Muslim:
The Book of Purification
(Chapter: The ruling on semen)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
290.
عبد اللہ بن شہاب خولانی سےر وایت ہے، کہا: میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مہمان تھا، مجھے اپنے دونوں کپڑوں میں احتلام ہو گیا تو میں نے وہ دونوں پانی میں ڈبو دیے، مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک کنیز نے دیکھ لیا اور انہیں بتا دیا تو انہوں نے میری طرف پیغام بھجوایا اور فرمایا: تو نے اپنے دونوں کپڑوں کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ میں نے کہا: میں نے نیند میں وہ دیکھا جو سونے والا اپنی نیند میں دیکھتا ہے۔ انہوں نے پوچھا: کیا تمہیں ان دونوں (کپڑوں) میں کچھ نظر آیا؟ میں نے کہا: نہیں۔ انہوں نے فرمایا: اگر تم کچھ دیکھتے تو اسے دھو ڈالتے۔ میں نے خود کو دیکھا کہ میں رسول اللہﷺ کے کپڑے سے اس کو خشک حالت میں اپنے ناخن سے کھرچ رہی ہوں۔
اسلام میں طہارت اور پاکیزگی کی اہمیت وفضیلت
طہارت کا مطلب ہے صفائی اور پاکیز گی۔ یہ نجاست کی ضد ہے۔ رسول اللہﷺ کو بعثت کے بعد آغاز کار میں جو احکام ملے اور جن کا مقصود اگلے مشن کے لیے تیاری کرنا اور اس کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کرنا تھا، وہ ان آیات میں ہیں: يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ (1) قُمْ فَأَنْذِرْ (2) وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ (3) وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (4) وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ (5) وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ (6) وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ (7) ”اے موٹا کپڑا لپیٹنے والے! اٹھیے اور ڈرایئے، اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے، اپنے کپڑے پاک رکھیے، پلیدی (بتوں) سے دور رہے، (اس لیے ) احسان نہ کیجیے کہ زیادہ حاصل کریں اور اپنے رب کی رضا کے لیے صبر کیجیے‘‘ (المدثر 71
اسلام کے ان بنیادی احکام میں کپڑوں کو پاک رکھنے اور ہر طرح کی جسمانی، اخلاقی اور روحانی ناپاکی سے دور رہنے کا حکم ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اللہ سے تعلق، ہدایت اور روحانی ارتقا کا سفر طہارت اور پاکیزگی سے شروع ہوتا ہے جبکہ گندگی تعفن اورغلاظت شیطانی صفات ہیں اور ان سے گمراہی ، ضلالت اور روحانی تنزل کا سفر شروع ہوتا ہے۔
وُضُوْ، وَضَائَة سے ہے جس کے معنی نکھار اور حسن و نظافت کے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالی کے سامنے حاضری کی تیاری یہی ہے کہ انسان نجس نہ ہو، طہارت کی حالت میں ہو اور مسنون طریقہ وضو سے اپنی حالت کو درست کرے اور خود کو سنوارے۔ وضوسے جس طرح ظاہری اعضاء صاف اور خوبصورت ہوتے ہیں، اسی طرح روحانی طور پر بھی انسان صاف ستھرا ہو کر نکھر جاتا ہے۔ ہر عضو کو دھونے سے جس طرح ظاہری کثافت اور میل دور ہوتا ہے بالکل اسی طرح وہ تمام گناہ بھی دھل جاتے ہیں جوان اعضاء کے ذریعے سے سرزد ہوئے ہوں ۔
مومن زندگی بھر اپنے رب کے سامنے حاضری کے لیے وضو کے ذریعے سے جس وَضَائَةَ کا اہتمام کرتا ہے قیامت کے روز وہ مکمل صورت میں سامنے آئے گی اور مومن غَرُّ مُعُجَّلُونَ (چمکتے ہوئے روشن چہروں اور چمکتے ہوئے ہاتھ پاؤں والے) ہوں گے۔
نظافت اور جمال کی یہ صفت تمام امتوں میں مسلمانوں کو ممتاز کرے گی۔ ایک بات یہ بھی قابل توجہ ہے کہ ماہرین صحت جسمانی صفائی کے حوالے سے وضو کے طریقے پرتعجب آمیر تحسین کا اظہار کرتے ہیں ۔ اسلام کی طرح اس کی عبادات بھی بیک وقت دنیا و آخرت اور جسم و روح کی بہتری کی ضامن ہیں۔ الله تعالی کے سامنے حاضری اور مناجات کی تیاری کی یہ صورت ظاہری اور معنوی طور پر انتہائی خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ہر ایک کے لیے آسان بھی ہے۔ جب وضو ممکن نہ ہو تو اس کا قائم مقام تیمم ہے، یعنی ایسی کوئی بھی صورت حال پیش نہیں آتی جس میں انسان اس حاضری کے لیے تیاری نہ کر سکے۔
عبد اللہ بن شہاب خولانی سےر وایت ہے، کہا: میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مہمان تھا، مجھے اپنے دونوں کپڑوں میں احتلام ہو گیا تو میں نے وہ دونوں پانی میں ڈبو دیے، مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک کنیز نے دیکھ لیا اور انہیں بتا دیا تو انہوں نے میری طرف پیغام بھجوایا اور فرمایا: تو نے اپنے دونوں کپڑوں کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ میں نے کہا: میں نے نیند میں وہ دیکھا جو سونے والا اپنی نیند میں دیکھتا ہے۔ انہوں نے پوچھا: کیا تمہیں ان دونوں (کپڑوں) میں کچھ نظر آیا؟ میں نے کہا: نہیں۔ انہوں نے فرمایا: اگر تم کچھ دیکھتے تو اسے دھو ڈالتے۔ میں نے خود کو دیکھا کہ میں رسول اللہﷺ کے کپڑے سے اس کو خشک حالت میں اپنے ناخن سے کھرچ رہی ہوں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن شہاب خولانی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مہمان تھا، مجھے اپنے کپڑوں میں احتلام آ گیا، تو میں نے اپنے دونوں کپڑے پانی میں ڈبو دیئے، مجھے سیّدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک کنیز (لونڈی) نے دیکھ لیا، اور انہیں بتا دیا، تو عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے میری طرف پیغام بھیجا، اور فرمایا: تجھے اپنے کپڑوں کے ساتھ یہ معاملہ کرنے پر کس بات نے ابھارا؟ میں نے جواب دیا، میں نے نیند میں وہ چیز دیکھی جو سونے والا اپنی نیند میں دیکھتا ہے، انہوں نے پوچھا، کیا تمہیں ان میں کچھ نظر آیا؟ میں نے کہا، نہیں انہوں نے فرمایا: اگر تم کچھ دیکھتے تو اسے دھو لیتے، میں نے آپﷺ کو اس حال میں پایا کہ میں اسے خشک ہونے کی صورت میں اپنے ناخن سے رسول اللہ ﷺ کے کپڑے سے کھرچ دیتی تھی۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے اگر منی گیلی (تر) ہو تو اسے دھویا جائے گا اور اگر خشک ہو تو محض کھرچ دینا ہی کافی ہے دھونا ضروری نہیں ہے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا یہی نظریہ ہے لیکن امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک منی خشک ہو یا ترہر صورت میں اسے دھویا جائے گا، لیکن منی کی طہارت یا نجاست کے بارے میں ائمہ میں اختلاف ہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے صحیح ترروایت کی رو سے منی پاک ہے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃاللہ علیبہ کے نزدیک پلید ہے۔ (شرح نووی 1/ 140) ظاہر ہے یہ محض ایک علمی اور فکری بحث ہے وگرنہ اس کے تر ہونے کی صورت میں اس کے دھونے میں کوئی اختلاف نہیں، اور انسان طبعی طور پر انسانی فضلات اگرکپڑے کو لگے ہوں تو ان سے کراہت محسوس کرتا ہے وہ ناک کی بینی اور تھوک ہو یا خون اور منی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abdullah bin Shihab al-Khaulani reported: I stayed in the house of 'A'isha and had a wet dream (and perceived its effect on my garment), so (in the morning) I dipped both (the clothes) in water. This (act of mine) was watched by a maid-servant of A'isha and she informed her. She (Hadrat A'isha) sent me a message: What prompted you to act like this with your clothes? He (the narrator) said: I told that I saw in a dream what a sleeper sees. She said: Did you find (any mark of the fluid) on your clothes? I said: No. She said: Had you found anything you should have washed it. Incase I found that (semen) on the garment of the Messenger of Allah (ﷺ) dried up, I scraped it off with my nails.