Muslim:
The Book of the Merits of the Companions
(Chapter: The Virtues Of Umm Salamah, The Mother Of The Believers (RA))
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2451.
معتمر بن سلیمان نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: میں نے اپنے والد سے سنا، کہا: ہمیں ابو عثمان نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: اگر تمہارے بس میں ہو تو بازار میں داخل ہونے میں سب سے پہلے اور اس سے نکلنے میں سب سے آخری شخص مت بنو، کیونکہ شیطان کا کارزار ہےاور یہیں وہ اپنا جھنڈا نصب کرتا ہے۔ (ابو عثمان نہدی نے) کہا: اور مجھے بتایا گیا کہ جبرئیل علیہ السلام اللہ کے نبی ﷺ کے پاس آئے جبکہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا آپ ﷺ پاس تھیں۔ کہا تو وہ (جبرئیل آ کر) رسول اللہ ﷺ سے باتیں کرنے لگے، پھر اٹھ (کر چلے) گئے تو رسول اللہ ﷺ نے ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے پوچھا: یہ کون تھے؟ یا جس طرح (حضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ نے) کہا، انہوں نے کہا کہ دحیہ کلبی تھے۔ تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا: واللہ میں نے انہیں وہ (دحیہ) ہی سمجھا تھا، یہاں تک کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کا خطبہ سنا، آپ ﷺ ہماری خبر (جبریل علیہ السلام کی ہمارے پاس آمد کی خبر) دے رہے تھے یا جس طرح حضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، کہا: میں (سلیمان تیمی) نے ابو عثمان نہدی سے پوچھا: آپ نے یہ حدیث کس سے سنی؟ انہوں نے کہا: اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہما سے۔
تشریح:
فائدہ:
حضرت جبریل علیہ السلام رسول اللہ ﷺ کے پاس دحیہ کلبی کی شکل میں آیا کرتے تھے۔ یہ راز داری کا ایک طریقہ تھا کہ لوگ انہیں دحیہ کلبی سمجھتے اور کسی تجسس میں مبتلا نہ ہوتے۔ نہ کوئی یہودی وغیرہ سامری جیسی کوشش کرتا کیونکہ اس شکل میں حضرت جبریل علیہ السلام کی آمد سے صحابہ کرام میں سے چند لوگ ہی آگاہ تھے۔ اس شکل میں ان کا حضرت سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر میں رسول اللہ رضی اللہ تعالی عنہ کا پاس آنا ام المومنین کی اور ان کے حجرہ مبارک کی پاکیزگی اورطہارت کی بھی دلیل ہے اور اس بات کی بھی کہہ دیگر امہات المومنین کی طرح رسول اللہ ﷺ کے رازوں کی حفاظت اور امانت داری کے حوالے سے بہت بلند مقام پر فائز تھیں۔ اللہ تعالی نےانہیں یہ شرف بخشا کہ وہ اس خاص صورت میں رسول اللہ کے پاس وحی کی آمد اور وحی لانے والے حضرت جبریل علیہ السلام کا اپنے گھر کے ایک منظر کی طرح مشاہدہ کریں۔ آپ کا آنے والے کے بارے میں پوچھنا اس لیے تھا کہ وہ بعد میں خطبہ سن کر اپنے مشاہدے کی حقیقت سے ؔآگاہ ہوجائیں اوراس بات سے بھی آگاہ ہو جائیں کہ ان کے گھر میں رسول اللہ کے ساتھ ساتھ رسول امین حضرت جبریل علسہ السلام کے قدموں کے نشان بھی ثبت ہوتے ہیں۔
انبیائےکرامکےبعدرسول اللہﷺکےصحابہ کرامؓ کےفضائل بیان ہوئے۔ ان میں خلفائےراشدین ،پھرنمایاں مہاجرین ،اجل صحابیات اورانصارمیں سےنمایاں اصحاب کےفضائل شامل ہیں۔ رسول اللہﷺکےصحابہ انبیاءکےبعدان لوگوں کامجموعہ ہیں جن پراللہ نےانعام کیا:(الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ)’’یہ ان لوگوں کےساتھ ہوں گےجن پراللہ نےانعام کیا،نبیوں،صدیقوں،شہیدوں اورصالحین میں سےاوریہ لوگ اچھےساتھی ہیں۔‘‘(النساء4/69)ان حضرات کےفضائل میں اللہ اوررسول اللہﷺکےساتھ حقیقی ایمان اورحقیقی محبت ،دانائی،امت کی خدمت،سخاوت،شجاعت،جان نثاری غرض ان تمام خوبیوں کی دلآویزمثالیں سامنےآجاتی ہیں جواہل ایمان کواللہ اوراس کےرسول اللہﷺکےسامنےسرخروکرنےاوردنیاکی نظروں میں انتہائی عزت منداورقابل محبت بنانےکی ضامن ہیں۔ حضرت ابوبکرصدیق اکبرہیں۔ رسول اللہﷺکےساتھ ان کاتعلق اللہ اوراس کےرسول کےساتھ کامل ایمان اورانتہادرجےکی محبت پرمبنی ہے،اس لیے رسول اللہﷺنےاپنےاوران کےحوالےسےیہ ارشادفرمایا:(اثنين الله ثالثهما)’’ایسےدوجن کےدرمیان تیسرااللہ تعالیٰ ہے۔‘‘(حدیث :6169)آپﷺنےیہ عظیم الشان سرٹیفیکیٹ بھی حضرت ابوبکرصدیقکوعطافرمایا(إِنَّ أَمَنَّ النَّاسِ عَلَيَّ فِي مَالِهِ وَصُحْبَتِهِ أَبُوبَكْر)ٍ’’مال کےتعاون اورمیرا ساتھ دینےکومعاملےمیں مجھ پرسب سےزیادہ احسان کرنےوالےابوبکرہیں۔‘‘(حدیث :6170)وہ صحیح معنی میں مزاج شناس نبوت تھے۔ اللہ کےبعدان کی محبت ،اطاعت اورجاں نثاری کامحوررسول اللہﷺتھے، اس لیے اگربنی نوع انسان میں کوئی رسول اللہﷺکاخلیل ہوسکتاتووہ ابوبکرہی ہوتے۔ ۔ آپﷺنے حضرت عمروبن عاصکےسوال پران کویہ بتایاکہ آپ کوانسانوں میں سےسب سےزیادہ محبت حضرت عائشہ اورحضرت ابوبکرصدیقؓ سےتھی۔ رسول اللہﷺحضرت ابوبکرہی کواپناجانشیں سمجھتےتھےاوراس حوالےسےتحریربھی لکھواناچاہتےتھےلیکن اللہ کافیصلہ یہی تھاکہ آپ یہ تحریرنہ لکھ سکیں اورمسلمان اپنی شوریٰ کےذریعےسےیہی فیصلہ کریں۔ رسول اللہﷺنےان باتوں پربھی اپنےعلاوہ ابوبکراورعمرؓکےایمان کی شہادت دی جن پرعام لوگ فوری پریقین کرنےکےحوالےسےتامل کاشکارہوسکتےتھے۔
حضرت عمرصحبت اوررفاقت میں حضرت ابوبکرصدیقکےفورابعدآتےتھے۔ دین علم ،فتوحات اورامت کی خدمت کےحوالےسےوہ بلندترین مقام پرفائزتھے۔ ان کادل اوران کی زبان پرحق جاری رہتاتھااوربعض اوقات اللہ کےاحکام ،نزول سےپہلےحضرت عمرکےمحسوسات اورآپ کی ترجیحات بن جاتے۔ وہ حق کےمعاملےمیں سخت گیرتھے،اس لیے شیطان اوراس کےچیلے(منافقین وغیرہ)ان سےکئی کتراتےتھے۔ حضرت عثمانحیااورانفاق فی سبیل اللہ میں اپنی مثال آپ تھے۔ رسول اللہﷺنےجنت کی بشارت کےساتھ انہیں ابتلاءوآزمائش سےبھی آگاہ فرمادیاتھا۔ حضرت علیکورسول اللہﷺسے قرابت داری اوراخوت کاعظیم شرف بھی حاصل تھا، وہ اللہ اوراس کےرسول اللہﷺسےمحبت کرتےتھےاوراللہ اوراس کےرسول اللہﷺان کےساتھ محبت کرتےتھے۔ وہ شجاعت کاپیکرتھے۔ آپﷺنےآیت تطہیرکےنزول کےموقع پرانہیں بطورخاص اپنے اہل بیت کاحصہ قراردیااورپوری امت کواپنےتمام اہل بیت کےساتھ احترام محبت اورعزت کاسلوک کرنےاورہدایت اوردین میں ان سےاستفادےکی تلقین فرمائی۔
حضرت سعدبن ابی وقاصرسول اللہﷺکےننھیال میں سےتھے۔ السابقون الاولون میں شامل تھے۔ سولہ سال کی عمرمیں ایمان سےسرفرازہوئے،ان کی والدہ نےان کوکفرمیں واپس لانےکےلیےبھوک ہڑتال کردی۔ انہوں نےایمان کوماں کی زندگی پرترجیح دی،انہوں نےپوری زندگی رسول اللہﷺکی حفاظت کواپنانصب العین بنائےرکھا۔ احدکےدن آپ کےدفاع میں سینہ سپرہوئےتورسول اللہﷺنےان کےلیے وہ جملہ بولاجوان کےلیے سرمایہ افتخاربن گیا(ارم فداك ابى وامى)’’(سعد!)تیرچلا،میرےماں باپ تم پرقربان ہوں!‘‘
حضرت سعدکےساتھ،احدکےدن رسول اللہﷺکی حفاظت میں سینہ سپرہوجانےوالوں میں حضرت طلحہ،حضرت زبیربن عوام اورحضرت ابوعبیدہ بن جراحبھی تھے۔ یہ سب آپ کےچوٹی کےجاں نثاروں میں سےتھے۔ حضرت طلحہ کورسول اللہﷺنےمختلف مواقع پرعظیم خطابات سےنوازا،طلحة الخير،طلحة الفياض اورطلحة الجواد۔احدکےدن رسول اللہﷺکےدفاع میں انہوں نے24زخم کھائے۔ آپﷺ نےان کےبارےمیں فرمایا(مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى شَهِيدٍ يَمْشِي عَلَى وَجْهِ الأَرْضِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ)’’جسےیہ پسندہوکہ وہ روئےزمین پرچلتےپھرتےشہیدکودیکھ لےتووہ طلحہ بن عبیداللہ کودیکھ لے۔‘‘(جامع الترمذی ،حدیث:3739)اوریہ بھی فرمایا(طَلْحَةُ مِمَّنْ قَضَى نَحْبَهُ)’’طلحہ ان میں سےہےجنہوں نےاپناوعدہ پوراکردیا۔‘‘(جامع الترمذی،حدیث:3202)
حضرت زبیرآپ کوپھوپھی حضرت صفیہؓ کےفرزندتھے۔ آپ کورسول اللہﷺنےاپناحواری قراردیا۔ حضرت ابوعبیدہ نےاحدکےدن آپﷺکےسرپوش کےحلقےاپنےاگلےدانتوں سےنکالنےتوان کےدونوں دانت ٹوٹ گئے،ان دودانتوں کےبغیروہ حسین ترین لوگوں میں شمارہوتےتھے۔ انہوں نےاس امانت کی صحیح طورپرحفاظت کی تھی جس کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھائی تھی، اس لیے(وَأَمِينُ هَذِهِ الأُمَّةِ)’’اس امت کےامین‘‘کےلقب سےسرفرازہوئے،بلکہ(أَمِينُ حَقَّ أَمِينٍ)قراردیےگئے۔ رسول اللہﷺنے ان حضرات کی زندگی ہی میں ان کےجنتی ہونےکی گواہی دےدی۔
ان کےبعدحضرت حسن اورحضرت حسینؓ کےفضائل ہیں۔ یہ دونوں کےمحبوب نواسےتھے۔ آپ نےدعا فرمائی تھی کہ جوبھی ان سےمحبت کرےاللہ اس سےمحبت کرے۔ محبت میں رسول اللہﷺسےموافقت کرناخودآپﷺکےساتھ محبت کی دلیل اورآپ کےساتھ محبت ایمان کالازمی جزہے۔ آپﷺنےحضرت فاطمہؓ کےساتھ ان دونوں صاحبزادوں اورحضرت علیکوبھی بطورخاص اہل بیت میں شامل فرماکرانہیں بھی آیت تطہیرکامصداق قراردیا۔ ان کےبعدحضرت زیدبن حارثہ اوران کےبیٹےاسامہ بن زیدؓ کاذکرہے۔ حضرت زیدکو(حب رسول اللهﷺ)’’رسول اللہﷺکامحبوب‘‘کہاجاتاتھا۔ آپﷺنےفرمایا’’زیدکےبعداسامہ زیدؓ بھی مجھےمحبوب ہے۔‘‘آپﷺاپنےخاندان کےلوگوں سےحددرجہ محبت وشفقت سےپیش آتےتھے۔ یہ بات ان سب کےلیے عظیم فضیلت کاباعث ہے۔
ان حضرات کےبعدامہات المومنین میں سےحضرت خدیجہ اورحضرت عائشہ ؓکےفضائل بیان کیےگئےہیں۔ حضرت خدیجہؓ نےجس طرح آپ کےساتھ غمخواری کی ،اپناگھربار،مال دولت آپ کےقدموں میں ڈھیرکردی، جس طرح سب سےپہلےآپ پرایمان لائیں، مشکل ترین دورمیں نبوت کےمشن میں بھرپورطورپرآپ کےساتھ دیااورجس طرح سےثابت قدمی کامظاہرہ کیا،وہ ایک بیوی ہونےکی حیثیت سےپوری انسانیت کےلیے مثال تھیں، ان سب باتوں کی وجہ سےآپﷺ نےانہیں پوری انسانیت کی چارکامل ترنی خواتین میں سےایک قراردیا۔ ان کےبعدآپ ﷺکوباقی ازواج میں سےحضرت عائشہؓ سےمحبت تھی اوریہ وہی ہیں جنہوں نےامہات المومنین میں سےسب سےزیادہ دین کےاحکام امت تک پہنچائے۔ (سيدة نساءاهل الجنة)’’خواتین جنت کی سردار‘‘حضرت فاطمہ ؓ کےفضائل بیان کیےگئےہیں۔ ان کےفضائل میں نمایاں ترین بات یہ ہےکہ انہیں رسول اللہﷺسےبےپناہ محبت تھی اورآپﷺکوان سےاوران کےبچوں سےبےپناہ محبت تھی۔ وہ مثالی بیٹی،مثالی بیوی اورمثالی ماں تھیں، اس لیے(سيدة نساءاهل الجنة)کےمنصب کی سزاوارتھیں۔ پھرامہات المومنین میں سےحضرت ام سلمہ اورزینب ؓاوردونمایاں خواتین ام ایمن اوررام سلیمؓ کےفضائل بیان ہوئےہیں۔ یہ خواتین رسول اللہﷺکےساتھ تعلق، جودوسخااورخدمت وایثارکےحوالے سےانتہائی نمایاں تھیں۔ ان کےبعدبعض دیگرصحابہ کےفضائل ہیں۔ یہ سب ایمان عمل صالح ،استقامت ،رسول اللہﷺکےساتھ محبت، ایثار،علم، شجاعت اورجاں نثاری میں نمایاں تھے۔ ان صحابہ کےجوفضائل صحیح مسلم میں مذکورہیں ان پرنظرڈالیں توبلال ایمان واطاعت کی بناپررسول اللہﷺکےگھرانےکاحصہ سمجھےجاتےتھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودقرآن اورسنت رسول اللہﷺکےبہت بڑےعالم تھے۔ اسی طرح حضرت ابی بن کعب،معاذبن جبل اورزیدبن ثابتحاملین قرآن تھے۔ سعدبن معاذاپنےقبیلے کےسرداراوررسول اللہﷺکےایسےجاں نثارتھےکہ ان کی موت پرعرش الہی بھی ہل گیا۔ ابودجانہ شجاعت کےپیکرتھے۔ حضرت جابرکےوالدحضرت عبداللہ بن عمروبن حرامایسےجری شہیدتھےکہ ان کاجنازہ اٹھنےتک ان پراللہ کےملائکہ اپنےپروں سےسایہ فگن رہے۔ جلیبیب تنہاسات کافروں کوقتل کرکےشہیدہوئے،ان کالاشہ محمدرسول اللہﷺنےکسی اورکوشریک کیےبغیرخوداپنی بانہوں پراٹھایااورسپرد خاک کیا۔ حضرت ابوذرغفاریکاتعلق ایک رہزن قبیلےسےتھامگراس حق کی محبت نےجورسول اللہﷺسےلےکرآئےتھے،انہیں ایمان کامتلاشی ہی نہیں بنایابلکہ ان کےایمان کےذریعےسےان کےقبیلے کوبھی سربلندکردیا۔
جریربن عبداللہکامزاج اوراندازگفتگوایساتھاکہ رسول اللہﷺان کودیکھ کرہمیشہ تبسم فرماتے۔ وہ جب چاہتےبلاروک ٹوک بارگاہ نبوت میں حاضرہوجاتے،آپ کی دعانےانہیں شہسوار،سالاراوربت شکن بنادیا۔ رسول اللہﷺکےچچازادعبداللہ بن عباسؓ کی سعادت مندی اورخدمت کی بناپرانہیں ایسی دعاملی کہ وہ اس امت کےعظیم عالم بن گئے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓکورسول اللہﷺکےایک چھوٹےسےفقرےنےعابد شب زندہ داربنادیا۔حضرت انسرسول اللہﷺکےمعصوم خدمت گزارآپ کےراز کی حفاظت کےادب سےآگاہ تھے۔ رسول اللہﷺسےایسی دعائیں ملیں کہ دنیابھی سنورگئی اورآخرت بھی۔ عبداللہ بن سلاماسلام سےپہلےتورات کےعالم اوراسلام لانےکےبعدقرآن وسنت کےعالم بن گئے۔ استقامت ایسی کہ رسول اللہﷺنےزندگی کےآخری لخطےتک ایمان پرقائم رہنےکی نویدعطافرمائی اورلوگوں نےکہا،پھرتویہ چلتےپھرتےجنتی ہیں۔ اپنی تلواروں کےذریعےسےرسول اللہﷺکادفاع کرنےوالےانصارمیں سےایک نمایاں فردجن کی زبان رسول اللہﷺکےدفاع میں شمشیربراں تھی۔ جس طرح تلوارسےدفاع کرنےوالوں کوملائکہ کی تائیدحاصل ہوتی تھی، اسی طرح زبان سےدفاع کرنےوالےحسان کوجبریل امینکی تائیدحاصل تھی۔ حضرت ابوہریرہ دوسیرسو ل اللہﷺکی عمرمبارک کےآخری سالوں میں آکرمسلمان ہوئے،لیکن فرامین رسول اللہﷺکےسب سےبڑےامانت داراورمبلغ بن گئے۔ بدرمیں شریک ہونےوالےحاطب بن ابی بلتعہ اس بات کومثال بنےکہ رسول اللہﷺاپنےسادہ دل ساتھیوں کی غلطیاں کس طرح معاف فرماتےاورکیسےبلندمقامات پرپہنچادیتےتھے۔ انہوں نےقریش کےنام خط لکھاتھا، غلطی معاف ہوجانےکےبعدرسول اللہﷺنےانہیں شاہ روم ہرقل کےنام اپنےمکتوب گرامی کانامہ برداربنادیا۔ اصحاب بدرکی طرح اصحاب شجرہ’’بیعت رضوان کرنےوالے‘‘بھی اللہ کےخاص بندےقرارپائےاوراللہ کےرسول اللہﷺکی امیدکےمطابق سب کےسب آگ سےآزادقراردیےگئے۔ ابوموسیٰ اوراوربلالوہ خوش قسمت صحابی ہیں جنہیں صحابی ہیں جنہیں رسول اللہﷺنےبن مانگےبشارت عطافرمائی۔ ابوموسیٰ رسول اللہﷺکےجاں نثاراورآپ کی دعاؤں کےحقداربنے۔ یہ اوران کاساراقبیلہ قرآن کی قراءت اس طرح کرتےتھےکہ خودرسول اللہﷺرک کران کی قراءت سناکرتےتھے۔ حضرت ابوسفیان بن حرب بن امیہ دشمنی چھوڑکراپنےبنےتوان کےمطالبےپران کےبیٹےحضرت معاویہکوکاتب وحی بنادیا۔ حضرت جعفرطیاراوران کی اہلیہ اسماءبنت عمیسؓ پہلےحبشہ اورپھرمدینہ کیطرف ہجرت کرنےوالےاللہ اوراس کےرسول اللہﷺ کی طرف ہجرت کی بہترین مثال قرارپائے۔ سلمان ،بلال اورصہیب حق کےمتلاشی اوراحق کےجاں نثاراس مقام پرفائز ہوگئےکہ ان کوناراض کرنےوالااللہ کوناراض کرنےکےخطرےسےدوچارہوسکتا ہے۔ انصارکےجس طرح نصرت کی ،انہوں نےرسول اللہﷺکومکمل طورپراپنابنالیا،آپﷺ نےدنیوی زندگی میں ان کی نسلوں تک کودعاؤں سےنوازااورآخرت میں حوض کوثرپران کاانتظارکرنےکی نویدعطافرمائی۔ وہ سب بھی انتہائی فضیلت کےحقدارقرارپائےجن کےپورےقبائل اسلام میں داخل ہوگئے۔ ہروہ انسان جواسلام سےپہلےخیراوربھلائی کاحامل تھا، اسلام لانےکےبعداورزیادہ اونچاہوگیا۔ قریش اسلام سےپہلےبھی اخیارتھےاسلام کےبعدان کی خواتین تک کوبھی خیرکی بلندیوں پرفائزقراردیاگیا۔ مواخات ،تاریخ انسانی کےبےمثال واقعہ بھی اصحاب رسول اللہﷺکی فضیلت کاثبوت ہے۔ یہ صحابہ امت کےلیے امان ہیں۔ یہ خوداورآگےان سےفیض یاب ہونےوالےجب تک امانت داراورسچائی پرقائم رہے،درجہ بدرجہ امت کےلیےکامرانیوں کی ضمانت بنے،اس لیے رسول اللہﷺنےصحابہ کوبراکہنےسےروکااورواضح فرمایاکہ وہ ساری امت میں سب سےافضل ہیں۔ پھراس عظیم تابعی کےفضائل بیان ہوئےجس نےرسول اللہﷺکے احکام پرعمل کوباقی ہرفضیلت سےمقدم قراردیا۔ آپ نےاہل یمن اوراہل عمان کی تحسین فرمائی اوراہل مصرکےساتھ حسن سلوک کی تلقین کی۔ دوسری طرف قبیلہ ثقیف کےایک کذاب اورایک تباہ کارکی خبردےکرواضح فرمایاکہ اسلام کی برکات سےوہی مستفیدہوگاجودل سےایمان لائےگااوراس کےمطابق عمل کرےگا۔ آپﷺنےبتایا کہ آئندہ زمانوں میں اسلام کانام لینےوالوں میں بھی ایسےلوگ بہت کم ہوں گے،سومیں سےایک۔
معتمر بن سلیمان نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: میں نے اپنے والد سے سنا، کہا: ہمیں ابو عثمان نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: اگر تمہارے بس میں ہو تو بازار میں داخل ہونے میں سب سے پہلے اور اس سے نکلنے میں سب سے آخری شخص مت بنو، کیونکہ شیطان کا کارزار ہےاور یہیں وہ اپنا جھنڈا نصب کرتا ہے۔ (ابو عثمان نہدی نے) کہا: اور مجھے بتایا گیا کہ جبرئیل علیہ السلام اللہ کے نبی ﷺ کے پاس آئے جبکہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا آپ ﷺ پاس تھیں۔ کہا تو وہ (جبرئیل آ کر) رسول اللہ ﷺ سے باتیں کرنے لگے، پھر اٹھ (کر چلے) گئے تو رسول اللہ ﷺ نے ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے پوچھا: یہ کون تھے؟ یا جس طرح (حضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ نے) کہا، انہوں نے کہا کہ دحیہ کلبی تھے۔ تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا: واللہ میں نے انہیں وہ (دحیہ) ہی سمجھا تھا، یہاں تک کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کا خطبہ سنا، آپ ﷺ ہماری خبر (جبریل علیہ السلام کی ہمارے پاس آمد کی خبر) دے رہے تھے یا جس طرح حضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، کہا: میں (سلیمان تیمی) نے ابو عثمان نہدی سے پوچھا: آپ نے یہ حدیث کس سے سنی؟ انہوں نے کہا: اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہما سے۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
حضرت جبریل علیہ السلام رسول اللہ ﷺ کے پاس دحیہ کلبی کی شکل میں آیا کرتے تھے۔ یہ راز داری کا ایک طریقہ تھا کہ لوگ انہیں دحیہ کلبی سمجھتے اور کسی تجسس میں مبتلا نہ ہوتے۔ نہ کوئی یہودی وغیرہ سامری جیسی کوشش کرتا کیونکہ اس شکل میں حضرت جبریل علیہ السلام کی آمد سے صحابہ کرام میں سے چند لوگ ہی آگاہ تھے۔ اس شکل میں ان کا حضرت سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر میں رسول اللہ رضی اللہ تعالی عنہ کا پاس آنا ام المومنین کی اور ان کے حجرہ مبارک کی پاکیزگی اورطہارت کی بھی دلیل ہے اور اس بات کی بھی کہہ دیگر امہات المومنین کی طرح رسول اللہ ﷺ کے رازوں کی حفاظت اور امانت داری کے حوالے سے بہت بلند مقام پر فائز تھیں۔ اللہ تعالی نےانہیں یہ شرف بخشا کہ وہ اس خاص صورت میں رسول اللہ کے پاس وحی کی آمد اور وحی لانے والے حضرت جبریل علیہ السلام کا اپنے گھر کے ایک منظر کی طرح مشاہدہ کریں۔ آپ کا آنے والے کے بارے میں پوچھنا اس لیے تھا کہ وہ بعد میں خطبہ سن کر اپنے مشاہدے کی حقیقت سے ؔآگاہ ہوجائیں اوراس بات سے بھی آگاہ ہو جائیں کہ ان کے گھر میں رسول اللہ کے ساتھ ساتھ رسول امین حضرت جبریل علسہ السلام کے قدموں کے نشان بھی ثبت ہوتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے شاگرد سےکہا، اگر ہو سکے تو سب سے پہلے بازار میں داخل نہ ہونا اورنہ سب سے آخر میں نکلنا، کیونکہ وہ شیطان کی رزم گاہ ہے اور وہیں وہ اپنا جھنڈا گاڑتا ہے۔ انہوں نے کہا، مجھے بتایا گیا ہے، جبریل علیہ السلام اللہ کشے نبی کے پاس آئے، جبکہ آپ کے پاس حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا موجود تھیں تو آپ سے باتیں کرنے لگے پھر چلے گئے تو نبی اللہ ﷺ نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے پوچھا، ’’یہ کون تھے‘‘ یا جو بھی آپ ﷺ نے کہا، ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا ہے کہا یہ دحیہ کلبی تھے، ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، اللہ کی قسم! میں نے اسے وہی سمجھا تھا، حتی کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا واقعہ سنا رہے تھے، یا آپ نے جو کچھ کہا، ابو عثمان کے شاگرد کہتے ہیں میں نے ابو عثمان سے پوچھا: آپ نے یہ روایت کس سے سنی؟ اس نے کہا، اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہما سے۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) لاتكونن اول من يدخل: بازار میں سب سے پہلے جانا، یا سب سے آخر میں نکلنا، اس بات کی علامت ہے کہ اس انسان کو بازار جانے کا شوق و ذوق ہے اور بازار سے محبت ہے، حالانکہ بازار محبت گاہ نہیں ہے، ایک ضرورت کی جگہ ہے، جہاں بقدر ضرورت رہنا چاہیے، (2) معركة الشيطان: شیطان کی رزم گاہ ہے، یہاں شیطان اور اس کے چیلے چانٹوں اور بازار میں موجود دوکانداروں اور گاہکوں کے درمیان معرکہ برپا ہوتا ہے، وہ اپنے حواریوں کے ساتھ مل کر لوگوں سے خلاف دین و شریعت کام کروانے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے پیچھے لگ کر لوگ خلاف شریعت امور کے مرتکب ہوتے ہیں، اس لیے بها ينصب رأيه، وہ بازار میں جھنڈے گاڑتا ہے اور اپنے اعوان و انصار کو بازار میں جھونکتا ہے، تاکہ وہ لوگوں کو غلط کاموں پر اکسائیں اور ان کی معیشت و معاشرت میں نقب لگائیں، (3) يخبر خبرنا: آپ نے گھر میں پیش آمدہ واقعہ کا خطبہ میں تذکرہ فرمایا اور جبریل کے آنے کی خبر دی، چونکہ حضرت جبریل علیہ السلام عموماً حضرت دحیہ کلبی کی صورت میں آتے تھے، جو کہ انتہائی حسین و جمیل تھے، اس لیے ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے انہیں دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ ہی خیال کیا، اس لیے يخبر خبرنا کہنا یا يخبر خبر جبريل کہنا، دونوں طرح صحیح ہے اس لئے اس کو مسلم شریف کی حدیث میں تصحیف و تبدیلی قرار دینا، درست نہیں ہے۔ جیسا کہ علامہ تقی حفظہ اللہ قاضی عیاض سے تصحیف کا قول نقل کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Salman reported: In case it lies in your power don't be one to enter the bazar first and the last to get out of that because there is a bustle and the standard of Satan is set there. He said: I was informed that Gabriel (ؑ) (RA) came to Allah's Apostle (ﷺ) and there was with him Umm Salamah and he began to talk with him. He then stood up, whereupon Allah's Apostle (ﷺ) said to Umm Salamahh (RA) : (Do you know) who was he and what did he say? She said: He was Dihya (Kalbi). He reported Umm Salamah having said: By Allah, I did not deem him but only he (Dihya) until I heard the address of Allah's Apostle (ﷺ) informing him about us. He (the narrator) said: I said to 'Uthman: From whom did you hear it? He said: From Usama bin Zaid.