قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْفَضَائِلِ (بَابُ مِنْ فَضَائِلِ مُوسَى )

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

2373. حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْفَضْلِ الْهَاشِمِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: بَيْنَمَا يَهُودِيٌّ يَعْرِضُ سِلْعَةً لَهُ أُعْطِيَ بِهَا شَيْئًا، كَرِهَهُ أَوْ لَمْ يَرْضَهُ - شَكَّ عَبْدُ الْعَزِيزِ - قَالَ: لَا، وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ عَلَى الْبَشَرِ قَالَ: فَسَمِعَهُ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَلَطَمَ وَجْهَهُ، قَالَ: تَقُولُ: وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ عَلَى الْبَشَرِ وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا؟ قَالَ فَذَهَبَ الْيَهُودِيُّ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا أَبَا الْقَاسِمِ إِنَّ لِي ذِمَّةً وَعَهْدًا، وَقَالَ: فُلَانٌ لَطَمَ وَجْهِي، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لِمَ لَطَمْتَ وَجْهَهُ؟» قَالَ: قَالَ - يَا رَسُولَ اللهِ - وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ عَلَى الْبَشَرِ وَأَنْتَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا، قَالَ: فَغَضِبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى عُرِفَ الْغَضَبُ فِي وَجْهِهِ، ثُمَّ قَالَ: " لَا تُفَضِّلُوا بَيْنَ أَنْبِيَاءِ اللهِ، فَإِنَّهُ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَيَصْعَقُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللهُ، قَالَ: ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ أُخْرَى، فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ بُعِثَ، أَوْ فِي أَوَّلِ مَنْ بُعِثَ، فَإِذَا مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ آخِذٌ بِالْعَرْشِ، فَلَا أَدْرِي أَحُوسِبَ بِصَعْقَتِهِ يَوْمَ الطُّورِ، أَوْ بُعِثَ قَبْلِي، وَلَا أَقُولُ: إِنَّ أَحَدًا أَفْضَلُ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى عَلَيْهِ السَّلَامُ "

مترجم:

2373.

حجین بن مثنیٰ نے کہا: ہمیں عبد العزیز بن عبداللہ بن ابی سلمہ نے عبداللہ بن فضل ہاشمی سے حدیث بیان کی، انھوں نے عبد الرحمٰن اعرج سے، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک بار ایک یہودی اپنا سامان بیچ رہا تھا اس کو اس کے کچھ معاوضے کی پیش کش کی گئی جو اسے بری لگی یا جس پر وہ راضی نہ ہوا۔ شک عبدالعزیز کو ہوا ۔وہ کہنے لگا نہیں، اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں پر فضیلت دی! کہا، تو انصار میں سے ایک شخص نے اس کی بات سن لی تو اس کے چہرے پر تھپڑلگایا، کہا: تم کہتے ہو۔ اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں پر فضیلت دی! جبکہ رسول اللہ ﷺ (تشریف لا چکے اور) ہمارے درمیان موجود ہیں۔ کہا: تو وہ یہودی رسول اللہ ﷺ کے پاس آگیا اور کہنے لگا: ابو القاسم! میری ذمہ داری لی گئی ہے اور ہم سے (سلامتی کا) وعدہ کیا گیا ہے۔ اور کہا: فلا ں شخص نے میرے منہ پر تھپڑ مارا ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے کہا: ’’تم نے اس کے منہ پر تھپڑ کیوں مارا؟ کہا کہ اس نے کہا تھا۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ! اس ذات کی قسم جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں پر فضیلت دی ہے جبکہ آپ ہمارے درمیان موجود ہیں تو رسول اللہ ﷺ کو غصہ آ گیا اور آپ کے چہرہ مبارک سے غصےکا پتہ چلنے لگا، پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کے نبیوں کے مابین (انھیں ایک دوسرے پر) فضیلت نہ دیا کرو اس لیے کہ جب صور پھونکا جائے گا تو سوائے ان کے جنھیں اللہ چاہے گا آسمانوں اور زمین میں جو مخلوق ہے سب کے ہوش و حواس جاتے رہیں گے ،پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا، تو سب سے پہلے جسے اٹھایا جائے گا وہ میں ہوں گا یا (فرمایا) جنھیں سب سے پہلے اٹھایا جائے گا میں ان میں ہوں گا۔ تو (میں دیکھوں گا۔ کہ) حضرت موسیٰ ؑ عرش کو پکڑ ے ہوئے ہوں گے، مجھے معلوم نہیں کہ ان کے لیے یوم طور کی بے ہو شی کو شمار کیا جا ئے گا۔ (اور وہ اس کے عوض اس بے ہوشی سےمستثنیٰ ہوں گے،) یا انھیں مجھ سے پہلے ہی اٹھایا جائے گا، میں (یہ بھی) نہیں کہتا کہ کوئی (نبی) یونس بن متی علیہ السلام سے افضل ہے۔‘‘