Muslim:
The Book of Prayer - Funerals
(Chapter: What is to be said in the presence of the sick and the dying)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
919.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم مریض یا مرنے والے کے پاس جاؤ تو بھلائی کی بات کہو کیونکہ جو تم کہتے ہو فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔‘‘ کہا: جب ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہو گئے تو میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! ابو سلمہ وفات پا گئے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تم (یہ کلمات) کہو: اےاللہ! مجھے اور اس کو معاف فرما اور اس کے بعد مجھے اس کا بہترین بدل عطا فرما۔‘‘ کہا: میں نے (یہ کلمات) کہے تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کے بعد وہ دے دیے جو میرے لئے ان سے بہتر ہیں، یعنی محمد ﷺ ۔
دنیا میں انسانی زندگی کے ہر مرحلے کی طرح آخری مرحلے کے لئے بھی اسلام انتہائی عمدہ رہنمائی عطا کرتاہے مقصود یہ ہے کہ مراحل باوقار،عمدہ اور حرمت انسانی کے لئے شایان شان طریقے سے ادا ہوں۔جو مومن رخصت ہورہا ہے،اسے محبت اور احترام سے اللہ کی رحمت کےسائے میں روانہ کیا جائے۔وہ اس کائنات کی سب سےبڑی سچائی"لاالٰہ الا اللہ" کی گواہی دیتا ہوا جائے۔پھر جب روح چلی جائے تو جسم کو بھی پاکیزگی کے عالم میں خوشبوؤں میں بسا کر،دعاؤں کےسائے میں اسی زمین کی گود کے سپرد کیا جائےجس سے اس جسم کی تخلیق ہوئی تھی۔ساتھ چلنے والے ایسا کوئی کام نہ کریں جو جانے والے یا خود ان کے اپنے شایان شان نہ ہو۔اس کی اچھی یادوں کو دہرائیں،اس کی خوبیاں بیان کریں،مرنے کے بعد دوسرے انسانوں کے سامنے جھوٹےتکبر،غرور، برتری اور ریاکاری کا کوئی مظاہرہ سامنےنہ آئے اور غم واندوہ کے مناسب وقفے کے بعد پسماندگان باوقار طریقے سے اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں مصروف ہوجائیں۔جہاں جانے والا گیا ہے،وہیں کے سفر کی تیاری کریں۔زندگی میں ان کےٹھکانوں کی زیارت کرکےان کے لئے دعائیں کی جائیں اور اپنی منزل کی یاد تازہ رکھی جائے۔دنیا کے کسی مذہب نے موت کے سفر کے لئے ایسے بامقصد،خوبصورت اور سادگی سے معمور طریقوں کی تعلیم نہیں دی۔اسلام کے سکھائے ہوئے طریقے ہر اعتبار سے متوازن،آسان اور باوقار ہیں۔انسانی جثے کو نہ تو درندوں اور پرندوں کے لئے کھلا چھوڑنے کی اجازت ہے۔نہ دوبارہ عناصر فطرت کا حصہ بنانے کے لئے ظالمانہ طریقے سے آگ میں بھسم کرنے کی ضرور ت ہے،نہ فراعنہ کی طرح مرے ہوئے کی لاش کے ساتھ ہزاروں معصوم انسانوں کو قتل کرکے بطور خدم وچشم ہمراہ بھیجنے کی گنجائش ہے،نہ لاکھوں انسانوں کو مجبور کرکے قبروں کے لئے اہرام یا زمین دوز محلات تعمیر کرنے کا کوئی تصور ہے۔اور نہ دنیا بھر کے خزانوں کو لاشوں کے ساتھ زمین دوز کرنے کا۔اسلام نے اس حوالے سے بہت بڑی حقیقت کو بہت سادہ انداز میں سمجھا دیا ہے۔مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ "اسی(مٹی) سے ہم نے تمھیں پیدا کیا اور اسی میں تمھیں لوٹائیں گے اور اسی سے تمھیں ایک بار اور نکالیں گے۔"(طہٰ۔20:55)امام مسلم ؒ نے کتاب الجنائز میں،جانے والے(قریب المرگ) کو کلمے کی تلقین،اس کی عیادت اور اس کےلئے آسانیوں سے آغاز کیا ہے۔پھر صدمے کو برداشت کرنے کے طریقے،صبروبرداشت،نالہ وشیون اور شور غوغا سے پرہیز کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات تفصیل سے بیان کی ہیں۔پھر میت کے غسل،خوشبو لگانے،اور تکفین کا ذکرہے،پھر نماز جنازہ کے حوالے سے مفصل رہنمائی ہے۔جو جنازہ نہ پڑھ سکے اس کے لئے قبر پر جنازہ پڑھنے کا موقع موجود ہے۔میت اور قبر کے احترام کو ملحوظ رکھنے کے لئے مفصل ہدایات ہیں،پھر قبر بنانے اور بعد از تدفین قبروں پر جا کر فوت ہونے والوں کے لئے دعائیں کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے ۔الغرض دنیوی زندگی کے آخری مرحلے کا کوئی پہلو تشنہ باقی نہیں چھوڑا۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم مریض یا مرنے والے کے پاس جاؤ تو بھلائی کی بات کہو کیونکہ جو تم کہتے ہو فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔‘‘ کہا: جب ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہو گئے تو میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! ابو سلمہ وفات پا گئے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تم (یہ کلمات) کہو: اےاللہ! مجھے اور اس کو معاف فرما اور اس کے بعد مجھے اس کا بہترین بدل عطا فرما۔‘‘ کہا: میں نے (یہ کلمات) کہے تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کے بعد وہ دے دیے جو میرے لئے ان سے بہتر ہیں، یعنی محمد ﷺ ۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم بیمار یا مرنے والے کے پاس حاضر ہو تو اچھی اور بہتر بات کہو کیونکہ جو تم کہتے ہو فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔‘‘ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب (میرے خاوند) ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہو گئے تو میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ابو سلمہ وفات پا گئے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تم یوں کہو، اےاللہ! مجھے اور اسے معاف فرما دے اور مجھے ا سکے عوض اس سے بہتر عطا فرما‘‘ تو میں نے یہ دعائیہ کلمات کہے تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کےبدل ایسی شخصیت عطا فرمائی، جومیرے لیے ان سے بہتر ہے، یعنی محمدﷺ۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
مریض یا مرنے والے کے پاس زبان سے کلمات خیر ہی کہنے چاہئیں جس سے نہ مریض اور مرنے والے کے جذبات کو ٹھیس پہنچے اور نہ ہی ان سے جزع اور فزع یا سوء ظن کا اظہارہو، کیونکہ وہاں موجود فرشتے حاضرین کی باتوں پر آمین کہتے ہیں جس کی بنا پر ان کی قبولیت اور اثرات کا امکان بڑھ جاتا ہے نیز جب وہ مر جائے تو اس کے ورثاء کو یہ مسنون دعا پڑھنی چاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ جو ہر چیز پر قادر ہے، اس کے لیے کوئی بات ناممکن نہیں۔ وہ انہیں اس کا نعم البدل عنایت فرمائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Umm Salamah reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: Whenever you visit the sick or the dead, supplicate for good because angels say "Amen" to whatever you say. She added: When Abu Salama died, I went to the Apostle of Allah (ﷺ) and said: Messenger of Allah, Abu Salama has died. He told me to recite: "O Allah! forgive me and him (Abu Salama) and give me a better substitute than he." So I said (this), and Allah gave me in exchange Muhammad, who is better for me than him (Abu Salama).