باب: میت کے گھر والوں کے رونے پراسے عذاب دیا جاتا ہے
)
Muslim:
The Book of Prayer - Funerals
(Chapter: The deceased is tormented because of his family's crying for him)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
929.
ابن جریج نے کہا: مجھے عبد اللہ بن ابی ملیکہ نے خبر دی انھوں نے کہا: حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی مکہ میں فو ت ہو گئی تو ہم ان کے جنازے میں شرکت کے لیے آئے حضرت ابن عمر اور حضرت ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی تشریف لائے۔ میں ان دونوں کے درمیان میں بیٹھا تھا میں ان میں سے ایک کے پاس بیٹھا تھا پھر دوسرا آ کر میرے پہلو میں بیٹھ گیا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے عمرو بن عثمان سے اور وہ ان کے رو برو بیٹھے ہوئے تھے کہا: تم رونے سے روکتے کیوں نہیں؟ بے شک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا ’’میت کو اس کے گھروالوں کے اس پر رونے سے عذاب دیا جا تا ہے۔‘‘
دنیا میں انسانی زندگی کے ہر مرحلے کی طرح آخری مرحلے کے لئے بھی اسلام انتہائی عمدہ رہنمائی عطا کرتاہے مقصود یہ ہے کہ مراحل باوقار،عمدہ اور حرمت انسانی کے لئے شایان شان طریقے سے ادا ہوں۔جو مومن رخصت ہورہا ہے،اسے محبت اور احترام سے اللہ کی رحمت کےسائے میں روانہ کیا جائے۔وہ اس کائنات کی سب سےبڑی سچائی"لاالٰہ الا اللہ" کی گواہی دیتا ہوا جائے۔پھر جب روح چلی جائے تو جسم کو بھی پاکیزگی کے عالم میں خوشبوؤں میں بسا کر،دعاؤں کےسائے میں اسی زمین کی گود کے سپرد کیا جائےجس سے اس جسم کی تخلیق ہوئی تھی۔ساتھ چلنے والے ایسا کوئی کام نہ کریں جو جانے والے یا خود ان کے اپنے شایان شان نہ ہو۔اس کی اچھی یادوں کو دہرائیں،اس کی خوبیاں بیان کریں،مرنے کے بعد دوسرے انسانوں کے سامنے جھوٹےتکبر،غرور، برتری اور ریاکاری کا کوئی مظاہرہ سامنےنہ آئے اور غم واندوہ کے مناسب وقفے کے بعد پسماندگان باوقار طریقے سے اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں مصروف ہوجائیں۔جہاں جانے والا گیا ہے،وہیں کے سفر کی تیاری کریں۔زندگی میں ان کےٹھکانوں کی زیارت کرکےان کے لئے دعائیں کی جائیں اور اپنی منزل کی یاد تازہ رکھی جائے۔دنیا کے کسی مذہب نے موت کے سفر کے لئے ایسے بامقصد،خوبصورت اور سادگی سے معمور طریقوں کی تعلیم نہیں دی۔اسلام کے سکھائے ہوئے طریقے ہر اعتبار سے متوازن،آسان اور باوقار ہیں۔انسانی جثے کو نہ تو درندوں اور پرندوں کے لئے کھلا چھوڑنے کی اجازت ہے۔نہ دوبارہ عناصر فطرت کا حصہ بنانے کے لئے ظالمانہ طریقے سے آگ میں بھسم کرنے کی ضرور ت ہے،نہ فراعنہ کی طرح مرے ہوئے کی لاش کے ساتھ ہزاروں معصوم انسانوں کو قتل کرکے بطور خدم وچشم ہمراہ بھیجنے کی گنجائش ہے،نہ لاکھوں انسانوں کو مجبور کرکے قبروں کے لئے اہرام یا زمین دوز محلات تعمیر کرنے کا کوئی تصور ہے۔اور نہ دنیا بھر کے خزانوں کو لاشوں کے ساتھ زمین دوز کرنے کا۔اسلام نے اس حوالے سے بہت بڑی حقیقت کو بہت سادہ انداز میں سمجھا دیا ہے۔مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ "اسی(مٹی) سے ہم نے تمھیں پیدا کیا اور اسی میں تمھیں لوٹائیں گے اور اسی سے تمھیں ایک بار اور نکالیں گے۔"(طہٰ۔20:55)امام مسلم ؒ نے کتاب الجنائز میں،جانے والے(قریب المرگ) کو کلمے کی تلقین،اس کی عیادت اور اس کےلئے آسانیوں سے آغاز کیا ہے۔پھر صدمے کو برداشت کرنے کے طریقے،صبروبرداشت،نالہ وشیون اور شور غوغا سے پرہیز کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات تفصیل سے بیان کی ہیں۔پھر میت کے غسل،خوشبو لگانے،اور تکفین کا ذکرہے،پھر نماز جنازہ کے حوالے سے مفصل رہنمائی ہے۔جو جنازہ نہ پڑھ سکے اس کے لئے قبر پر جنازہ پڑھنے کا موقع موجود ہے۔میت اور قبر کے احترام کو ملحوظ رکھنے کے لئے مفصل ہدایات ہیں،پھر قبر بنانے اور بعد از تدفین قبروں پر جا کر فوت ہونے والوں کے لئے دعائیں کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے ۔الغرض دنیوی زندگی کے آخری مرحلے کا کوئی پہلو تشنہ باقی نہیں چھوڑا۔
ابن جریج نے کہا: مجھے عبد اللہ بن ابی ملیکہ نے خبر دی انھوں نے کہا: حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی مکہ میں فو ت ہو گئی تو ہم ان کے جنازے میں شرکت کے لیے آئے حضرت ابن عمر اور حضرت ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی تشریف لائے۔ میں ان دونوں کے درمیان میں بیٹھا تھا میں ان میں سے ایک کے پاس بیٹھا تھا پھر دوسرا آ کر میرے پہلو میں بیٹھ گیا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے عمرو بن عثمان سے اور وہ ان کے رو برو بیٹھے ہوئے تھے کہا: تم رونے سے روکتے کیوں نہیں؟ بے شک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا ’’میت کو اس کے گھروالوں کے اس پر رونے سے عذاب دیا جا تا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبد اللہ بن ابی ملیکہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی مکہ میں انتقال ہو گیا تو ہم ان کے جنا زے میں شرکت کے لیے آئے، ابن عمر اور حضرت ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی آ گئے۔ میں ان کے درمیان بیٹھا ہوا تھا کیونکہ میں ان میں سے ایک (ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما)کے پاس بیٹھا تھا کہ دوسرا آ کر میرے پہلو میں بیٹھ گیا حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عمرو بن عثمان کو کہا اور وہ ان کے سامنے بیٹھے ہو ئے تھے کیا تم رونے سے نہیں رو کو گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایاہے ’’میت کو اس کے گھروالوں کے اس پر رونے سے عذاب دیا جا تا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abdullah bin Abu Mulaikah said: The daughter of 'Uthman bin 'Affan died in Makkah. We came to attend her (funeral). Ibn 'Umar and Ibn 'Abbas were also present there, and I was sitting between them. He added: I (first sat) by the side of one of them, then the other one came and he sat by my side. 'Abdullah bin 'Umar said to 'Amr bin 'Uthman who was sitting opposite to him: Will you not prevent the people from lamenting, for the Messenger of Allah (ﷺ) had said:" The dead is punished because of the lamenting of his family for him"?