Muslim:
The Book of Virtues
(Chapter: The Virtues Of Musa, Peace Be Upon Him)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2373.
حجین بن مثنیٰ نے کہا: ہمیں عبد العزیز بن عبداللہ بن ابی سلمہ نے عبداللہ بن فضل ہاشمی سے حدیث بیان کی، انھوں نے عبد الرحمٰن اعرج سے، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک بار ایک یہودی اپنا سامان بیچ رہا تھا اس کو اس کے کچھ معاوضے کی پیش کش کی گئی جو اسے بری لگی یا جس پر وہ راضی نہ ہوا۔ شک عبدالعزیز کو ہوا ۔وہ کہنے لگا نہیں، اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں پر فضیلت دی! کہا، تو انصار میں سے ایک شخص نے اس کی بات سن لی تو اس کے چہرے پر تھپڑلگایا، کہا: تم کہتے ہو۔ اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں پر فضیلت دی! جبکہ رسول اللہ ﷺ (تشریف لا چکے اور) ہمارے درمیان موجود ہیں۔ کہا: تو وہ یہودی رسول اللہ ﷺ کے پاس آگیا اور کہنے لگا: ابو القاسم! میری ذمہ داری لی گئی ہے اور ہم سے (سلامتی کا) وعدہ کیا گیا ہے۔ اور کہا: فلا ں شخص نے میرے منہ پر تھپڑ مارا ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے کہا: ’’تم نے اس کے منہ پر تھپڑ کیوں مارا؟ کہا کہ اس نے کہا تھا۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ! اس ذات کی قسم جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں پر فضیلت دی ہے جبکہ آپ ہمارے درمیان موجود ہیں تو رسول اللہ ﷺ کو غصہ آ گیا اور آپ کے چہرہ مبارک سے غصےکا پتہ چلنے لگا، پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کے نبیوں کے مابین (انھیں ایک دوسرے پر) فضیلت نہ دیا کرو اس لیے کہ جب صور پھونکا جائے گا تو سوائے ان کے جنھیں اللہ چاہے گا آسمانوں اور زمین میں جو مخلوق ہے سب کے ہوش و حواس جاتے رہیں گے ،پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا، تو سب سے پہلے جسے اٹھایا جائے گا وہ میں ہوں گا یا (فرمایا) جنھیں سب سے پہلے اٹھایا جائے گا میں ان میں ہوں گا۔ تو (میں دیکھوں گا۔ کہ) حضرت موسیٰ ؑ عرش کو پکڑ ے ہوئے ہوں گے، مجھے معلوم نہیں کہ ان کے لیے یوم طور کی بے ہو شی کو شمار کیا جا ئے گا۔ (اور وہ اس کے عوض اس بے ہوشی سےمستثنیٰ ہوں گے،) یا انھیں مجھ سے پہلے ہی اٹھایا جائے گا، میں (یہ بھی) نہیں کہتا کہ کوئی (نبی) یونس بن متی علیہ السلام سے افضل ہے۔‘‘
صحیح مسلم میں کتاب الفضائل خاص اہمیت کی حامل ہے۔ امام مسلم نےاس میں ترتیب ،تبویب اورانتخاب مضامین کےذریعےسےجومثال پیش کی ہےامت محمدیہ کےچوٹی کےسیرت نگاروں نےاس سےخوب استفادہ کیاہے۔ سیرومغازی کےساتھ ساتھ دلائل نبوت اورفضائل وشمائل،جواس کتاب میں نمایاں ہیں، بتدریج سیرت طیبہ میں نہ صرف شامل ہوئےبلکہ سیرت کالازمی حصہ بن گئے۔
اس کتاب کےابتدائی ابواب کوایک طرح کےمقدمےکی حیثیت حاصل ہے۔آغازآپﷺکےاعلیٰ حسب ونسب اورمخلوقات میں آپ کےبلندترین مقام سےہوتاہےحتی کہ بعثت سےپہلےہی جمادات کی طرف سےآپ کوسلام کیاجاتاتھا۔ اس کےفورابعداس بات کاتذکرہ ہےکہ اخروی زندگی میں بھی ساری مخلوقات پرآپ ہی کوفضیلت حاصل ہوگی۔
اس کےبعددلائل نبوت کولیاگیاہے۔آپ کےعظیم معجزات جوبیک وقت آپ کی نبوت کےدلائل اورایمان لانےوالےکےلیےاضافہ ایمان کاسبب ہیں، وہ رسول اللہﷺکےساتھیوں کی ایسی ضرورتوں کی تکمیل کاذریعہ بنےجن کی تکمیل کی کوئی صورت نکلتی نظرنہ آتی تھی۔ پانی کی شدیدقلت کےوقت جس سےانسانی زندگی کےضائع ہوجانےکاخدشہ پیداہوجائے،آپﷺکےجسداطہرکےذریعےسےاس کی فراوانی اسی قسم کاایک معجزہ ہ۔حضرت موسیکی قوم کوچٹانوں کےاندرسےچشمےنکال کرسیراب کیاگیاجبکہ نبیﷺکےساتھیوں کےلیے آپ کی مبارک انگلیوں سےچشمےپھوٹےیاآپ کےوضوکےلیےاستعمال کیےہوئےپانی کوقطرہ قطرہ بہتےہوئےچشمےمیں ڈالنےسےاایسی آب رسانی کاانتظام ہواکہ اس سارےبنجرعلاقےکوباغ وبہارمیں تبدیل کردیاگیا(يُوشِكُ، يَا مُعَاذُ إِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ، أَنْ تَرَى مَا هَاهُنَا قَدْ مُلِئَ جِنَانًا)’’معاذ!اگرتمہاری زندگی لمبی ہوئی توتم دیکھوگےکہ یہاں جوجگہ ہےوہ گھنےباغات سےلہلہااٹھےگی۔‘‘(صحیح مسلم،حدیث:5947)غزوہ تبوک کےسفرکےدوران میں آتےجاتےہوئےجن معجزات کاظہورہوا،ان کامطالعہ ایمان افروزہے۔ اس کےبعداس ہدایت اورشریعت کی خصوصیات بیان ہوئی ہیں جوآپ لائے۔ اس پرصحیح طورپرعمل کرنےوالابھی دنیااورآخرت میں کامیاب ہےاورپوری طرح عمل نہ کرسکنےکےباوجوداس شریعت کوآگےپہنچانےوالااوراپنی نسلوں تک لےجانےوالابھی رحمت الہیٰ سےسرفرازہوا۔ اورجس نےنہ اپنایا،نہ آگےپہنچایاوہ ایسی بنجرزمین کےمانندہےجس پرکاونٹوں جھاڑجھنکارکےسواکچھ نہیں ہوتا۔ آپﷺبشیرکےساتھ ساتھ نذیربھی ہیں۔ آپ نےاللہ کےعذاب سے،جواس کی رضاکےانعام،جنت کیطرح برحق ہے،ڈرایا،جہنم میں لےجانےوالےاعمال کی نشاندہی فرمائی۔ جن لوگوں نےآپ کی بات مانی وہ جہنم سےبچ گئے۔ جنہوں نےانکارکیااوربعض وعنادکی شدت کی بناپرآگ میں گھسنےکی کوشش کی ،آپ نےان کوبھی بچانےکےلیےانتہائی کوششیں فرمائیں۔ آپ کی لائی ہوئی ہدایت کاعمل نمونہ آپﷺکااسوہ حسنہ ہے۔ آپ مکمل ترین پیکرجمال ہیں،اس جمال کی دلبربائی اوردلکشی ایسی ہےکہ ہرسلیم الفطرت انسان بےاختیاراس کی طرف کھچاچلاآتاہے۔ آپ ﷺکےاخلاق حسنہ،آپ کی بےکنارجودوسخا،آپ کی رحمت وعطا،آپ کی شفقت اورآپ کی حیااللہ کی ہدایت سےکنارہ کشی کرنےوالوں کوبھی زیادہ دورنہیں جانےدیتی ۔دنیاکےسب سےبڑےخوش نصیب تووہ لوگ تھےجنہوں نےآپ کی صفات حسنہ اوراخلاق عالیہ کےساتھ ساتھ آپ کےشخصی جمال کابھی اپنی آنکھوں سےمشاہدہ کیا۔ اوراحسان یہ کیاکہ وجوبہترین لفظ انہیں ملےان کےذریعےسےاسی جمال بےمثال کی تصویرکشی کی۔ آپ کےحلیہ مبارک سےلےکرآپ کے جسم مبارک سےنکلنےوالےمعطرپسینےکی خوشبوتک کوبیان کرنےکی سعادت حاصل کی ۔وہی خوشبوجس کےبارےمیں ام سلیمؓ نےکہاتھا:( عَرَقُكَ أَدُوفُ بِهِ طِيبِي)’’یہ آپ کاپسینہ اکٹھاکررہی ہوں کہ اس سےاپنےمشک وعنرکومعطرکرلوں۔‘‘(صحیح مسلم،حدیث:6057)امام مسلم نےاس تذکرےکےساتھ ہی وہ احادیث بیان کردیں کہ آپ کوسب سےزیادہ پسینہ اس وقت تھاجب آپ پروحی الہیٰ نازل ہوتی تھی۔ اس طرح انہوں نےسمجھادیاکہ اس خوشبوکاسرچشمہ کیاتھا۔ مشک وعنرکاچشمہ تووہ جاندارہیں جواللہ کی مخلوق ہیں اورآپ کےپیکراطہرکی خوشبوکاسلسلہ اللہ کےکلام سےجڑاہواتھا۔ آپ کاقلب اطہرمہبط وحی الہیٰ تھاجوآنکھوں کی نیندکےدوران میں بھی اللہ سےرابطےکےلیےمسلسل بیداررہتاتھا، پھرآپ کےجسم اطہرکی خوشبومشک وعنرکوبھی معطرکرنےوالی کیوں نہ ہوتی!
آپﷺکےجمال بےپایاں کوبیان کرنےکےلیے دنیاکےفصیح ترین لوگوں نےبہترین الفاظ کاانتخاب کیا،لیکن ان کےبیان کاایک ایک لفظ اس بات کی گواہی دےرہاہےکہ الفاظ اس جمال بےمثال کوبیان کرنےسےعاجزہیں۔ جوجمال حقیقت میں موجودتھااس کےلیے زبان میں الفاظ ہی موجودنہیں تھے۔ حضرت انسکےالفاظ پرغورتو کریں(لَيْسَ بِالطَّوِيلِ الْبَائِنِ، وَلَا بِالْقَصِيرِ، وَلَيْسَ بِالْأَبْيَضِ الْأَمْهَقِ وَلَا بِالْآدَمِ وَلَا بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ وَلَا بِالسَّبِطِ)’’آپﷺبہت درازقدتھےنہ پستہ قامت،بالکل سفیدرنگ والےتھےنہ بالکل گندمی،بال چھوٹےگھنگرالےتھےنہ بالکل سیدھے۔‘‘(صحیح مسلم،حدیث:6089)حضرت انسکےعلاوہ بیان کرنےوالےدوسرےصحابہ کےالفاظ بھی یہی اسلوب لیےہوئےہیں۔ کہاجاتاہےکہ بڑےمصوروں کی بعض تصویریں ایسی ہیں جن کی خوبصورتی کےمشاہدےاوران پرغوروخوض کرنےمیں بعض لوگوں نےاپنی عمریں بسرکردیں بعض عقل وخردسےبیگانہ بھی ہوگئے۔ آپ کےشمائل وخصائل اورآپ کی شریعت کی بعض خصوصیات بیان کرنےکےبعدامام مسلمنےکتاب فضائل النبیﷺکااختتام جس حدیث پرکیاہےوہ ایک انوکھی سمت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس پیکرجمال کےساتھ بےپناہ محبت کی طرف جس سےبڑھ کرکوئی اورجذبہ عظیم نہیں۔(وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ فِي يَدِهِ لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أَحَدِكُمْ يَوْمٌ وَلَا يَرَانِي، ثُمَّ لَأَنْ يَرَانِي أَحَبُّ إِلَيْهِ مَنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ مَعَهُمْ)’’اس ذات کی قسم جس کےہاتھ میں محمدکی جان ہے!تم لوگوں میں سےکسی پروہ دن ضرورآئےگاکہ وہ مجھےنہیں دیکھ سکےگا۔ اورمیری زیارت کرنااس کےلیے اپنےاس سارےاہل اورمال سےزیادہ محبوب ہوگاجوان کےپاس ہوگا۔‘‘(صحیح مسلم،حدیث:6129)
امام مسلمنےآخری حدیث سےپہلے،اس کتاب کےآخری حصےمیں وہ احادیث بیان کیں جن میں رسول اللہﷺ کےاسمائےگرامی بیان کئےگئےہیں۔ اسمائےمبارکہ آپ کی ان صفات کی نشاندہی کرتےہیں جوآپ کےمشن کی عظمتوں اورآپ کی لائی ہوئیں ہدایت کی خصوصیات کی آئینہ دارہیں۔ آپ محمدہیں،احمدہیں،ماحی ہیں جن کےذریعےسےکفرختم ہوگا،حاشرہیں جن کےپیچھےلوگ اللہ کےسامنےحاضرہوں گے،عاقب ہیں کہ آپ کےذریعےسےہدایت کی تکمیل کےبعدکسی نبی کی بعثت کی ضرورت نہیں، آپ کواللہ نےرؤف ورحیم قراردیاہے،آپ کےاسمائےگرامی میں نبی التوبہ ہے،کیونکہ آپ نےتوبہ کےدروازےکےکواڑپورےکےپورے کھول دیےاورزندگی کےآخری لمحےتک توبہ کی قبولیت کی نویدسنائی ،اورآپﷺنبی الرحمۃ ہیں کہ دنیااورآخرت دونوں میں انسان آپ کی رحمت سےفیض یاب ہوں گے۔
اس کےبعدامام مسلمنےوہ احادیث ذکرکی ہیں جن میں آپﷺ کی شریعت کی بعض امتیازی خصوصیات کابیان ہے۔آپ کی شریعت کی اہم ترین خصوصیت یہ ہےکہ یہ آسان ترین شریعت ہے۔ آپ نےانسانی کمزوریوں کاخیال رکھتےہوئےاپنی امت کوجن آسانیوں اوررخصتوں کی خوشخبری سنائی،بعض لوگوں نےاپنےمزاج کی بناپران کوقبول کرناتقویٰ اورخشیت الہیٰ کےخلاف جانا،ان کےنزدیک اللہ کےقرب کےلیے شدیدمشقتیں اٹھاناضروری تھا۔ آپ نےانہیں یاددلایاکہ بنی نوع انسان میں آپ سےبڑھ کراللہ اوراس کےدین کوجاننےوالااورآپ سےبڑھ کرخشیت الہیٰ رکھنےوالااورکوئی نہیں۔ آپ نےواضح کیاکہ دین جتنےاحکام کی ضرورت تھی وہ آپ کےذریعےسےعطا کردیےگئےاورآنےدنوں اورآخرت کےبارےمیں جن باتوں کاعلم ہوناضروری تھاآپ نےوہ سب باتیں بتادی ہیں، اس لیے اطاعت کابہترین طریقہ یہی ہےکہ پورےاخلاص سےان باتوں کوسیکھاجائے،ان کوسمجھاجائےاورخلوص نیت کےساتھ ان پرعمل کیاجائے۔ خواہ مخواہ بال کی کھال نکالنےاوراحکام شریعت کےحوالےسےجوباتیں پہنچادی گئی ہیں ان کومزیدکریدنےسےمکمل اجتناب کیاجائے۔ یہ احکام قیامت تک کےلیےہیں۔ ہردورمیں علم واخلاص کےساتھ ان پرغوروخوض سےصحیح راہ واضح ہوتی رہےگی۔ جوشخص سمجھنےکےلیے نہیں، غیرضروری طورپرکریدنے کےلیے سوال کرےاوراس کےسوال کی بناپرکسی حلال چیزکےحوالےسےحرمت کاحکم سامنےآجائےتواس سےبڑاظالم کوئی نہیں۔ ہرزمانےمیں غوروفکرکرنےوالوں کےلیے ہدایت میسرہونااس شریعت کی عظیم ترین خصوصیت ہے۔ وقت سےپہلےمفروضوں کی بنیادپرسوال کھڑےکرنااوراپنی طرف سےان کےجوابات گھڑکرووقع پذیرہونےوالےاصل حالات میں غورکرنےوالوں کےلیے مشکلات کھڑی کرنایاغوروخوض اوراجتہادکےدروازے بندکرنایاکتاب وسنت کےبجائےدوسروں کی آراءکواجتہادکامحورقراردینا اس امت پرظلم ہےجس سےاجتناب ضروری ہے۔
نبیﷺکےفضائل کےبعدامام مسلمنےبعض دسرےانبیاءکےفضائل کےبارےمیں احادیث بیان کیں اورسب سےپہلےیہ حدیث لائےکہ انبیاءمختلف ماؤں کی اولادکی طرح ہیں جواہم ترین رشتےکےحوالےسےایک ہوتےہیں۔ یہ سب انبیاءاللہ کی طرف سےمعبوث ہیں۔ ان کادین ایک ہے۔ہرعہداورہرقوم کی ضرورت کےمطابق شریعتوں میں تھوڑاسااختلاف ہے۔ رسول اللہﷺکےذریعےسےدین کی تکمیل ہوئی ہےاورقیامت تک کےلیے ایسی عالمگیراوردائمی شریعت عطاکی گئی ہےجوفطرت انسانی کےعین مطابق ہے۔ حدیث کایہ ٹکڑااس بڑی حدیث کاحصہ ہےکہ حضرت عیسیکےساتھ میراخصوصی تعلق ہے۔
دین کی وحدت کےعلاوہ یہ تعلق بھی ہےکہ ان کےاوررسول اللہﷺکےدرمیان کوئی اورنبی نہیں۔ نہ حضرت عیسیکی بعثت کےبعدنہ ان کےدوبارہ دنیامیں آنےسےپہلے۔ حضرت عیسیٰکی والدہ حضرت مریمؑ کی والدہ کی دعاکی بناپرشیطان سےتحفظ حاصل ہوااوررسول اللہﷺنےاپنی امت کواسی دعاکی تلقین فرمائی۔ پھروہ حدیث بیان کی گئی کہ ایک چورنے،جسےحضرت عیسینےاپنی آنکھوں سےچوری کرتےدیکھاتھا، جب جھوٹ بولتےہوئےاللہ کی قسم کھالی توحضرت عیسیٰنےاللہ تعالیٰ کی عزت وجلال کےسامنےخوداپنی نفی کرتےہوئےیہ فرمایا:میں اللہ پرایمان لایااورجس چیزکےبارےمیں تم نےاللہ کی قسم کھائی، اس میں اپنےآپ کوغلط کہتاہوں۔ جس نبی کی عبودیت اورجلال الہٰی کےسامنےخشوع وخضوع کایہ عالم ہووہ خودکواللہ کابیٹاکیسےقراردےسکتاہے۔ یہ بہت بڑابہتان ہےجس سےحضرت عیسیٰبالکل پاک ہیں۔
پھراختصارسےحضرت ابراہیم،جوآپ کےمجدامجدہیں، کےفضائل بیان ہوئےہیں۔ اس لیےجب آپ کو’’خیرالبریہ‘‘کہاگیاتوآپ ﷺنےفرمایا: یہ لقب حضرت ابراہیمکےشایان شان ہےجن کامیں بیٹابھی ہوں اوران کی ملت کامتبع بھی۔ پھرحضرت ابراہیمکی فضیلت میں وہ معروف حدیث بیان کی گئی جس کابعض حضرات نےمفہوم سمجھےبغیرانکارکیاہے۔ حضرت ابراہیمنےتوحیدباری تعالیٰ کی وضاحت کےلیے دواوراپنی ذات کےلیے ایک جومفہوم مرادلیاہےاس کےحوالےسےوہ خلاف واقعہ تھیں۔ ایک نبی کےاردگردجب ہرطرف شرک ہی شرک کاتعفن پھیلاہواتواس فضامیں سانس لیتےہوئےاللہ جل وتعالیٰ کی شان میں اتنی بڑی گستاخی کےوقت ان کی روح اوران کاجسم جس طرح کی تکلیف محسوس کرےگا،اس سےبڑی تکلیف اورکیاہوسکتی ہے!اسی طرح آپ کایہ فرمان کہ اگریہ بت بولتےہیں توپھران میں سےسب سےبڑےنےباقیوں کےٹکڑےکیےہیں، حقیقت کےاعتبارسےصریح سچائی ہے۔ نہ یہ بولتےہیں،نہ بڑےبت نےکچھ کیاہے۔ یہ سب بےبس ہیں اوران کےشرک کرنےوالےاللہ پربہتان تراشی کررہےہیں۔ حضرت سارہکوجب اپنےساتھ بہن بھائی کارشتہ بتانےکوکہاتووضاحت فرمادی کہ عبادللہ سب کےسب آپس میں اخوت کےرشتےمیں پروئےہوئےہیں، فرمان نبوی ہے(وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ إِخْوَانًا)’’اوراللہ کےبندےبھائی بھائی ہوجاؤ۔‘‘(صحیح مسلم ،حدیث:6536)اوراس سرزمین پریہی دوافرادایک اللہ کی بندگی کرنےوالےتھے۔ اس حقیقت کی بناپردونوں کےدرمیان یہ رشتہ بالکل سچ تھا، لیکن اس علاقےمیں حکمرانی کرنےوالےجابرنےاسےنسبی طورپربہن بھائی کارشتہ سمجھا۔ حضرت ابراہیمکاتقویٰ ایساتھاکہ ان تینوں باتوں کوجوان کےمرادلیےگئےمفہوم کےحوالے سےعین سچ تھیں، محض اللہ کےدشمنوں کےفہم کےحوالےسےکذب قراردیااورقیامت کےروزان کےحوالےسےاللہ کےسامنےپیش ہوکرشفاعت کرنےسےمعذرت فرمائی۔ کاش!اپنی بات کےحوالےسےلفظ کذب کےاستعمال میں ایک عظیم پیغمبرکی طرف سےجس تقویٰ اورتواضع،جس خشیت اورعبودیت کامظاہرہ کیاگیا،اس کی طرف نظرکی جاتی۔ ایساہوتاتوحدیث کےراویوں پرجھوٹ کابہتان باندھنےکی نوبت ہی نہ آتی۔
ان کےبعدحضرت موسیٰکےفضائل ہیں۔ بنی اسرائیل نےآپ کی شان کم کرنےکےلیے آپ کی طرف جوجسمانی عیب منسوب کیاتھا، اللہ نےانہیں اس سےبری ثابت کیا۔ حضرت موسیٰ اس قدرقوی تھےکہ کپڑےلےکربھاگنےوالےپتھرپرجوضربیں لگائیں وہ اس پرثبت ہوگئیں۔ جب ملک الموت انسان کی شکل میں آپ کےپاس آیااورکہاکہ اب آپ کی اللہ کےسامنےحاضری کاوقت آگیاہےتوکلیم اللہ نےاسےدشمن سمجھتےہوئےتھپڑ مارااوراس کی آنکھ پھوڑدی،پھرجب پتہ کہ یہ واقعی اللہ سےملاقات کاوقت تھاتومہلت کی پیش کش کےباوجوداسی وقت حاضری کوترجیح دی۔ رسول اللہﷺنےانبیاءکی شان اوران کی فضیلت کےمطابق ان کےاحترام کی تعلیم دینےکےلیےاس بات پرناراضی کااظہارفرمایاکہ دوسرےانبیاءکےماننےوالوں کےسامنےرسول اللہﷺکو ان سےافضل قراردیاجائے۔ آپﷺنےفرمایاکہ میں تویہ بھی گوارانہیں کرتاکہ کوئی مجھےحضرت یونس بن متّیٰ سےافضل قراردےجن کےبارےمیں قرآن مجیدنےواضح کیاہےکہ وہ اللہ کی طرف سےاجازت کےبغیربستی سےنکل آئےتھےاوراس وجہ سےانہیں مچھلی کےپیٹ میں جاناپڑا،پھراللہ کی رحمت کےطفیل وہاں سےنجات حاصل ہوئی۔ جب آپﷺ کےسامنےحسب ونسب میں عزت مندی کےحوالےسےآپ کےبلندمرتبےکاذکر ہواتوآپﷺ نےحضرت یوسف کوبہ کمال تواضع سب سےزیادہ عزت مندقراردیاجونبی ابن نبی ابن نبی ابن نبی تھے۔ آپﷺنےاس حوالےسےبھی حضرت یوسفکی فضیلت بیان فرمائی کہ بہت لمباعرصہ بےگناہ قیدخانےمیں گزارنےکےباوجودآپ نےبادشاہ کی طرف سےبلاواآتےہی فوراجیل سےباہرآنےکےبجائےاپنے اوپرلگنےوالےالزام پرمبنی مقدمےکافیصلہ مانگا۔
آخرمیں حضرت خضرکےفضائل ہیں۔ حضرت موسیٰ اورخضرکےواقعےسےبڑاسبق یہ ملتاہےکہ کسی جلیل القدراوراولوالعزم پیغمبرکوبھی یہ نہیں سمجھناچاہیےکہ اس کاعلم سب سےبڑھ کرہے۔ فضائل نبی میں یہ حدیث بیان ہوچکی کہ آپ نےعام لوگوں سےیہ کہاکہ دنیاکےمعاملات میں اپنےمیدان کےبارےمیں جن چیزوں کوان میں تم زیادہ جانتےہو،اپنی معلومات پرچلولیکن میں جب اللہ کاحکم پہنچاؤں تواس پرضرورعمل کرو۔ غورکیاجائےتواتواضع اورانکسارکےحوالےسےبھی ،جوعبودیت کالازمی حصہ ہیں، آپﷺ کی فضیلت ارفع واعلیٰ ہے۔
حجین بن مثنیٰ نے کہا: ہمیں عبد العزیز بن عبداللہ بن ابی سلمہ نے عبداللہ بن فضل ہاشمی سے حدیث بیان کی، انھوں نے عبد الرحمٰن اعرج سے، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک بار ایک یہودی اپنا سامان بیچ رہا تھا اس کو اس کے کچھ معاوضے کی پیش کش کی گئی جو اسے بری لگی یا جس پر وہ راضی نہ ہوا۔ شک عبدالعزیز کو ہوا ۔وہ کہنے لگا نہیں، اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں پر فضیلت دی! کہا، تو انصار میں سے ایک شخص نے اس کی بات سن لی تو اس کے چہرے پر تھپڑلگایا، کہا: تم کہتے ہو۔ اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں پر فضیلت دی! جبکہ رسول اللہ ﷺ (تشریف لا چکے اور) ہمارے درمیان موجود ہیں۔ کہا: تو وہ یہودی رسول اللہ ﷺ کے پاس آگیا اور کہنے لگا: ابو القاسم! میری ذمہ داری لی گئی ہے اور ہم سے (سلامتی کا) وعدہ کیا گیا ہے۔ اور کہا: فلا ں شخص نے میرے منہ پر تھپڑ مارا ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے کہا: ’’تم نے اس کے منہ پر تھپڑ کیوں مارا؟ کہا کہ اس نے کہا تھا۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ! اس ذات کی قسم جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں پر فضیلت دی ہے جبکہ آپ ہمارے درمیان موجود ہیں تو رسول اللہ ﷺ کو غصہ آ گیا اور آپ کے چہرہ مبارک سے غصےکا پتہ چلنے لگا، پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کے نبیوں کے مابین (انھیں ایک دوسرے پر) فضیلت نہ دیا کرو اس لیے کہ جب صور پھونکا جائے گا تو سوائے ان کے جنھیں اللہ چاہے گا آسمانوں اور زمین میں جو مخلوق ہے سب کے ہوش و حواس جاتے رہیں گے ،پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا، تو سب سے پہلے جسے اٹھایا جائے گا وہ میں ہوں گا یا (فرمایا) جنھیں سب سے پہلے اٹھایا جائے گا میں ان میں ہوں گا۔ تو (میں دیکھوں گا۔ کہ) حضرت موسیٰ ؑ عرش کو پکڑ ے ہوئے ہوں گے، مجھے معلوم نہیں کہ ان کے لیے یوم طور کی بے ہو شی کو شمار کیا جا ئے گا۔ (اور وہ اس کے عوض اس بے ہوشی سےمستثنیٰ ہوں گے،) یا انھیں مجھ سے پہلے ہی اٹھایا جائے گا، میں (یہ بھی) نہیں کہتا کہ کوئی (نبی) یونس بن متی علیہ السلام سے افضل ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، جبکہ ایک یہودی اپنا سامان پیش کر رہا تھا، اس کی ایسی قیمت لگائی گئی، جسے اس نے ناپسند کیا یا اس پر راضی نہ ہوا، عبد العزیز راوی کو شک ہے، کہنے لگا، نہیں، اس ذات کی قسم، جس نے موسی ٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں سے برگزیدہ کیا یا چن لیا، اس کی یہ بات ایک انصاری آدمی نے سن لی اور اس کے منہ پر تھپڑ مارا اور کہا تو کہتا ہے ، اس ذات کی قسم، جس نے تمام انسانوں سے موسیٰ علیہ السلام کا انتخاب کیا، حالانکہ رسول اللہ ﷺ ہمارے اندر موجود ہیں تو یہودی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا، اے ابو القاسم! مجھے پیمان اور امان حاصل ہے اور بتایا، فلاں نے میرے چہرے پر تھپڑ مارا ہے تو رسول اللہ نے پوچھا تونے ا سکے چہرے پر تھپڑ کیوں مارا؟‘‘ انصاری نے کہا، اے اللہ کے رسول ﷺ! اس نے آپ کے ہمارے درمیان ہوتے ہوئے یہ کہا ہے، اس ذات کی قسم، جس نے موسی علیہ السلام کو تمام انسانوں پر فوقیت دی ، اس پررسول اللہ ﷺ ناراض ہو گئے حتی کہ آپ کے چہرے پر ناراضی نمایاں ہو گئی۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’انبیاء کے درمیان مقابلہ نہ کرو، کیونکہ صور میں پھونکا جائے گاتو آسمان والے اور زمین والے بے ہوش ہو جائیں گے، پھر اس میں دوبارہ پھونکا جائے گا تو میں سب سے پہلے اٹھنے والا ہوں گا یا پہلے اٹھنے والوں میں سے ہوں گا تو موسی علیہ السلام عرش کا پایہ پکڑے ہوں گے، مجھے معلوم نہیں، کیا ان کی طور والی بے ہوشی شمار کر لی گئی یا مجھ سے پہلے اٹھائے گئے، اور میں یہ نہیں کہتا کہا کوئی ایک یونس بن متی علیہ السلام سے افضل ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
انبیاء درجات و مراتب کے اعتبار سے، ایک دوسرے پر فوقیت اور برتری رکھتے ہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں صراحت ہے، ﴿فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ﴾ ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی ہے، لیکن جب ہم اس فضیلت کو بیان کرنے لگیں گے تو ایک قسم کا موازنہ اور مقابلہ کی صورت پیدا ہو گی، اس لیے اس میں کسی رسول کی تحقیر و تنقیص کا پہلو پیدا ہو جانے کا اندیشہ ہے اور اسی پہلو سے روکنا مقصود ہے کہ ایسا اسلوب اختیار نہ کرو، جس سے تحقیر و تنقیص کا پہلو نکلتا ہے اور اس کے ماننے والوں کے جذبات میں اشتعال پیدا ہوتا ہو، جیسا کہ اس حدیث میں یہودی کے قول سے مسلمان کے جذبات کو ٹھیس پہنچی کہ موسیٰ علیہ السلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ترجیح دے رہا ہے، اس لیے اس نے تھپڑ رسید کر دیا اور یہاں اگر تھپڑ مارنے والے ابوبکر ہیں تو ان کو معنوی طور پر آپ کی نصرت و حمایت کرنے پر انصاری کہہ دیا گیا ہے۔پہلے نفخہ کا اثر درندوں اور مردوں دونوں پر ہو گا، زندے فوت ہو جائیں گے اور مردوں پر بے ہوشی اور گھبراہٹ طاری ہو گی، انبیاء کو برزخی زندگی حاصل ہے، جب قیامت کے وقوع کے لیے صور میں پھونکا جائے گا تو اس سے برزخی زندگی بھی ختم ہو جائے گی، اس لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے نفخہ سے سب سے پہلے ہوش میں آئیں گے تو موسیٰ علیہ السلام کو عرش کے پائے کو پکڑتے ہوئے دیکھیں گے اور اس مسئلہ میں متردد ہوں گے، موسیٰ علیہ السلام پہلے ہوش میں آ گئے ہیں یا طور کی بے ہوشی کے سبب ان کو اس صعقہ سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے، اس طرح انہیں جزئی فضیلت حاصل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported: While a Jew was selling goods, he was given something which he did not accept or he did not agree (to accept) that 'Abdul 'Azlz (one of the narrators) is doubtful about it. He (the Jew) said: By Allah, Who chose Moses (ؑ) (peace be upon him) among mankind. A person from the Ansar heard it and gave a blow at his face saying: (You have the audacity) to say: By Him Who chose Moses (ؑ) amongst mankind, whereas Allah's Messenger (ﷺ) is living amongst us. The Jew went to Allah's Messenger (ﷺ) and said: Abu'l-Qasim, I am a Dhimmi and (thus need your protection) by a covenant, and added: Such and such person has given a blow upon my face. Thereupon Allah's Messenger (ﷺ) said: Why did you give a blow on his face? He said: Allah's Messenger, this man said: By Him Who chose Moses (ؑ) (peace be upon him) amongst mankind, whereas you are living amongst us. Allah's Messenger (ﷺ) became angry and signs of anger could be seen on his face, and then said: Don't make distinction amongst the Prophets of Allah. When the horn will be blown and whatever is in the heavens and the earth would swoon but he whom Allah grants exception, then another horn will be blown and I would be the first amongst those who would recover and Moses (ؑ) (peace be upon him) would be catching hold of the Throne and I do not know whether it is a compensation for that when he swooned on the Day of Tur or he would be resurrected before me and I do not say that anyone is more excellent than Yunus son of Matta (peace he upon him).