Muslim:
The Book of Purification
(Chapter: Another description of wudu’)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
236.
ہارون بن سعید ایلی اور ابو طاہر نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں ابن وہب نے حدیث سنائی، انہوں نےکہا: مجھے عمرو بن حارث نے خبر دی، کہ حبان بن واسع نے انہیں حدیث سنائی، (کہا:) ان کے والد نے ان سے بیان کیا، (کہا:) انہوں نے حضرت عبد اللہ بن زید بن عاصم مازنی انصاریؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا: ’’کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، آپ نے وضو کیا، تو کلی کی، پھر ناک جھاڑی، پھر تین بار اپنا چہرہ دھویا اور اپنا دایاں ہاتھ تین بار، اور دوسرا بھی تین بار دھویا، اور سر کا مسح اس پانی سے کیا، جو ہاتھ میں بچا ہوا نہیں تھا اور اپنے پاؤں دھوئے، حتی کہ ان کو اچھی طرح صاف کر دیا۔‘‘ (اسی سند کے ایک راوی) ابو طاہر نے حدیث بیان کرتے ہوئے کہا: ہمیں ابن وہب نے عمروبن حارث سے یہ حدیث سنائی۔
اسلام میں طہارت اور پاکیزگی کی اہمیت وفضیلت
طہارت کا مطلب ہے صفائی اور پاکیز گی۔ یہ نجاست کی ضد ہے۔ رسول اللہﷺ کو بعثت کے بعد آغاز کار میں جو احکام ملے اور جن کا مقصود اگلے مشن کے لیے تیاری کرنا اور اس کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کرنا تھا، وہ ان آیات میں ہیں: يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ (1) قُمْ فَأَنْذِرْ (2) وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ (3) وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (4) وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ (5) وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ (6) وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ (7) ”اے موٹا کپڑا لپیٹنے والے! اٹھیے اور ڈرایئے، اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے، اپنے کپڑے پاک رکھیے، پلیدی (بتوں) سے دور رہے، (اس لیے ) احسان نہ کیجیے کہ زیادہ حاصل کریں اور اپنے رب کی رضا کے لیے صبر کیجیے‘‘ (المدثر 71
اسلام کے ان بنیادی احکام میں کپڑوں کو پاک رکھنے اور ہر طرح کی جسمانی، اخلاقی اور روحانی ناپاکی سے دور رہنے کا حکم ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اللہ سے تعلق، ہدایت اور روحانی ارتقا کا سفر طہارت اور پاکیزگی سے شروع ہوتا ہے جبکہ گندگی تعفن اورغلاظت شیطانی صفات ہیں اور ان سے گمراہی ، ضلالت اور روحانی تنزل کا سفر شروع ہوتا ہے۔
وُضُوْ، وَضَائَة سے ہے جس کے معنی نکھار اور حسن و نظافت کے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالی کے سامنے حاضری کی تیاری یہی ہے کہ انسان نجس نہ ہو، طہارت کی حالت میں ہو اور مسنون طریقہ وضو سے اپنی حالت کو درست کرے اور خود کو سنوارے۔ وضوسے جس طرح ظاہری اعضاء صاف اور خوبصورت ہوتے ہیں، اسی طرح روحانی طور پر بھی انسان صاف ستھرا ہو کر نکھر جاتا ہے۔ ہر عضو کو دھونے سے جس طرح ظاہری کثافت اور میل دور ہوتا ہے بالکل اسی طرح وہ تمام گناہ بھی دھل جاتے ہیں جوان اعضاء کے ذریعے سے سرزد ہوئے ہوں ۔
مومن زندگی بھر اپنے رب کے سامنے حاضری کے لیے وضو کے ذریعے سے جس وَضَائَةَ کا اہتمام کرتا ہے قیامت کے روز وہ مکمل صورت میں سامنے آئے گی اور مومن غَرُّ مُعُجَّلُونَ (چمکتے ہوئے روشن چہروں اور چمکتے ہوئے ہاتھ پاؤں والے) ہوں گے۔
نظافت اور جمال کی یہ صفت تمام امتوں میں مسلمانوں کو ممتاز کرے گی۔ ایک بات یہ بھی قابل توجہ ہے کہ ماہرین صحت جسمانی صفائی کے حوالے سے وضو کے طریقے پرتعجب آمیر تحسین کا اظہار کرتے ہیں ۔ اسلام کی طرح اس کی عبادات بھی بیک وقت دنیا و آخرت اور جسم و روح کی بہتری کی ضامن ہیں۔ الله تعالی کے سامنے حاضری اور مناجات کی تیاری کی یہ صورت ظاہری اور معنوی طور پر انتہائی خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ہر ایک کے لیے آسان بھی ہے۔ جب وضو ممکن نہ ہو تو اس کا قائم مقام تیمم ہے، یعنی ایسی کوئی بھی صورت حال پیش نہیں آتی جس میں انسان اس حاضری کے لیے تیاری نہ کر سکے۔
ہارون بن سعید ایلی اور ابو طاہر نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں ابن وہب نے حدیث سنائی، انہوں نےکہا: مجھے عمرو بن حارث نے خبر دی، کہ حبان بن واسع نے انہیں حدیث سنائی، (کہا:) ان کے والد نے ان سے بیان کیا، (کہا:) انہوں نے حضرت عبد اللہ بن زید بن عاصم مازنی انصاریؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا: ’’کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، آپ نے وضو کیا، تو کلی کی، پھر ناک جھاڑی، پھر تین بار اپنا چہرہ دھویا اور اپنا دایاں ہاتھ تین بار، اور دوسرا بھی تین بار دھویا، اور سر کا مسح اس پانی سے کیا، جو ہاتھ میں بچا ہوا نہیں تھا اور اپنے پاؤں دھوئے، حتی کہ ان کو اچھی طرح صاف کر دیا۔‘‘ (اسی سند کے ایک راوی) ابو طاہر نے حدیث بیان کرتے ہوئے کہا: ہمیں ابن وہب نے عمروبن حارث سے یہ حدیث سنائی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم مازنی ؓسے روایت ہے: ’’کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کو وضو کرتے دیکھا، آپ نے کلی کی، پھر (ناک میں پانی ڈال کر) جھاڑا، پھر اپنا چہرہ تین دفعہ دھویا، اور اپنا دایاں ہاتھ تین مرتبہ اور دوسرا تین مرتبہ، اور سر کا مسح اس پانی سے کیا جو ہاتھ سے بچا ہوا نہیں تھا، (یعنی نئے پانی سے مسح کیا) اور اپنے دونوں پاؤں دھوئے، حتیٰ کہ ان کو صاف کر لیا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سر کے مسح کےلیے نیا پانی لینا چاہیے، اوپر کی حدیث میں بھی یہی کیفیت بیان ہوئی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abdullah bin Zaid bin 'Asim al-Mazini (RA) reported: He saw Allah's Messenger (ﷺ) perform the ablution. He rinsed his mouth then cleaned his nose, then washed his face three times, then washed his right hand thrice and then the other one, thrice. He then took fresh water and wiped his head and then washed his feet till he cleaned them.