باب: جب مسلمانوں پر کوئی مصیبت نازل ہو تو تمام نمازوں میں قنوت نازلہ پڑھنا مستحب ہے
)
Muslim:
The Book of Mosques and Places of Prayer
(Chapter: It is recommended to say qunut in all prayers if a calamity befalls the Muslims – and refuge is sought from Allah (regarding that). It is recommended to say qunut in Subh at all times. And the clarification that it is to be said after raising the head from bowing in the final rak`ah, and it is recommended to say it out loud)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
677.
اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا، کہا: رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں کے خلاف جنھوں نے بئر معونہ والوں کو قتل کیا تھا، تیس (دن تک) صبح (کی نمازوں) میں بدعا کی۔ آپﷺ نے رعل، ذکوان، لحیان اور عصیہ کے خلاف، جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی، بد دعا کی۔ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اللہ نے ان لوگوں کے متعلق جو بئر معونہ پر قتل ہوئے، قرآن (کا کچھ حصہ) نازل فرمایا جو بعد میں منسوخ ہونے تک ہم پڑھتے رہے (اس میں شہداء کا پیغام تھا) کہ ہماری قوم کو بتا دیں کہ ہم اپنے رب سے جا ملے ہیں، وہ ہم سے راضی ہو گیا ہے اور ہم اس سے راضی ہیں۔
امام مسلم کتاب الصلاۃ میں اذان اقامت اور بنیادی ارکانِ صلاۃ کے حوالے سے روایات لائے ہیں۔ مساجد اور نماز سے متعلقہ ایسے مسائل جو براہ راست ارکانِ نماز کی ادائیگی کا حصہ نہیں نماز سے متعلق ہیں انھیں امام مسلم نے کتاب المساجد میں ذکر کیا ہے مثلاً:قبلۂ اول اور اس کی تبدیلی نماز کے دوران میں بچوں کو اٹھانا‘ضروری حرکات جن کی اجازت ہے نماز میں سجدے کی جگہ کو صاف یا برابر کرنا ‘ کھانے کی موجودگی میں نماز پڑھنا‘بدبو دار چیزیں کھا کر آنا‘وقار سے چلتے ہوئے نماز کے لیے آنا‘بعض دعائیں جو مستحب ہیں حتی کہ اوقات نماز کو بھی امام مسلم نے کتاب المساجد میں صحیح احادیث کے ذریعے سے واضح کیا ہے۔ یہ ایک مفصل اور جامع حصہ ہے جو انتہائی ضروری عنوانات پر مشتمل ہے اور کتاب الصلاۃ سے زیادہ طویل ہے۔
اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا، کہا: رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں کے خلاف جنھوں نے بئر معونہ والوں کو قتل کیا تھا، تیس (دن تک) صبح (کی نمازوں) میں بدعا کی۔ آپﷺ نے رعل، ذکوان، لحیان اور عصیہ کے خلاف، جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی، بد دعا کی۔ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اللہ نے ان لوگوں کے متعلق جو بئر معونہ پر قتل ہوئے، قرآن (کا کچھ حصہ) نازل فرمایا جو بعد میں منسوخ ہونے تک ہم پڑھتے رہے (اس میں شہداء کا پیغام تھا) کہ ہماری قوم کو بتا دیں کہ ہم اپنے رب سے جا ملے ہیں، وہ ہم سے راضی ہو گیا ہے اور ہم اس سے راضی ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے تیس دن ان لوگوں کے خلاف دعا کی، جنہوں نے بئر معونہ کے لوگوں کو قتل (شہید) کر دیا تھا، آپﷺ رعل، ذکوان، لحیان اور عصیہ کے لوگ جنہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کی، کے خلاف دعا کرتے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بئر معونہ کے واقعہ میں شہید ہونے والے لوگوں کے بارے میں یہ آیت اتاری: ’’ہماری قوم تک یہ پیغام پہنچا دو کہ ہم اپنے رب سے جا ملے، وہ ہم سے خوش ہوا اور ہم اس سے راضی ہیں۔‘‘ ہم نے اس آیت کی تلاوت کی، بعد میں یہ آیت منسوخ ہو گئی۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
صفر 4 ہجری میں ابوبراء عامر بن مالک جو ملاعب الاسنہ کے نام سے معروف تھا اور اپنی قوم کا سردار تھا۔علاقہ نجد سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپﷺ نے اسے اسلام کی دعوت دی مگر اس نے نہ اسے قبول کیا نہ رد، اور آپﷺ کو بڑے مخلصانہ انداز میں یہ مشورہ دیا کہ آپ اپنے کچھ ساتھیوں کو میرے علاقہ میں بھیجیں امید ہے لوگ اسلام قبول کر لیں گے اور آپﷺ کے لوگ میری پناہ میں ہوں گے، آپﷺ نے تعلیم وتبلیغ کے لیے ستر قاری بھیجے تاکہ وہ معلم اور داعی کا فریضہ سرانجام دیں، آپﷺ نے ان کا امیر منذر بن عمرو کو مقرر فرمایا آپﷺ نے ابوبراء کے بھتیجے عامر بن طفیل کےنام خط دیا تھا جب یہ وفد بئر معونہ نامی جگہ پر پہنچا تو وہاں سے حرام بن ملحان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط لے کر عامر بن طفیل کی طرف روانہ ہوئے، اس نے خط دیکھے بغیر ہی اپنے آدمی کو اشارہ کر کے ان کو قتل کروا دیا۔ پھر اپنی قوم بنو عامرکو کہا کہ مدینہ سے آنے والے لوگوں پر حملہ کرو لیکن انہوں نے اپنے سردار ابوبراء کے عہد کو توڑنا گوارا نہیں کیا۔ تب اس نے بنو سلیم کی شاخوں یعنی رعل، ذکوان، لحیان اور عصیہ کو اس کام پر آمادہ کیا ان لوگوں نے مسلمان قاریوں کو شہید کر دیا صرف دو آدمی زندہ بچے، آپ کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو آپﷺ کو بے حد دکھ ہوا اور آپﷺ نے ان قبائل کے خلاف ایک ماہ تک قنوت نازل فرمائی۔ ان شہداء کی خواہش پر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع دی اور ان کا پیغام پہنچا دیا جس کو وقتی طور پر پڑھا گیا پھر وہ منسوخ ہو گیا منسوخ شدہ آیات چونکہ اب قرآن میں نہیں ہیں اس لیے وہ تواتر سے ثابت نہیں ہیں۔
نوٹ۔
اس واقعہ بئیر معونہ سے ثابت ہوتا ہے کہ آپﷺ کو علم غیب نہ تھا وگرنہ آپﷺ ابوبراء کے کہنے پر سترمنتخب افراد کو اس کے علاقہ میں نہ بھیجتے لیکن علامہ سعیدی اس کا انتہائی مضحکہ خیز جواب دیتے ہیں کہ آپﷺ کو ان کی شہادت کا علم تھا آپﷺ نے اہل نجد کے مطالبہ تبلیغ پر انہیں نجد بھیج دیا تاکہ کل قیامت کے دن وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہم نے تو قبول اسلام کے لیے تیرے نبی سے مبلغ مانگتے تھے، اس نے نہیں بھیجے۔ (شرح صحیح مسلم:2/ 332) حالانکہ اوپر یہ لکھا ہے کہ آپﷺ نے ابوبراء کے کہنے پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو بھیجا تھا اور اس نے ان کی حفاظت کی ضمانت دی تھی، اس کی ضمانت پر بھیجا تھا۔ پھر اگر آپﷺ کو معلوم تھا تو آپﷺ نے اس قدر رنج وملال کا اظہار کیوں فرمایا اور ایک ماہ تک ان کے خلاف دعا کیوں فرمائی حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو روک دیا، مزید برآں یہ لوگ اہل نجد تک تو پہنچے ہی نہیں۔ بئرمعونہ تو مکہ اور عسفان کے درمیان ہذیل کا علاقہ ہے۔ عامر بن طفیل نے تو ان کو راستہ میں ہی روک لیا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Anas bin Malik (RA) reported that the Messenger of Allah (ﷺ) invoked curse in the morning (prayer) for thirty days upon those who killed the Companions (of the Holy Prophet) at Bi'r Ma'una. He cursed (the tribes) of Ri'l, Dhakwan, Lihyan, and Usayya, who had disobeyed Allah and His Messenger (ﷺ) . Anas said: Allah the Exalted and Great revealed (a verse) regarding those who were killed at Bi'r Ma'una, and we recited it, till it was abrogated later on (and the verse was like this): convey to it our people the tidings that we have met our Lord, and He was pleased with us and we were pleased with Him".