحضرت ابراہیمکی فضیلت میں وہ معروف حدیث بیان کی گئی جس کابعض حضرات نےمفہوم سمجھےبغیرانکارکیاہے۔ حضرت ابراہیمنےتوحیدباری تعالیٰ کی وضاحت کےلیے دواوراپنی ذات کےلیے ایک جومفہوم مرادلیاہےاس کےحوالےسےوہ خلاف واقعہ تھیں۔ ایک نبی کےاردگردجب ہرطرف شرک ہی شرک کاتعفن پھیلاہواتواس فضامیں سانس لیتےہوئےاللہ جل وتعالیٰ کی شان میں اتنی بڑی گستاخی کےوقت ان کی روح اوران کاجسم جس طرح کی تکلیف محسوس کرےگا،اس سےبڑی تکلیف اورکیاہوسکتی ہے!اسی طرح آپ کایہ فرمان کہ اگریہ بت بولتےہیں توپھران میں سےسب سےبڑےنےباقیوں کےٹکڑےکیےہیں، حقیقت کےاعتبارسےصریح سچائی ہے۔ نہ یہ بولتےہیں،نہ بڑےبت نےکچھ کیاہے۔ یہ سب بےبس ہیں اوران کےشرک کرنےوالےاللہ پربہتان تراشی کررہےہیں۔ حضرت سارہکوجب اپنےساتھ بہن بھائی کارشتہ بتانےکوکہاتووضاحت فرمادی کہ عبادللہ سب کےسب آپس میں اخوت کےرشتےمیں پروئےہوئےہیں، فرمان نبوی ہے(وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ إِخْوَانًا)’’اوراللہ کےبندےبھائی بھائی ہوجاؤ۔‘‘(صحیح مسلم ،حدیث:6536)اوراس سرزمین پریہی دوافرادایک اللہ کی بندگی کرنےوالےتھے۔ اس حقیقت کی بناپردونوں کےدرمیان یہ رشتہ بالکل سچ تھا، لیکن اس علاقےمیں حکمرانی کرنےوالےجابرنےاسےنسبی طورپربہن بھائی کارشتہ سمجھا۔ حضرت ابراہیمکاتقویٰ ایساتھاکہ ان تینوں باتوں کوجوان کےمرادلیےگئےمفہوم کےحوالے سےعین سچ تھیں، محض اللہ کےدشمنوں کےفہم کےحوالےسےکذب قراردیااورقیامت کےروزان کےحوالےسےاللہ کےسامنےپیش ہوکرشفاعت کرنےسےمعذرت فرمائی۔ کاش!اپنی بات کےحوالےسےلفظ کذب کےاستعمال میں ایک عظیم پیغمبرکی طرف سےجس تقویٰ اورتواضع،جس خشیت اورعبودیت کامظاہرہ کیاگیا،اس کی طرف نظرکی جاتی۔ ایساہوتاتوحدیث کےراویوں پرجھوٹ کابہتان باندھنےکی نوبت ہی نہ آتی۔
ان کےبعدحضرت موسیٰکےفضائل ہیں۔ بنی اسرائیل نےآپ کی شان کم کرنےکےلیے آپ کی طرف جوجسمانی عیب منسوب کیاتھا، اللہ نےانہیں اس سےبری ثابت کیا۔ حضرت موسیٰ اس قدرقوی تھےکہ کپڑےلےکربھاگنےوالےپتھرپرجوضربیں لگائیں وہ اس پرثبت ہوگئیں۔ جب ملک الموت انسان کی شکل میں آپ کےپاس آیااورکہاکہ اب آپ کی اللہ کےسامنےحاضری کاوقت آگیاہےتوکلیم اللہ نےاسےدشمن سمجھتےہوئےتھپڑ مارااوراس کی آنکھ پھوڑدی،پھرجب پتہ کہ یہ واقعی اللہ سےملاقات کاوقت تھاتومہلت کی پیش کش کےباوجوداسی وقت حاضری کوترجیح دی۔ رسول اللہﷺنےانبیاءکی شان اوران کی فضیلت کےمطابق ان کےاحترام کی تعلیم دینےکےلیےاس بات پرناراضی کااظہارفرمایاکہ دوسرےانبیاءکےماننےوالوں کےسامنےرسول اللہﷺکو ان سےافضل قراردیاجائے۔ آپﷺنےفرمایاکہ میں تویہ بھی گوارانہیں کرتاکہ کوئی مجھےحضرت یونس بن متّیٰ سےافضل قراردےجن کےبارےمیں قرآن مجیدنےواضح کیاہےکہ وہ اللہ کی طرف سےاجازت کےبغیربستی سےنکل آئےتھےاوراس وجہ سےانہیں مچھلی کےپیٹ میں جاناپڑا،پھراللہ کی رحمت کےطفیل وہاں سےنجات حاصل ہوئی۔ جب آپﷺ کےسامنےحسب ونسب میں عزت مندی کےحوالےسےآپ کےبلندمرتبےکاذکر ہواتوآپﷺ نےحضرت یوسف کوبہ کمال تواضع سب سےزیادہ عزت مندقراردیاجونبی ابن نبی ابن نبی ابن نبی تھے۔ آپﷺنےاس حوالےسےبھی حضرت یوسفکی فضیلت بیان فرمائی کہ بہت لمباعرصہ بےگناہ قیدخانےمیں گزارنےکےباوجودآپ نےبادشاہ کی طرف سےبلاواآتےہی فوراجیل سےباہرآنےکےبجائےاپنے اوپرلگنےوالےالزام پرمبنی مقدمےکافیصلہ مانگا۔
آخرمیں حضرت خضرکےفضائل ہیں۔ حضرت موسیٰ اورخضرکےواقعےسےبڑاسبق یہ ملتاہےکہ کسی جلیل القدراوراولوالعزم پیغمبرکوبھی یہ نہیں سمجھناچاہیےکہ اس کاعلم سب سےبڑھ کرہے۔ فضائل نبی میں یہ حدیث بیان ہوچکی کہ آپ نےعام لوگوں سےیہ کہاکہ دنیاکےمعاملات میں اپنےمیدان کےبارےمیں جن چیزوں کوان میں تم زیادہ جانتےہو،اپنی معلومات پرچلولیکن میں جب اللہ کاحکم پہنچاؤں تواس پرضرورعمل کرو۔ غورکیاجائےتواتواضع اورانکسارکےحوالےسےبھی ،جوعبودیت کالازمی حصہ ہیں، آپﷺ کی فضیلت ارفع واعلیٰ ہے۔
لیث نے یزید بن ابی حبیب سے، انھوں نے ابو الخیر سے،انھوں نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لے گئے اور اہل احد پر اسی طرح نماز جنازہ پڑھی جس طرح میت پر پڑھی جاتی ہے، پھر آپ پلٹ کر منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فر یا: ’’میں حوض پر تمھارا پیش رو ہوں گا اور میں تم پر گواہی دینے والا ہوں گا اور میں، اللہ کی قسم! جیسے اب بھی اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں گا۔ مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں یا (فرمایا:) زمین کی چابیاں عطا کی گئیں اور اللہ کی قسم! میں تمھا رے بارے میں اس بات سے نہیں ڈرتا کہ میرے بعد تم شرک کرو گے۔ لیکن میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تم ان (خزانوں کے معاملے) میں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کرو گے (کہ ان میں سے کو ن زیادہ فائدہ اٹھاتا اور زیادہ دولت مندی کا مظاہرہ کرتا ہے۔)‘‘
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
اس حدیث سے بعض لوگوں نے بڑا بودا استدلال کیا ہے کہ آپﷺ کے اپنی امت کےشرک میں مبتلا ہونے کا کوئی خدشہ نہیں تھا کیونکہ آپﷺنے شرک کی جڑیں کاٹ دی تھیں۔ یہ استدلال فضول اور لا یعنی ہونے کے ساتھ دیگر نصوصِ شرعیہ جو امت محمدیہ میں شرک کے وجود پر دلالت کرتی ہیں، ان کے خلاف بھی ہے۔ اسی لیے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس کی تعیین کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کا مصداق صحابہ کرام ہیں: (و أن أصحابه لا يشركون بعده فكان كذٰلك) اور یہ کہ آپﷺ کے صحابہ آپ کے بعد شرک نہیں کریں گے، لہٰذا اسی طرح ہوا۔‘‘ (فتح الباري : 6/ 614) گویا اس حدیث کا تعلق صحابہ کرام سے ہے، عام امت سے نہیں ۔ اور صحابہ کرام ہی کو مخاطب کر کے آپﷺ نے یہ بات ارشا د فرمائی تھی- اگر بالفرض حدیث کے الفاظ کو عا م تسلیم کر لیا جائے تب بھی اس سے مراد امت کا ہر فرد نہیں ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کا مفہوم یوں واضح کرتے ہیں: (قوله ما أخاف عليكم أن تشركوا أي علي مجموعكم لأن ذالك قد وقع من البعض أعاذ الله تعالي) آپﷺ کے اس فرمان: ’’میں تمھارے بارے میں اس بات سے نہیں ڈرتا کہ میرے بعد تم شرک کرو گے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ تم مجموعی طور پرشرک نہیں کرو گے۔ اس لیے کہ امت مسلمہ میں سے بعض افراد کی جانب سے شرک کا وقوع ہوا، اللہ تعالی ہمیں اپنی پناہ میں رکھے۔ (فتح الباري: 3/ 211) قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے شرح میں لکھتے ہیں : ’’آپ ﷺ کا اس بات کی خبر دینا کہ انھیں اپنے بعد لوگوں کے شرک میں مبتلا ہونے کا خوف نہیں تو اس سے مراد یہ نہ تھی کہ وہ سب یا ان میں سے کچھ شرک کریں گے۔ آپﷺ نے بذات خود حدیث میں یہ بیان فرمایا کہ (آپ کی امت میں سے) بعض مرتد ہوں گے بلکہ آپﷺ کی مراد یہ تھی کہ مجموعی یا عمومی طور پر سب کے سب شرک میں مبتلا نہیں ہوں گے جیسا کہ آپﷺ کو اپنی امت کی اکثریت کا دنیا کی محبت میں مبتلا ہونے کا خوف تھا‘‘ (إكمال المعلم:267، 268) علامہ نووی، ملا علی قاری اور دیگر شارحین حدیث نے بھی یہی مفہوم بیان کیا ہے۔ مولانا غلام رسول سعیدی بریلوی نے اس حدیث کا ترجمہ کیا ہے ’’بے شک خدا کی قسم! مجھے تمھارے متعلق یہ خدشہ نہیں ہے تم (سب) میرے بعد مشرک ہو جاؤگے‘‘ (شر ح مسلم: 6 /738) موصوف نے ترجمہ حدیث میں ’’ سب‘‘ لکھ کر اس حقیقت کا اعتراف کر لیے کہ پوری امت محمدیہ کے شرک میں مبتلاہونےکا خوف نہیں، البتہ بعض لوگوں سے ایسا ممکن ہے اور یہی حدیث کامنشا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن (گھر) سے نکلے اور شہدائے احد کے لیے، میت کی طرح دعا کی پھر منبر کی طرف پلٹے اور فرمایا: ’’میں تمہارا پیش رو ہوں اور میں تمہارے بارے میں گواہی دوں گا اور میں اللہ کی قسم، اب اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دے دی گئی ہیں یا زمین کی چابیاں دے دی گئی ہیں اور میں اللہ کی قسم! میں اپنے بعد تمہارے شرک کرنے کا خطرہ محسوس نہیں کرتا، لیکن مجھے تمہارے بارے میں یہ اندیشہ ہے کہ تم دنیا میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو گے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
صلاته علی الميت: آپ نے اپنی زندگی کے آخری دور میں، تمام شہداء کے لیے، میت کی طرح انتہائی اخلاص اور تضرع سے دعا فرمائی اور یہ دعا مسجد میں کی گئی، اس لیے نماز سے فراغت کے بعد آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور اگلی باتیں ارشاد فرمائیں اور شہدائے اُحد کی قبور تو میدان اُحد میں ہی تھیں، وہاں منبر کہاں سے آ گیا، اس لیے علامہ انور شاہ نے لکھا ہے کہ روایات کے تتبع اور تلاش سے مجھ پر یہ حقیقت کھلی ہے کہ آپ نے یہ دعا اپنے وفات کے سال مسجد نبوی میں کی، اس طرح آپ نے زندوں کی طرح مردوں کو بھی الوداع فرمایا، (فیض الباری ج 1 ص 478)۔ جنگ اور تین ہجری کو ہوئی اور آپ کی وفات ربیع الاول 11ھ میں ہوئی، نماز اتنے عرصہ کے بعد تو نہیں پڑھی جاتی۔ انی قد اعطيت مفاتيح خزائن الارض او مفاتيح الارض: مجھے زمین کے خزانوں کی یا زمین کی کنجیاں دے دی گئی ہیں، آپ کی اس پیش گوئی کے مطابق مسلمانوں نے تمام علاقوں کو فتح کیا اور کسریٰ و قیصر کے خزانوں کے مالک بنے اور اب بھی ہر قسم کے قدرتی اسباب و ذرائع معیشت مسلمان ملکوں میں موجود ہیں، لیکن بدقسمتی سے مسلمان ان سے صحیح فائدہ نہیں اٹھا رہے۔ ما أخاف عليكم ان تشركوا بعدی: مجھے یہ اندیشہ نہیں ہے کہ تم میرے بعد شرک میں مبتلا ہو جاؤ گے، مقصد یہ ہے کہ آپ کی امت مجموعی اعتبار سے اسلام سے برگشتہ نہیں ہو گی یا جاہلیت کے دور والا شرک دوبارہ پیدا نہیں ہو گا کہ لوگ شرک کو اپنا دین قرار دیں، اگر کچھ لوگ شرک میں مبتلا ہو جائیں تو وہ اس کو شرک تسلیم ہی نہیں کرتے اور اسلام کو ہی اپنا دین تصور کرتے ہیں اور انفرادی طور پر اگر کچھ لوگ مرتد ہوئے ہیں تو اکثریت کے مقابلہ میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اور بقول امام ابی اس کا مخاطب صحابہ کرام ہی کہ ان کے بارے میں یہ خطرہ نہ تھا۔ (تکملہ ج 4 ص 505) لكن اخاف عليكم ان تنافسوا فيها: لیکن دنیا کے خزانوں اور دنیوی مال و دولت میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرنے کا اندیشہ ہے اور یہ چیز باہمی حسد و بغض اور دشمنی کا باعث بنتی ہے، جس سے اخلاق اور اعمال میں فساد اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور آپ نے جس چیز کے اندیشے کا اظہار فرمایا تھا، آج وہی چیز امت کی تباہی اور بربادی کا باعث بن رہی ہے، دین و ایمان اتفاق و اتحاد ہر چیز اس کی بھینٹ چڑھ رہی ہے، جیسا کہ اگلی روایت میں اس کی صراحت آ رہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Uqba bin 'Amir reported that Allah's Messenger (ﷺ) one day went out and he offered prayer over the martyrs of Uhud just as prayer is offered over the dead. He then came back and sat on pulpit and said: I shall be present there (at the Cistern) before you. I shall be your witness and, by Allah, I perceive as if I am seeing with my own eyes my Cistern at this very state and I have been given the keys of the treasures of the earth or the keys of the earth and, by Allah, I am not afraid concerning you that you would associate anything (with Allah after me), but I am afraid that you would be vying with one another (for the possession of) the treasures of the earth.