Muslim:
The Book of Prayer - Travellers
(Chapter: The prayer and the supplication of the Prophet (saws) at night)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
771.
یوسف مَاجِشُون نے کہا: مجھ سے میرے والد (یعقوب بن ابی سلمہ مَاجِشُون) نے عبدالرحمان اعرج سے حدیث بیان کی، انھوں نے عبیداللہ بن ابی رافع سے،انھوں نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نےرسول اللہ ﷺ سے ر وایت کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ نماز کے لئے کھڑ ے ہوتے تھے تو فرماتے: ’’میں نے اپنا رخ اس ذات کی طرف کر دیا ہے۔جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا، ہر طرف سے یکسو ہو کر، اور میں اس کے ساتھ شریک ٹھہرانے والوں میں سے نہیں، میری نماز اور میری ہر (بدنی ومالی) عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ کے لئے ہے جو کائنات کا رب ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم ملا ہے اور میں فرمانبرداری کرنے والوں میں سے ہوں۔ اے اللہ! تو ہی بادشاہ ہے تیرے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں، تو میرا رب ہے میں تیرا بندہ ہوں اور میں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور اپنے گناہ کا اعتراف کیا ہے، اس لئے میرے سارے گناہ بخش دے کیونکہ گناہوں کو بخشنے والا تیرے سوا کوئی نہیں، اور میری بہترین اخلاق کی طرف راہنمائی فرما، تیرے سوا بہترین اخلاق کی راہ پر چلانے والا کوئی نہیں، اور برے اخلاق مجھ سے ہٹا دے، تیرے سوا برے اخلاق کو مجھ سے دور کرنے والا کوئی نہیں، میں تیرے حضور حاضر ہوں اور دونوں جہانوں کی سعادتیں تجھ سے ہیں ہر طرح کی بھلائی تیر ے ہاتھ میں ہے اور برائی کا تیر ی طرف کوئی گزر نہیں ہے میں تیرے ہی سہارے ہوں، اور تیری ہی طرف میرا رخ ہے، تو برکت والا رفعت والا اور بلندی والا ہے میں تجھ سے بخشش مانگتا ہوں اور تیرے حضور توبہ کر تا ہوں۔‘‘ اور جب آپﷺ رکوع کرتے تو فرماتے: ’’اے اللہ! میں تیرے سامنے جھکا ہوا ہوں اور میں تجھ ہی پر ایمان لایا ہوں، اپنے آپ کو تیرے ہی سپرد کر دیا ہے، میرے کان اور میری آنکھیں اور میرا مغز اور میری ہڈیاں اور میری رگیں اور میرے پٹھے تیرے ہی حضور جھکے ہوئے ہیں۔‘‘ اور جب رکوع سے اٹھتے تو کہتے: ’’اے اللہ! ہمارے رب، تیرے ہی لئے حمد ہے جس سے آ سمانوں اور زمین کی وسعتیں بھر جائیں اور اس کے بعد جو تو چاہے اس کی وسعتیں بھر جائیں۔‘‘ اور جب آپﷺ سجدہ کرتے تو کہتے: ’’اے اللہ!میں نے تیرے ہی حضور سجدہ کیا اور تجھ ہی پر ایمان لایا اور ا پنے آپ کو تیرے ہی حوالے کیا، میرا چہرہ اس ذات کے سامنے سجدہ ریز ہے جس نےاسے پیدا کیا، اس کی صورت گری کی اور اس کے کان اور اس کی آنکھیں تراشیں، برکت والا ہے اللہ جو بہترین خالق ہے ۔‘‘ پھر تشہد اور سلام کے درمیان میں یہ دعا پڑھتے۔’’اے اللہ! بخش دے جو خطائیں میں نے پہلے کیں یا بعد میں کیں اور چھپا کر کہیں یا علانیہ کیں اور جو بھی زیادتی میں نے کی اور جس کا مجھ سے زیادہ تمھیں علم ہے (اطاعت اور خیر میں) تو ہی آگے کرنے والا ہے اور تو ہی پیچھے کرنے والا ہے اور تیرے سوا کوئی عبادت کا حقدار نہیں۔‘‘
صحیح مسلم کی کتابوں اور ابواب کے عنوان امام مسلمؒ کے اپنے نہیں۔انہوں نے سنن کی ایک عمدہ ترتیب سے احادیث بیان کی ہیں،کتابوں اور ابواب کی تقسیم بعد میں کی گئی فرض نمازوں کے متعدد مسائل پر احادیث لانے کے بعد یہاں امام مسلمؒ نے سفر کی نماز اور متعلقہ مسائل ،مثلاً ،قصر،اور سفر کے علاوہ نمازیں جمع کرنے ،سفر کے دوران میں نوافل اور دیگر سہولتوں کے بارے میں احادیث لائے ہیں۔امام نوویؒ نے یہاں اس حوالے سے کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا کا عنوان باندھ دیا ہے۔ان مسائل کے بعد امام مسلم ؒ نے امام کی اقتداء اور اس کے بعد نفل نمازوں کے حوالے سے احادیث بیان کی ہیں۔آخر میں بڑا حصہ رات کےنوافل۔(تہجد) سے متعلق مسائل کے لئے وقف کیا ہے۔ان سب کے عنوان ابواب کی صورت میں ہیں۔ا س سے پتہ چلتا ہے کہ کتاب صلااۃ المسافرین وقصرھا مستقل کتاب نہیں بلکہ ذیلی کتاب ہے۔اصل کتاب صلاۃ ہی ہے جو اس ذیلی کتاب ہے کے ختم ہونے کے بہت بعد اختتام پزیر ہوتی ہے۔یہ وجہ ہے کہ بعض متاخرین نے اپنی شروح میں اس زیلی کتاب کو اصل کتاب الصلاۃ میں ہی ضم کردیا ہے۔
کتاب الصلاۃ کے اس حصے میں ان سہولتوں کا ذکر ہے۔جو اللہ کی طرف سے پہلے حالت جنگ میں عطا کی گئیں اور بعد میں ان کو تمام مسافروں کےلئے تمام کردیا گیا۔تحیۃ المسجد،چاشت کی نماز ،فرض نمازوں کے ساتھ ادا کئے جانے والے نوافل کے علاوہ رات کی نماز میں ر ب تعالیٰ کے ساتھ مناجات کی لذتوں،ان گھڑیوں میں مناجات کرنے والے بندوں کے لئے اللہ کے قرب اور اس کی بے پناہ رحمت ومغفرت کے دروازے کھل جانے اور رسول اللہ ﷺ کی خوبصورت دعاؤں کا روح پرورتذکرہ،پڑھنے والے کے ایمان میں اضافہ کردیتا ہے۔
یوسف مَاجِشُون نے کہا: مجھ سے میرے والد (یعقوب بن ابی سلمہ مَاجِشُون) نے عبدالرحمان اعرج سے حدیث بیان کی، انھوں نے عبیداللہ بن ابی رافع سے،انھوں نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نےرسول اللہ ﷺ سے ر وایت کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ نماز کے لئے کھڑ ے ہوتے تھے تو فرماتے: ’’میں نے اپنا رخ اس ذات کی طرف کر دیا ہے۔جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا، ہر طرف سے یکسو ہو کر، اور میں اس کے ساتھ شریک ٹھہرانے والوں میں سے نہیں، میری نماز اور میری ہر (بدنی ومالی) عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ کے لئے ہے جو کائنات کا رب ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم ملا ہے اور میں فرمانبرداری کرنے والوں میں سے ہوں۔ اے اللہ! تو ہی بادشاہ ہے تیرے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں، تو میرا رب ہے میں تیرا بندہ ہوں اور میں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور اپنے گناہ کا اعتراف کیا ہے، اس لئے میرے سارے گناہ بخش دے کیونکہ گناہوں کو بخشنے والا تیرے سوا کوئی نہیں، اور میری بہترین اخلاق کی طرف راہنمائی فرما، تیرے سوا بہترین اخلاق کی راہ پر چلانے والا کوئی نہیں، اور برے اخلاق مجھ سے ہٹا دے، تیرے سوا برے اخلاق کو مجھ سے دور کرنے والا کوئی نہیں، میں تیرے حضور حاضر ہوں اور دونوں جہانوں کی سعادتیں تجھ سے ہیں ہر طرح کی بھلائی تیر ے ہاتھ میں ہے اور برائی کا تیر ی طرف کوئی گزر نہیں ہے میں تیرے ہی سہارے ہوں، اور تیری ہی طرف میرا رخ ہے، تو برکت والا رفعت والا اور بلندی والا ہے میں تجھ سے بخشش مانگتا ہوں اور تیرے حضور توبہ کر تا ہوں۔‘‘ اور جب آپﷺ رکوع کرتے تو فرماتے: ’’اے اللہ! میں تیرے سامنے جھکا ہوا ہوں اور میں تجھ ہی پر ایمان لایا ہوں، اپنے آپ کو تیرے ہی سپرد کر دیا ہے، میرے کان اور میری آنکھیں اور میرا مغز اور میری ہڈیاں اور میری رگیں اور میرے پٹھے تیرے ہی حضور جھکے ہوئے ہیں۔‘‘ اور جب رکوع سے اٹھتے تو کہتے: ’’اے اللہ! ہمارے رب، تیرے ہی لئے حمد ہے جس سے آ سمانوں اور زمین کی وسعتیں بھر جائیں اور اس کے بعد جو تو چاہے اس کی وسعتیں بھر جائیں۔‘‘ اور جب آپﷺ سجدہ کرتے تو کہتے: ’’اے اللہ!میں نے تیرے ہی حضور سجدہ کیا اور تجھ ہی پر ایمان لایا اور ا پنے آپ کو تیرے ہی حوالے کیا، میرا چہرہ اس ذات کے سامنے سجدہ ریز ہے جس نےاسے پیدا کیا، اس کی صورت گری کی اور اس کے کان اور اس کی آنکھیں تراشیں، برکت والا ہے اللہ جو بہترین خالق ہے ۔‘‘ پھر تشہد اور سلام کے درمیان میں یہ دعا پڑھتے۔’’اے اللہ! بخش دے جو خطائیں میں نے پہلے کیں یا بعد میں کیں اور چھپا کر کہیں یا علانیہ کیں اور جو بھی زیادتی میں نے کی اور جس کا مجھ سے زیادہ تمھیں علم ہے (اطاعت اور خیر میں) تو ہی آگے کرنے والا ہے اور تو ہی پیچھے کرنے والا ہے اور تیرے سوا کوئی عبادت کا حقدار نہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے کھڑ ے ہوتے تھے تو یہ دعا پڑھتے: ’’میں نے اپنا چھرہ ہر طرف سے یکسو ہو کر، اس ذات کی طرف کر دیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا، اور میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں، جو اس کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں، میری نماز اور میری قربانی یا میرا ہر دینی عمل اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لئے ہے، جو کائنات کا آقا ومالک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اس کا حکم ملا ہے اور میں فرمانبرداری کرنے والوں میں سے ہوں۔ اے اللہ! تو ہی بادشاہ اور مالک ہے، تیرے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں ہے، تو میرا مالک وآقا ہے اور میں تیرا بندہ ہوں، میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا، اور میں اپنے گناہ کا اعتراف کرتا ہوں،پس میرے سارے گناہوں کو بخش دے کیونکہ تیرے سوا گناہوں کو بخشنے والا کوئی نہیں، اور میری بہترین اخلاق کی طرف راہنمائی فرما، تیرے سوا بہترین اخلاق کی طرف وہنمائی کرنے والا کوئی نہیں، اور برے اخلاق میری طرف سے پھیر دے، تیرے سوا مجھ سے برے اخلاق کو دور کرنے والا کوئی نہیں، تیرے حضور حاضر ہوں اور تیری خدمت واطاعت کے لئے تیارہوں،ہر قسم کی خیروبھلائی تیر ے ہاتھ میں ہے اور برائی کا تیر ی طرف گزر نہیں ہے، مجھے تیرا ہی سہارا ہے، اور تیری ہی طرف میرا رخ ہے، تو برکت والا اور رفعت و بلندی والا ہے، میں تجھ سے بخشش کا سائل ہوں اور تیرے حضور توبہ کر تا ہوں، اور جب آپﷺ رکوع کرتے تو فرماتے: ’’اے اللہ! میں تیرے حضور جھکا ہوا ہوں اور میں تجھ پر ایمان لایا ہوں،اور میں نے اپنے آپ کو تیرے ہی سپرد کر دیا ہے، میرے کان اور میری آنکھیں اور میرا مغز اور میری ہڈیاں اور میری رگ و پٹھے تیرے ہی حضور جھکے ہوئے ہیں۔‘‘ اور جب رکوع سے اٹھتے تو دعا کرتے: ’’اے اللہ! ہمارے رب، تیرے ہی لئے حمد ہے،(ایسی وسیع اور بے انتہا) جس سے آ سمانوں کی وسعتیں بھر جائیں اور زمین کی وسعتیں بھر جائیں اور جوکچھ ان کے درمیان ہے یعنی درمیان کا سارا خلا پر ہوجائے اور ان کے سوا تو جو چاہے وہ بھر جائے۔‘‘ اور جب آپﷺ سجدہ کرتے تو کہتے: ’’اے اللہ!میں تیرے حضوری سجدہ ریز ہوں اور میں تجھ پر ہی ایمان لایا اور ا پنے آپ کو تیرے ہی حوالے کیا، میرا چہرہ اس ذات کے سامنے سجدہ کرتا ہے جس نےاسے پیدا کیا،اور اس کی شکل وصورت بنائی اور اس کے کان اور اس کی آنکھیں تراشیں، اور برکت والا ہے، بہترین خالق ۔‘‘ پھر تشہد اور سلام کے درمیان آخر میں یہ دعا پڑھتے۔’’اے اللہ! جو خطائیں میں نے پہلے کیں یا بعد میں کیں اور چھپ کر کیں یا علانیہ کیں، اور جو بھی زیادتی میں نے کی اور جس کا تجھے مجھ سے زیادہ علم ہے، سب معاف کر دے، مجھے بخش تو ہی آگے کرنے والا ہے اور تو ہی پیچھے کرنے والا ہے، اور تیرے سوا عبادت کا مقدورکوئی نہیں ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) وَجَّهْتُ وَجْهِيَ حَنِيْفاً: میں نے ہر طرف سے رخ پھیر لیا ہے اور ہر طرف سے کٹ کر آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے کی طرف کر لیا ہے، اس لیے میرا مشرکوں سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔ (2) صَلاَتِيْ وَ نُسُكِيْ: نسک، عبادت و بندگی اور ہر دینی کام کو کہتے ہیں لیکن یہاں مقصود قربانی ہے اور یہ دونوں لفظ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ کے مقابلہ میں ہیں کہ میری زندگی میں دوئی اور شراکت نہیں ہے، جب تک زندہ ہوں اس کی طرف متوجہ ہوں اور نماز اس کی علامت ہے اور جب میری موت آئے گی تو جان اسی پر قربان کروں گا، زندگی کے آخری سانس تک اس سے منہ نہیں موڑوں گا کیونکہ للهِ کا معنی ہے میری موت کا مالک وہی ہے اور کوئی اور اس کا مالک نہیں ہے۔ اس لیے موت و حیات اس کے لیے مختص ہیں، کسی اور کا ان میں کوئی حق اور حصہ نہیں ہے، کیونکہ وہی ﴿رَبُّ الْعَالَمِیْن﴾ ہے یعنی تمام کائنات کا آقا، مالک و فرمانروا، پروردگار اور مدبر و منتظم ہے۔ کائنات کے نظم و نسق اور انتظام و انصرام میں کسی کا دخل نہیں ہے۔ اس لیے میری موت و حیات میں کسی کا دخل نہیں، اس لیے میں اس کا فرمانبردار اور اطاعت گزار ہوں، اس کا بندہ اور غلام ہونے کی بنا پر اس بادشاہ حقیقی سے اپنی لغزشوں اور کوتاہیوں کی معافی کا طلب گار ہوں اور اس مالک کے بغیر یہ کام کوئی بھی نہیں کر سکتا، کیونکہ وہی اِلٰہ ہے۔ اخلاق حسنہ اختیار کرنے کی توفیق وہی عنایت فرما سکتا ہے اور اخلاق سیئہ سے وہی بچا سکتا ہے۔ اس کے سوا کسی کے اختیار میں نہیں ہے کہ وہ اخلاق حسنہ کو اپنانے کی توفیق دے اور برے اخلاق سے محفوظ رکھے کیونکہ ہر قسم کی خیر و بھلائی اس کے ہاتھ میں ہے، اس لیے میں اس کی اطاعت و فرمانبرداری پر قائم ہوں اور ہر وقت اس کے لیے تیار ہوں، وہ خالقِ شر ضرور ہے لیکن برائی کا اس کی طرف گزر نہیں۔ (3) وَالشَّرُّ لَيْسَ اِلَيْكَ: یعنی شر تقرب اور نزدیکی کا باعث نہیں بن سکتا، کیونکہ شر تیری بارگاہ میں پہنچتا نہیں، تجھ تک صرف کلمات خیر اور اعمال صالحہ ہی پہنچتے ہیں، نہ شر کی طرف نسبت ہو سکتی ہے کیونکہ تیری نسبت اور تیرے اعتبار سے وہ شر نہیں ہے بلکہ حکمت بالغہ پر مبنی ہے اس لیے اس میں شر ہمارے اعتبار سے ہے اور ادب و توقیر کا تقاضا بھی یہی ہے کہ شر کی نسبت اپنی طرف کی جائے، اپنے مالک اور آقا کی طرف نہ کی جائے، ہم چونکہ تیرے سہارے قائم ہیں، اس لیے ہمارا رخ تیری ہی طرف ہے، اور ہماری ہر چیز ہماری نس نس، انگ انگ اور جوڑ جوڑ تیرے حضور جھکا ہے، اور تو اپنے انعامات و احسانات کے سبب جو بے حد و بے انتہا ہیں، اس قدر حمد اور شکر کا حق دار ہے کہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان خلا بھی اگر تیری حمد و شکر سے بھر جائیں تو بھی تیرے فیض و کرم کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ہم ہر قسم کی کوتاہیوں سے جو ہو چکی ہیں یا ہوں گی معافی کے خواستگار ہیں، کیونکہ ہر قسم کی کھلی چھپی، چھوٹی بڑی کوتاہیوں کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں اور تیرے سوا کوئی انہیں معاف نہیں کر سکتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Ali bin Abu Talib reported that when the Messenger of Allah (ﷺ) got up at night for prayer he would say: I turn my face in complete devotion to One Who is the Originator of the heaven and the earth and I am not of the polytheists. Verily my prayer, my sacrifice, my living and my dying are for Allah, the Lord of the worlds; There is no partner with Him and this is what I have been commanded (to profess and believe) and I am of the believers. O Allah, Thou art the King, there is no god but Thee, Thou art my Lord, and I am Thy bondman. I wronged myself and make a confession of my Sin. Forgive all my sins, for no one forgives the sins but Thee, and guide me in the best of conduct for none but Thee guideth anyone (in) good conduct. Remove sins from me, for none else but Thou can remove sins from me. Here I am at Thy service, and Grace is to Thee and the whole of good is in Thine hand, and one cannot get nearnest to Thee through evil. My (power as well as existence) is due to Thee (Thine grace) and I turn to Thee (for supplication). Thou art blessed and Thou art exalted. I seek forgiveness from Thee and turn to Thee in repentance: and when he would bow, he would say: O Allah, it is for Thee that I bowed. I affirm my faith in Thee and I submit to Thee, and submit humbly before Thee my hearing, my eyesight, my marrow, my bone, my sinew; and when he would raise his head, he would say: O Allah, our Lord, praise is due to Thee, (the praise) with which is filled the heavens and the earth, and with which is filled that (space) which exists between them, and filled with anything that Thou desireth afterward. And when he prostrated himself, he (the Holy Prophet) would say: O Allah, it is to Thee that I prostrate myself and it is in Thee that I affirm my faith, and I submit to Thee. My face is submitted before One Who created it, and shaped it, and opened his faculties of hearing and seeing. Blessed is Allah, the best of Creators; and he would then say between Tashahhud and the pronouncing of salutation: Forgive me of the earlier and later open and secret (sins) and that where I made transgression and that Thou knowest better than I. Thou art the First and the Last. There is no god, but Thee.