باب: فوت شدہ نماز کی قضا اور اس میں جلدی کرنا مستحب ہے
)
Muslim:
The Book of Mosques and Places of Prayer
(Chapter: Making up a missed prayer. And it is recommended to hasten to make it up)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
681.
ثابت نے عبداللہ بن رباح سے اور انھوں نے حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےر وایت کیا، کہا: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطاب فرمایا اور کہا: ’’تم اپنی (پوری) شام اور (پوری) رات چلتے رہو گے تو إن شاء اللہ کل تک پانی پر پہنچ جاؤ گے۔‘‘ لوگ چل پڑے، کوئی مڑ کر دوسرے کی طرف دیکھتا بھی نہ تھا۔ ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اسی عالم میں رسول اللہ ﷺ چلتے رہے یہاں تک کہ رات آدھی گزر گئی، میں آپﷺ کے پہلو میں چل رہا تھا، کہا: تو رسول اللہ ﷺ کو اونگھ آ گئی اور آپﷺ سواری سے ایک طرف جھک گئے، میں آپﷺ کے پاس آیا اور آپﷺ کو جگائے بغیر آپﷺ کو سہارا دیا حتی کہ آپﷺ اپنی سواری پر سیدھے ہو گئے، پھر آپﷺ چلتے رہے یہا ں تک کہ رات کا بیشتر حصہ گزر گیا، آپﷺ (پھر) سواری پر (ایک طرف) جھکے، کہا: میں نے آپﷺ کو جگائے بغیر آپﷺ کو سہارا دیا یہاں تک کہ آپﷺ اپنی سواری پر سیدھے ہو گئے، کہا: پھر چلتے رہے حتی کہ سحری کا آخری وقت تھا تو آپﷺ (پھر) جھکے، یہ جھکنا پہلے دونوں بار کے جھکنے سے زیادہ تھا، قریب تھا کہ آپﷺ اونٹ سے گر پڑتے، میں آپﷺ کے پاس آیا اور آپﷺ کو سہارا دیا تو آپﷺ نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور فرمایا: ’’یہ کون ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: ابو قتادہ ہوں۔ فرمایا: ’’تم کب سے میرے ساتھ اس طرح چل رہے ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا: میں رات ہی سے اس طرح سفر کر رہا ہوں۔ فرمایا: ’’اللہ اسی طرح تمھاری حفاظت کرے جس طر ح تم نے اس کے نبی کی حفاظت کی۔‘‘ پھر فرمایا: ’’کیا تم دیکھ رہے ہو (کہ) ہم لوگوں سے اوجھل ہیں؟‘‘ پھر پوچھا: ’’تمھیں کوئی (اور) نظر آرہا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: یہ ایک سوار ہے۔ پھر عرض کیا: یہ ایک اور سوار ہے حتی کہ ہم اکٹھے ہوئے تو سات سوار تھے، کہا: رسول اللہ ﷺ راستے سے ایک طرف ہٹے، پھر سر (نیچے) رکھ دیا (اور لیٹ گئے) پھر فرمایا: ’’ہمارے لیے ہماری نماز کا خیال رکھنا۔‘‘ پھر جو سب سے پہلے جاگے وہ رسول اللہ ﷺ ہی تھے، سورج آپﷺ کی پشت پر (چمک رہا) تھا، کہا: ہم سخت تشویش کے عالم میں کھڑے ہوئے، پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’سوار ہوجاؤ۔‘‘ ہم سوار ہوئے اور (آگے) چل پڑے حتی کہ جب سورج بلند ہو گیا تو آپﷺ اترے، پھر آپﷺ نے وضو کا برتن مانگا جو میرے ساتھ تھا، اسی میں کچھ پانی تھا، کہا: پھر آپﷺ نے اس سے (مکمل) وضو کے مقابلے میں کچھ ہلکا وضو کیا، اور ا س میں کچھ پانی بچ بھی گیا، پھر آپﷺ نے (مجھے) ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: ’’ہمارے لیے اپنے وضو کا برتن محفوظ رکھنا، اس کی ایک خبر ہو گی۔‘‘ پھر بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز کے لیے اذان کہی، رسول اللہ ﷺ نے دو رکعتیں پڑھیں، پھر آپﷺ نے اسی طرح جس طرح روز کرتے تھے صبح کی نماز پڑھائی، کہا: اور رسول اللہ ﷺ سوار ہو گئے ہم بھی آپﷺ کی معیت میں سوار ہو گئے، کہا: ہم میں سے کچھ لوگ ایک دوسرے سے کھسر پھر کرنے لگے کہ ہم نے نماز میں جو کوتاہی کی ہے اس کا کفارہ کیا ہے؟ اس پر آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا تمھارے لیے میرے عمل میں نمونہ نہیں؟‘‘ پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’سمجھ لو! نیند (آجانے) میں (کسی کی) کوئی کوتاہی نہیں۔‘‘ کوتاہی اس کی ہے جس نے (جاگنے کے بعد) دوسری نماز کا وقت آجانے تک نماز نہیں پڑھی، جو اس طرح (نیند) کرے تو جب اس کے لیے جاگے تو یہ نماز پڑھ لے، پھر جب دوسرا دن آئے تو اسے وقت پر ادا کرے۔‘‘ پھر فرمایا: ’’تم کیا دیکھتے ہو (دوسرے) لوگوں نےکیا کیا؟‘‘ کہا: پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’لوگوں نے صبح کی تو اپنے نبی کو گم پایا۔ ابو بکر اور عمر نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ تمھارے پیچھے ہیں، وہ ایسے نہیں کہ تمھیں پیچھے چھوڑ دیں۔ (دوسرے) لوگوں نے کہا: بے شک رسول اللہ ﷺ تم سے آگے ہیں۔ اگر وہ ابو بکر اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی اطاعت کریں تو صحیح راستے پر چلیں گے۔‘‘ کہا: تو ہم لوگوں تک (اس وقت )پہنچ پائے جب دن چڑھ آیا تھا اور ہر شے تپ گئی تھی اور وہ کہہ رہے تھے: اے اللہ کے رسولﷺ! ہم پیاسے مر گئے۔ تو آپﷺ نے فرمایا: ’’ تم پر کوئی ہلاکت نہیں آئی۔‘‘ پھر فرمایا: ’’میرا چھوٹا پیالہ میرے پاس آنے دو۔‘‘ کہا: پھر وضو کے پانی والا برتن منگوایا، رسول اللہ ﷺ (اس سے پیالے میں) انڈیلتے گئے اور ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کو پلاتے گئے، زیاد دیر نہ گزری تھی کہ لوگوں نے وضو کے برتن میں جو (تھوڑا سا پانی) تھا، دیکھ لیا، اس پر جھرمٹ بنا کر اکٹھے ہو گے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اچھا طریقہ اختیار کرو، تم میں سے ہر ایک اچھی طرح پیاس بجھا لے گا۔‘‘ کہا: لوگوں نے ایسا ہی کیا، رسول اللہ ﷺ پانی (پیالے میں) انڈیلتے گئے اور میں لوگوں کو پلاتا گیا یہاں تک کہ میرے اور رسول اللہ ﷺ کے سوا اور کوئی نہ بچا، کہا: رسول اللہ ﷺ نے پھر پانی ڈالا اور مجھ سے فرمایا: ’’پیو۔‘‘ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! جب تک آپﷺ نہیں پی لیں گے میں نہیں پیوں گا۔ فرمایا: ’’قوم کو پانی پلانے والا ان سب سے آخر میں پیتا ہے۔‘‘ کہا: تب میں نے پی لیا اور رسول اللہ ﷺ نے بھی نوش فرمایا، کہا: اس کے بعد لوگ اس حالت میں (اگلے) پانی پر پہنچے کہ سب (نے اپنے) برتن پانی سے بھرے ہوئے تھے اور (خوب) سیراب تھے ۔ (ثابت نے) کہا، عبداللہ بن رباح نے کہا: میں یہ حدیث جامع مسجد میں سب لوگوں کو سناؤں گا۔ تب عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اے جوان ! خیال رکھنا کہ تم کس طرح حدیث بیان کرتے ہو، اس رات میں بھی قافلے کے سواروں میں سے ایک تھا۔ کہا: میں نے عرض کیا: آپ اس حدیث کو زیادہ جاننے والے ہیں۔ تو انھوں نے پوچھا: تم کس قبیلے سے ہو؟ میں نے کہا انصار سے۔ فرمایا: حدیث بیان کرو تم اپنی احادیث سے زیادہ آگاہ ہو (انصار میں سے ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سارے واقعے کا سب سے زیادہ اور باریکی سے مشاہدہ کیا تھا بلکہ و ہ اس سارے واقعے میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ساتھ تھے، آگے ان سے سننے والے عبداللہ بن رباح بھی انصار میں سے تھے۔) کہا: میں نے لوگوں کو حدیث سنائی تو عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اس رات میں بھی موجود تھا اور میں نہیں سمجھتا کہ اسے کسی نے اس طرح یاد رکھا جس طرح تم نے اسے یاد رکھا ہے۔
امام مسلم کتاب الصلاۃ میں اذان اقامت اور بنیادی ارکانِ صلاۃ کے حوالے سے روایات لائے ہیں۔ مساجد اور نماز سے متعلقہ ایسے مسائل جو براہ راست ارکانِ نماز کی ادائیگی کا حصہ نہیں نماز سے متعلق ہیں انھیں امام مسلم نے کتاب المساجد میں ذکر کیا ہے مثلاً:قبلۂ اول اور اس کی تبدیلی نماز کے دوران میں بچوں کو اٹھانا‘ضروری حرکات جن کی اجازت ہے نماز میں سجدے کی جگہ کو صاف یا برابر کرنا ‘ کھانے کی موجودگی میں نماز پڑھنا‘بدبو دار چیزیں کھا کر آنا‘وقار سے چلتے ہوئے نماز کے لیے آنا‘بعض دعائیں جو مستحب ہیں حتی کہ اوقات نماز کو بھی امام مسلم نے کتاب المساجد میں صحیح احادیث کے ذریعے سے واضح کیا ہے۔ یہ ایک مفصل اور جامع حصہ ہے جو انتہائی ضروری عنوانات پر مشتمل ہے اور کتاب الصلاۃ سے زیادہ طویل ہے۔
ثابت نے عبداللہ بن رباح سے اور انھوں نے حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےر وایت کیا، کہا: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطاب فرمایا اور کہا: ’’تم اپنی (پوری) شام اور (پوری) رات چلتے رہو گے تو إن شاء اللہ کل تک پانی پر پہنچ جاؤ گے۔‘‘ لوگ چل پڑے، کوئی مڑ کر دوسرے کی طرف دیکھتا بھی نہ تھا۔ ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اسی عالم میں رسول اللہ ﷺ چلتے رہے یہاں تک کہ رات آدھی گزر گئی، میں آپﷺ کے پہلو میں چل رہا تھا، کہا: تو رسول اللہ ﷺ کو اونگھ آ گئی اور آپﷺ سواری سے ایک طرف جھک گئے، میں آپﷺ کے پاس آیا اور آپﷺ کو جگائے بغیر آپﷺ کو سہارا دیا حتی کہ آپﷺ اپنی سواری پر سیدھے ہو گئے، پھر آپﷺ چلتے رہے یہا ں تک کہ رات کا بیشتر حصہ گزر گیا، آپﷺ (پھر) سواری پر (ایک طرف) جھکے، کہا: میں نے آپﷺ کو جگائے بغیر آپﷺ کو سہارا دیا یہاں تک کہ آپﷺ اپنی سواری پر سیدھے ہو گئے، کہا: پھر چلتے رہے حتی کہ سحری کا آخری وقت تھا تو آپﷺ (پھر) جھکے، یہ جھکنا پہلے دونوں بار کے جھکنے سے زیادہ تھا، قریب تھا کہ آپﷺ اونٹ سے گر پڑتے، میں آپﷺ کے پاس آیا اور آپﷺ کو سہارا دیا تو آپﷺ نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور فرمایا: ’’یہ کون ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: ابو قتادہ ہوں۔ فرمایا: ’’تم کب سے میرے ساتھ اس طرح چل رہے ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا: میں رات ہی سے اس طرح سفر کر رہا ہوں۔ فرمایا: ’’اللہ اسی طرح تمھاری حفاظت کرے جس طر ح تم نے اس کے نبی کی حفاظت کی۔‘‘ پھر فرمایا: ’’کیا تم دیکھ رہے ہو (کہ) ہم لوگوں سے اوجھل ہیں؟‘‘ پھر پوچھا: ’’تمھیں کوئی (اور) نظر آرہا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: یہ ایک سوار ہے۔ پھر عرض کیا: یہ ایک اور سوار ہے حتی کہ ہم اکٹھے ہوئے تو سات سوار تھے، کہا: رسول اللہ ﷺ راستے سے ایک طرف ہٹے، پھر سر (نیچے) رکھ دیا (اور لیٹ گئے) پھر فرمایا: ’’ہمارے لیے ہماری نماز کا خیال رکھنا۔‘‘ پھر جو سب سے پہلے جاگے وہ رسول اللہ ﷺ ہی تھے، سورج آپﷺ کی پشت پر (چمک رہا) تھا، کہا: ہم سخت تشویش کے عالم میں کھڑے ہوئے، پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’سوار ہوجاؤ۔‘‘ ہم سوار ہوئے اور (آگے) چل پڑے حتی کہ جب سورج بلند ہو گیا تو آپﷺ اترے، پھر آپﷺ نے وضو کا برتن مانگا جو میرے ساتھ تھا، اسی میں کچھ پانی تھا، کہا: پھر آپﷺ نے اس سے (مکمل) وضو کے مقابلے میں کچھ ہلکا وضو کیا، اور ا س میں کچھ پانی بچ بھی گیا، پھر آپﷺ نے (مجھے) ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: ’’ہمارے لیے اپنے وضو کا برتن محفوظ رکھنا، اس کی ایک خبر ہو گی۔‘‘ پھر بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز کے لیے اذان کہی، رسول اللہ ﷺ نے دو رکعتیں پڑھیں، پھر آپﷺ نے اسی طرح جس طرح روز کرتے تھے صبح کی نماز پڑھائی، کہا: اور رسول اللہ ﷺ سوار ہو گئے ہم بھی آپﷺ کی معیت میں سوار ہو گئے، کہا: ہم میں سے کچھ لوگ ایک دوسرے سے کھسر پھر کرنے لگے کہ ہم نے نماز میں جو کوتاہی کی ہے اس کا کفارہ کیا ہے؟ اس پر آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا تمھارے لیے میرے عمل میں نمونہ نہیں؟‘‘ پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’سمجھ لو! نیند (آجانے) میں (کسی کی) کوئی کوتاہی نہیں۔‘‘ کوتاہی اس کی ہے جس نے (جاگنے کے بعد) دوسری نماز کا وقت آجانے تک نماز نہیں پڑھی، جو اس طرح (نیند) کرے تو جب اس کے لیے جاگے تو یہ نماز پڑھ لے، پھر جب دوسرا دن آئے تو اسے وقت پر ادا کرے۔‘‘ پھر فرمایا: ’’تم کیا دیکھتے ہو (دوسرے) لوگوں نےکیا کیا؟‘‘ کہا: پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’لوگوں نے صبح کی تو اپنے نبی کو گم پایا۔ ابو بکر اور عمر نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ تمھارے پیچھے ہیں، وہ ایسے نہیں کہ تمھیں پیچھے چھوڑ دیں۔ (دوسرے) لوگوں نے کہا: بے شک رسول اللہ ﷺ تم سے آگے ہیں۔ اگر وہ ابو بکر اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی اطاعت کریں تو صحیح راستے پر چلیں گے۔‘‘ کہا: تو ہم لوگوں تک (اس وقت )پہنچ پائے جب دن چڑھ آیا تھا اور ہر شے تپ گئی تھی اور وہ کہہ رہے تھے: اے اللہ کے رسولﷺ! ہم پیاسے مر گئے۔ تو آپﷺ نے فرمایا: ’’ تم پر کوئی ہلاکت نہیں آئی۔‘‘ پھر فرمایا: ’’میرا چھوٹا پیالہ میرے پاس آنے دو۔‘‘ کہا: پھر وضو کے پانی والا برتن منگوایا، رسول اللہ ﷺ (اس سے پیالے میں) انڈیلتے گئے اور ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کو پلاتے گئے، زیاد دیر نہ گزری تھی کہ لوگوں نے وضو کے برتن میں جو (تھوڑا سا پانی) تھا، دیکھ لیا، اس پر جھرمٹ بنا کر اکٹھے ہو گے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اچھا طریقہ اختیار کرو، تم میں سے ہر ایک اچھی طرح پیاس بجھا لے گا۔‘‘ کہا: لوگوں نے ایسا ہی کیا، رسول اللہ ﷺ پانی (پیالے میں) انڈیلتے گئے اور میں لوگوں کو پلاتا گیا یہاں تک کہ میرے اور رسول اللہ ﷺ کے سوا اور کوئی نہ بچا، کہا: رسول اللہ ﷺ نے پھر پانی ڈالا اور مجھ سے فرمایا: ’’پیو۔‘‘ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! جب تک آپﷺ نہیں پی لیں گے میں نہیں پیوں گا۔ فرمایا: ’’قوم کو پانی پلانے والا ان سب سے آخر میں پیتا ہے۔‘‘ کہا: تب میں نے پی لیا اور رسول اللہ ﷺ نے بھی نوش فرمایا، کہا: اس کے بعد لوگ اس حالت میں (اگلے) پانی پر پہنچے کہ سب (نے اپنے) برتن پانی سے بھرے ہوئے تھے اور (خوب) سیراب تھے ۔ (ثابت نے) کہا، عبداللہ بن رباح نے کہا: میں یہ حدیث جامع مسجد میں سب لوگوں کو سناؤں گا۔ تب عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اے جوان ! خیال رکھنا کہ تم کس طرح حدیث بیان کرتے ہو، اس رات میں بھی قافلے کے سواروں میں سے ایک تھا۔ کہا: میں نے عرض کیا: آپ اس حدیث کو زیادہ جاننے والے ہیں۔ تو انھوں نے پوچھا: تم کس قبیلے سے ہو؟ میں نے کہا انصار سے۔ فرمایا: حدیث بیان کرو تم اپنی احادیث سے زیادہ آگاہ ہو (انصار میں سے ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سارے واقعے کا سب سے زیادہ اور باریکی سے مشاہدہ کیا تھا بلکہ و ہ اس سارے واقعے میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ساتھ تھے، آگے ان سے سننے والے عبداللہ بن رباح بھی انصار میں سے تھے۔) کہا: میں نے لوگوں کو حدیث سنائی تو عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اس رات میں بھی موجود تھا اور میں نہیں سمجھتا کہ اسے کسی نے اس طرح یاد رکھا جس طرح تم نے اسے یاد رکھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطاب فرمایا اور کہا: تم آج زوال سے لے کر رات تک چلو گے اور کل صبح ان شاء اللہ پانی پر پہنچو گے تو لوگ چل پڑے کوئی کسی دوسرے کی طرف متوجہ نہیں ہو رہا تھا۔ ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ چلتے رہے۔ میں بھی ساتھ تھا حتیٰ کہ آدھی رات گزر گئی۔ رسول اللہ ﷺ کو اونگھ آ گئی اور اپنی سواری پر ایک طرف جھکے، میں نے آگے بڑھ کر آپﷺ کو جگائے بغیر سہارا دیا حتیٰ کہ آپﷺ اپنی سواری پر سیدھے ہو گئے۔ پھر آپﷺ چلتے رہے حتیٰ کہ رات کا اکثر حصہ گزر گیا تو آپﷺ اپنی سواری پر ایک طرف جھک گئے۔ پھر میں نے آپﷺ کو جگائے بغیر سہارا دیا۔ حتیٰ کہ آپﷺ سواری پر سیدھے بیٹھ گئے پھر چلتے رہے یہاں تک کہ رات کا آخری حصہ آ پہنچا تو آپﷺ پہلی دوبار سے زیادہ جھک گئے۔ قریب تھا کہ آپﷺ گر جائیں تو میں نے آپﷺ کے پاس آ کر آپ کو سہارا دیا۔ آپﷺ نے سر اٹھا کر پوچھا: ’’یہ کون ہے؟‘‘ میں نے کہا میں ابو قتادہ ہوں، آپﷺ نے پوچھا تم کب سے میرے ساتھ اس طرح چل رہے ہو؟ میں نے عرض کیا۔ رات بھر سے آپﷺ کے ساتھ اس طرح چل رہا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تیری حفاظت فرمائے، کیونکہ تم نے اس کے نبی کی حفاظت کی ہے۔‘‘ پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا تمہارے خیال میں ہم لوگوں سے اوجھل ہو سکتے ہیں؟‘‘ پھر فرمایا: ’’کیا تمہیں کوئی نظر آ رہا ہے؟‘‘ میں نے کہا یہ ایک سوار ہے۔ پھر میں نے کہا: یہ دوسرا سوار ہے، حتیٰ کہ سات سوار جمع ہو گئے۔ رسول اللہ ﷺ راستہ سے ایک طرف ہٹ گئے اور اپنا سر زمین پر رکھ لیا۔ یعنی سونے لگے ۔ پھر آپﷺ نے فرمایا: تم لوگ ہماری نماز کی حفاظت کرنا۔ پھر سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ بیدار ہوئے جبکہ سورج آپﷺ کی پشت پر آ چکا تھا اور ہم بھی گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’سوار ہو جاؤ‘‘ تو ہم سوار ہو کر چل پڑے۔ حتیٰ کہ سورج بلند ہو گیا تو آپﷺ سواری سے اترے۔ پھر آپﷺ نے وضوء کا برتن طلب کیا جو میرے پاس تھا، اس میں تھوڑا سا پانی تھا تو آپﷺ نے اس سے تخفیف کے ساتھ وضوء کیا یعنی کم مرتبہ اعضاء دھوئے کہ کم پانی استعمال کیا اور برتن میں تھوڑا سا پانی بچ گیا۔ پھر آپ ﷺ نے ابو قتادہ سے فرمایا: ’’ہمارے لیے اپنے برتن کو محفوظ رکھنا، جلد یہ کہ ایک بڑی خیر کا سبب ہو گا۔‘‘ پھر بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اذان کہی۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے دو رکعتیں ادا کیں۔ پھر صبح کی نماز پڑھائی، اس کو اسی طرح پڑھایا جس طرح روزانہ پڑھاتے تھے۔ پھر رسول اللہ ﷺ سوار ہو گئے اور ہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ سوار ہو گئے اور ہم ایک دوسرے سے سرگوشی کرنے لگے کہ نماز کے بارے میں جو ہم نے کوتاہی کی ہے اس کا کفارہ کیا ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا میں تمہارے لیے نمونہ نہیں ہوں؟‘‘ پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں سو جانے کی صورت میں کوتاہی نہیں ہے، کوتاہی تو اس صورت میں ہے کہ انسان نماز نہ پڑھے (حالانکہ پڑھ سکتا ہے) یہاں تک کہ دوسری نماز کا وقت ہو جائے۔ جس کو یہ صورت (کہ سویا رہے) پیش آ جائے تو وہ بیدار ہونے پر نماز پڑھ لے اور اگلے دن نماز اپنے وقت پر پڑھے (عمداً مؤخر نہ کرے) پھر آپﷺ نے پوچھا: ’’تمہارے خیال میں لوگوں نے کیا کیا؟‘‘ پھر فرمایا: لوگوں نے صبح کے وقت اپنے نبی کو اپنے اندر نہیں پایا تو ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا رسول اللہ ﷺ تمہارے پیچھے ہیں وہ تمہیں اپنے پیچھے نہیں چھوڑ سکتے اور دوسرے لوگوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ تمہارے آگے ہیں ۔ پس اگر لوگ ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی اطاعت کریں گے تو ہدایت پائیں گے (یعنی ان کی بات مان لیں گے تو میرے انتظار میں رکے رہیں گے کیونکہ میں تو پیچھے ہوں) پھر ہم لوگوں کے پاس اس وقت پہنچے جب دن کافی چڑھ آیا اور ہر چیز گم ہو گئی اور لوگ کہہ رہے تھے کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! ہم پیاسے مرگئے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تم ہلاک نہیں ہوگے‘‘ پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’میرا چھوٹا پیالہ لاؤ‘‘ اور آپﷺ نے وضو کا برتن منگوایا۔ رسول اللہ ﷺ پانی ڈالنے لگے اور ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پلا رہے تھے جوں ہی لوگوں نے برتن میں معمولی سا پانی دیکھا تو اس پر ٹوٹ پڑے (ہر ایک کی خواہش تھی کہ میں پانی سے محروم نہ رہوں) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اچھا اخلاق اختیار کرو، سب سیراب ہو جاؤ گے‘‘ تو لوگوں نے آپ ﷺ کی بات پر عمل کیا۔ رسول اللہ ﷺ پانی انڈیلنے لگے اور میں انہیں پلانے لگا۔ حتیٰ کہ میرے اور رسول اللہ ﷺ کے سوا کوئی باقی نہ رہا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے پانی ڈالا اور مجھے فرمایا: ’’پیو‘‘ میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول ﷺ! جب تک آپﷺ نہیں پی لیں گے میں نہیں پیوں گا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’لوگوں کو پانی پلانے والا آخر میں پیتا ہے‘‘ تو میں نے پی لیا اور رسول اللہ ﷺ نے بھی پی لیا۔ پھر سب لوگ سیراب ہو کر آرام کے ساتھ پانی تک پہنچ گئے۔ ثابت کہتے ہیں، عبداللہ بن رباح نے بتایا میں جامع مسجد میں یہ حدیث بیان کررہا تھا کہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اے نوجوان! سوچ لو، کیسے بیان کر رہے ہو کیونکہ اس رات کے سواروں میں سے ایک میں بھی ہوں تو میں نے کہا تو آپ ﷺ واقعہ بہتر جانتے ہیں۔ انہوں نے پوچھا: تم کس خاندان سے ہو؟ میں نے کہا: انصار سے ہوں۔ انہوں نے کہا۔ بیان کرو تم اپنے واقعات کو بہتر جانتے ہو تو میں نے لوگوں کو پورا واقعہ سنایا ۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں بھی اس رات موجود تھا اور میں نہیں سمجھتا کسی نے اس واقعہ کو اس طرح یاد رکھا ہے جیسا تو نے یاد رکھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1)لَايَلْوْي أَحَدُ عَلٰي أَحَدٍ: کوئی ایک دوسرے کی طرف مڑ کر نہیں دیکھتا تھا، سب سیدھے رخ چل رہےتھے۔ (2)أَبْهَارُ الليل: تھوڑا اللیل۔ رات آدھی گزر گئی۔ (3) نَعِسَ: آپ کو اونگھ آ گئی۔ (4) دَعَمْتُه: میں نے آپﷺ کو سہارا دیا، تاکہ آپ سیدھے ہو جائیں۔ (5) تَهَوَّرَالليل: رات کا اکثر حصہ گزرگیا۔ (6) تَهَوَّرَ البِنَاء: سے مأخوذ ہے، عمارت گرنے لگی۔ (7) يَنْجَفِل: گرنے لگی۔ بِمَا حَفِظْت میں با سببيہ ہے اور ما مصدریہ ہے۔ یعنی بسبب (8) حفظكَ: تیرے حفاظت کرنے کے سبب، تیری حفاظت کی بنا پر۔ (9) رَكْبٍ: راكب کی جمع ہے۔ سوار، مِيْضَأَةٍ: لوٹا، وضو کرنے کا برتن۔ (10) وضو، دون وضوء: عام وضو سے ہلکا۔ عام وضوء سے کم پانی استعمال کیا۔ (11) يَهْمِسُ إِلٰي بَعْضٍ: ایک دوسرے سے آہستگی کے ساتھ گفتگو کرنا۔ (12) أُسْوَة: نمونہ ماڈل۔ (13) لَيْسَ فِي النَّومِ تَفْرِيْط: سوئے سوئے غیر اختیاری طور پر نماز فوت ہو جائے تو یہ تقصیر اور کوتاہی نہیں ہے۔ (14) مَاتَرَوْنَ النَّاسَ صَنَعُوا: ثُمَّ قَالَ: مقصد یہ ہے کہ جب آپﷺ نے سورج نکلنے کے بعد، ان پیچھے رہ جانے والے ساتھیوں کو صبح کی نماز پڑھا دی تو ان سے پوچھا تمہارے خیال میں دوسرے ساتھیوں کا ہمارے بارے میں کیا خیال ہے کہ ہم کہاں ہیں؟
فوائد ومسائل
1۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کے سلسلے میں تمام ساتھیوں کو اعتماد میں لیا اور ان کو صورت حال سے پوری طرح آگاہ فرمایا تاکہ وہ ذہنی طور پر تیار ہو جائیں اور اس سفر میں بہت سے معجزات ظہور پذیر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ پیش آنے والے واقعات سے بھی آگاہ فرمایا لیکن اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ آپﷺ کو ایسی قوت حاصل تھی جس چیز سے آپﷺ غیب کو جان لیتے تھے۔ رسول اللہ تعالیٰ کی نگرانی اور حفاظت میں ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت ومصلحت کے تحت جس سے آگاہ کرنا چاہتا ہے آگاہ فرما دیتا ہے اور جس کو مخفی رکھنا چاہتا ہے۔ اپنی حکمت کے تحت پوشیدہ رکھتا ہے۔ آپﷺ کو صبح کے وقت سے آگاہ نہیں فرمایا۔ آپﷺ نے نماز کے اہتمام کی خاطر ڈیوٹی مقرر کی تھی۔ محافظ بھی سو گئے لیکن آپﷺ نے اس واقعہ سے آگاہ نہیں فرمایا کہ یہ واقعہ بھی پیش آئے گا اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اونگھ اور ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بار بار سہارا دینے کا پتہ چلا۔ 2۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیند کی مجبوری کے تحت ساتھیوں سے الگ ہو کر لیٹ گئے اور ساتھیوں کو نماز کے بارے میں تاکید فرمائی۔ لیکن سب نیند کے ہاتھوں مجبور ہو کر سو گئے۔سورج کے کافی بلند ہونے کےبعد آپﷺ بیدار ہوئے۔ لیکن آپﷺ نے ساتھیوں کو سرزنش اور توبیخ نہیں فرمائی۔ بلکہ ساتھی جب اس سلسلہ میں پریشان ہوئے کہ اس کوتاہی کا کفارہ کیا ہو گا تو ان کو حوصلہ دیا۔ 3۔ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپﷺ کے ساتھ رہے۔ آپﷺ کی حفاظت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خدمت کا اعتراف فرمایا اور اس کو دعائے خیر دی۔ 4۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوت شدہ نماز کو پورے اہتمام کے ساتھ باجماعت ادا فرمایا اور غفلت والی جگہ کو چھوڑ کر نماز ادا کی اورساتھیوں کو بتا دیا۔ اگر غیر شعوری اور غیر ارادی طور پر سونے کی وجہ سے نماز کاوقت نکل جائے تو انسان معذور تصور ہو گا گناہ گار نہیں ہو گا۔ ہاں اس کو نیند سے بیدار ہونے کے بعد نماز پڑھ لینی چاہیے اور آئندہ نماز اپنے وقت پر پڑھے تاخیر کو عادت نہ بنا لے۔ یہ مقصد نہیں کہ اگلے دن دوبارہ وقت پر اس نماز کا اعادہ کرے جان بوجھ کر نماز میں تاخیر کرنا درست نہیں ہے۔ 5۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضوء کے برتن سے تخفیف کے ساتھ وضوء کیا اوراس میں کچھ پانی رہنے دیا اور ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بتا دیا کہ اس برتن کی حفاظت کرنا۔ یہ ایک عجیب خبر کا باعث بنے گا اور ایسے ہی ہوا کہ جب صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے پیاس سے ہلاکت کی شکایت کی تو آپﷺ نے فرمایا حوصلہ کرو۔ کسی قسم کی ہلاکت سے دوچار نہیں ہو گے۔ اس معمولی پانی میں اتنی برکت ہوئی کہ سب ساتھی اس سے سیراب ہو گئے اور جب سینکڑوں ساتھی معمولی پانی دیکھ کر ایک دوسرے سے پہلے پانی لینے کی کوشش کرنے لگے تو آپﷺ نے فرمایا آرام وسکون سے پانی لو۔ تم سب سیراب اور آسودہ ہو جاؤ گے اور ایسا ہی ہوا کہ سکون واطمینان سے اپنی اپنی باری پر پانی لے کر تمام لوگ سیراب ہو گئے۔ 6۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ کر نماز پڑھی تو نماز پڑھنے کے بعد دوسرے ساتھیوں میں ہونے والی گفتگو سے آگاہ فرمایا اور یہ بھی بتا دیا ابوبکر اورعمر رضوان اللہ عنھم اجمعین نے صحیح بات کی ہے اگر لوگ ان کی بات مان کر ہمارا انتظار کریں گے تو یہی فیصلہ صحیح ہو گا اور ہم ان تک پہنچ جائیں گے۔ 7۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ لوگوں کو پانی پلا رہے تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے آخر میں پانی نوش فرمایا اور اس بات کی عملی تعلیم دی کہ: (ساقي القوم آخرهم شربًا) پانی پلانے والا سب سے آخر میں پیتا ہے۔ 8۔ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس سفر کا واقعہ بیان کیا ہے۔ اگرچہ اس میں بھی عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ موجود تھے لیکن جو واقعہ انہوں نے خود بیان کیا ہے وہ اس سے الگ واقعہ ہے۔ لیکن یہ ممکن ہے دونوں واقعات ایک ہی سفرمیں پیش آئے ہوں۔ ایک واقعہ میں آپﷺ کے ساتھ صرف سات ساتھی تھے اور دوسرے واقعہ میں سب ساتھی ساتھ تھے جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے۔ 9۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ تم زوال کے بعد سے لے کر رات بھر چلنے کے بعد پانی پر پہنچو گے ایسے ہی ہوا جب لوگ پانی میں برکت کے بعد سیراب ہو کر آسودہ حالت میں چل پڑے تو پانی پر پہنچ گئے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں جتنی پیشن گوئیاں فرمائی تھیں پوری ہو گئیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Qatida reported: The Messenger of Allah (ﷺ) addressed us and said: You would travel in the evening and the night till (God willing) you would come in the morning to a place of water. So the people traveled (self absorbed) without paying any heed to one another, and the Messenger of Allah (ﷺ) also traveled till it was midnight. I was by his side. The Messenger of Allah (ﷺ) began to doze and leaned (to one side) of his camel. I came to him and I lent him support without awaking him till he sat poised on his ride. He went on traveling till a major part of the night was over and (he again) leaned (to one side) of his camel. I supported him without awaking him till he sat poised on his ride, and then traveled till it was near dawn. He (again) leaned which was far more inclined than the two earlier leanings and he was about to fall down. So I came to him and supported him and he lifted his head and said; Who is this? I said: it is Abu Qatida. He (the Holy Prophet (ﷺ) again) said: Since how long have you been traveling along with me like this? I said: I have been traveling in this very state since the night. He said: May Allah protect you, as you have protected His Apostle (ﷺ) (from falling down), and again said: Do you see that we are hidden from the people? - and again said: Do you see anyone? I said: Here is a rider. I again said: Here is another rider till we gathered together and we were seven riders. The Messenger of Allah (ﷺ) stepped aside of the highway and placed his head (for sleep and said): Guard for us our prayers. The Messenger of Allah (ﷺ) was the first to wake up and the rays of the sun were falling on his back. We got up startled He (the Holy Prophet) said: Ride on. So we rode on till the sun had (sufficiently) risen. He then came down from his camel and called for a jug of water which I had with me. There was a little water in that. He performed ablution with that which was less thorough as compared with his usual ablutions and some water of that had been left. He (the Holy Prophet) said to Abu Qatida: Keep a watch over your jug of water; it would have (a miraculous) condition about it. Then Bilal (RA) summoned (people) to prayer and then the Messenger of Allah (ﷺ) observed two rak'ahs and then said the morning prayer as he said every day. The Messenger of Allah (ﷺ) (then) rode on and we rode along with him and some of us whispered to the others saying: How would there be compensation for omission in our prayers? Upon this he (the Apostle of Allah (ﷺ) ) said: Is there not in me (my life) a model for you? There is no omission in sleeping. The (cognizable) emission is that one should not say prayer (intentionally) till the time of the other prayer comes. So he who did like it (omitted prayer in sleep or due to other unavoidable circumstances) should say prayer when he becomes aware of it and on the next day he should observe it at its prescribed time. He (the Holy Prophet) said: What do you think the people would have done (at this hour)? They would have in the morning found their Apostle (ﷺ) missing from amongst them and then Abu Bakr (RA) and 'Umar would have told them that the Messenger of Allah (ﷺ) must be behind you, he cannot leave you behind (him), but the people said: The Messenger of Allah (ﷺ) is ahead of you. So if you had obeyed Abu Bakr (RA) and Umar, you would have gone on the right path. So we proceeded on till we came up to the people (from whom we had lagged behind) and the day had considerably risen and everything became hot, and they (the Companions of the Holy Prophet) said: Messenger of Allah, we are dying of thirst. Upon this he (the Holy Prophet) remarked: There is no destruction for you. And again said: Bring that small cup of mine and he then asked for the jug of water to be brought to him. The Messenger of Allah (ﷺ) began to pour water (in that small cup) and Abu Qatida gave them to drink. And when the people saw that there was (a little) water in the jug, they fell upon it. Upon this the Messenger of Allah (ﷺ) said: Behave well; the water (is enough) to satiate all of you. Then they (the Companions) began to receive (their share of) water with calmness (without showing any anxiety) and the Messenger of Allah (ﷺ) began to fill (the cup), and I began to serve them till no one was left except me and the Messenger of Allah (ﷺ) . He then filled (the cup) with water and said to me: Drink it. I said: Messenger of Allah, I would not drink till you drink. Upon this he said: The server of the people is the last among them to drink. So I drank and the Messenger of Allah (ﷺ) also drank and the people came to the place of water quite happy and satiated. 'Abdullah bin Rabah said: I am going to narrate this hadith in the great mosque, when 'Imran bin Husain said: See, O young man, how will you narrate for I was also one of the riders on that night? I said: So you must be knowing this hadith well. He said: Who are you? I said: I am one of the Ansar. Upon this he said: You narrate, for you know your hadith better. I, therefore, narrated it to the people. 'Imran said: I was also present that night, but I know not anyone else who learnt it so well as you have learnt.