Muslim:
The Book of Prayer - Funerals
(Chapter: Stern warning against wailing)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
934.
حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میری امت میں جاہلیت کے کاموں میں سے چار باتیں (موجود) ہیں وہ ان کو ترک نہیں کریں گے اَحساب (باپ داداکے اصلی یا مزعومہ کا رناموں ) پر فخر کرنا (دوسروں کے) نسب پر طعن کرنا ستاروں کے ذریعے سے بارش مانگنا اور نوحہ کرنا ۔اور فرمایا ’’نوحہ کرنے والی جب اپنی مو ت سے پہلے توبہ نہ کرے تو قیامت کے دن اس کو اس حالت میں اٹھا یا جا ئے گا کہ اس (کے بدن ) پر تارکول کا لباس اور خارش کی قمیص ہو گی ۔‘‘
دنیا میں انسانی زندگی کے ہر مرحلے کی طرح آخری مرحلے کے لئے بھی اسلام انتہائی عمدہ رہنمائی عطا کرتاہے مقصود یہ ہے کہ مراحل باوقار،عمدہ اور حرمت انسانی کے لئے شایان شان طریقے سے ادا ہوں۔جو مومن رخصت ہورہا ہے،اسے محبت اور احترام سے اللہ کی رحمت کےسائے میں روانہ کیا جائے۔وہ اس کائنات کی سب سےبڑی سچائی"لاالٰہ الا اللہ" کی گواہی دیتا ہوا جائے۔پھر جب روح چلی جائے تو جسم کو بھی پاکیزگی کے عالم میں خوشبوؤں میں بسا کر،دعاؤں کےسائے میں اسی زمین کی گود کے سپرد کیا جائےجس سے اس جسم کی تخلیق ہوئی تھی۔ساتھ چلنے والے ایسا کوئی کام نہ کریں جو جانے والے یا خود ان کے اپنے شایان شان نہ ہو۔اس کی اچھی یادوں کو دہرائیں،اس کی خوبیاں بیان کریں،مرنے کے بعد دوسرے انسانوں کے سامنے جھوٹےتکبر،غرور، برتری اور ریاکاری کا کوئی مظاہرہ سامنےنہ آئے اور غم واندوہ کے مناسب وقفے کے بعد پسماندگان باوقار طریقے سے اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں مصروف ہوجائیں۔جہاں جانے والا گیا ہے،وہیں کے سفر کی تیاری کریں۔زندگی میں ان کےٹھکانوں کی زیارت کرکےان کے لئے دعائیں کی جائیں اور اپنی منزل کی یاد تازہ رکھی جائے۔دنیا کے کسی مذہب نے موت کے سفر کے لئے ایسے بامقصد،خوبصورت اور سادگی سے معمور طریقوں کی تعلیم نہیں دی۔اسلام کے سکھائے ہوئے طریقے ہر اعتبار سے متوازن،آسان اور باوقار ہیں۔انسانی جثے کو نہ تو درندوں اور پرندوں کے لئے کھلا چھوڑنے کی اجازت ہے۔نہ دوبارہ عناصر فطرت کا حصہ بنانے کے لئے ظالمانہ طریقے سے آگ میں بھسم کرنے کی ضرور ت ہے،نہ فراعنہ کی طرح مرے ہوئے کی لاش کے ساتھ ہزاروں معصوم انسانوں کو قتل کرکے بطور خدم وچشم ہمراہ بھیجنے کی گنجائش ہے،نہ لاکھوں انسانوں کو مجبور کرکے قبروں کے لئے اہرام یا زمین دوز محلات تعمیر کرنے کا کوئی تصور ہے۔اور نہ دنیا بھر کے خزانوں کو لاشوں کے ساتھ زمین دوز کرنے کا۔اسلام نے اس حوالے سے بہت بڑی حقیقت کو بہت سادہ انداز میں سمجھا دیا ہے۔مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ "اسی(مٹی) سے ہم نے تمھیں پیدا کیا اور اسی میں تمھیں لوٹائیں گے اور اسی سے تمھیں ایک بار اور نکالیں گے۔"(طہٰ۔20:55)امام مسلم ؒ نے کتاب الجنائز میں،جانے والے(قریب المرگ) کو کلمے کی تلقین،اس کی عیادت اور اس کےلئے آسانیوں سے آغاز کیا ہے۔پھر صدمے کو برداشت کرنے کے طریقے،صبروبرداشت،نالہ وشیون اور شور غوغا سے پرہیز کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات تفصیل سے بیان کی ہیں۔پھر میت کے غسل،خوشبو لگانے،اور تکفین کا ذکرہے،پھر نماز جنازہ کے حوالے سے مفصل رہنمائی ہے۔جو جنازہ نہ پڑھ سکے اس کے لئے قبر پر جنازہ پڑھنے کا موقع موجود ہے۔میت اور قبر کے احترام کو ملحوظ رکھنے کے لئے مفصل ہدایات ہیں،پھر قبر بنانے اور بعد از تدفین قبروں پر جا کر فوت ہونے والوں کے لئے دعائیں کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے ۔الغرض دنیوی زندگی کے آخری مرحلے کا کوئی پہلو تشنہ باقی نہیں چھوڑا۔
حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میری امت میں جاہلیت کے کاموں میں سے چار باتیں (موجود) ہیں وہ ان کو ترک نہیں کریں گے اَحساب (باپ داداکے اصلی یا مزعومہ کا رناموں ) پر فخر کرنا (دوسروں کے) نسب پر طعن کرنا ستاروں کے ذریعے سے بارش مانگنا اور نوحہ کرنا ۔اور فرمایا ’’نوحہ کرنے والی جب اپنی مو ت سے پہلے توبہ نہ کرے تو قیامت کے دن اس کو اس حالت میں اٹھا یا جا ئے گا کہ اس (کے بدن ) پر تارکول کا لباس اور خارش کی قمیص ہو گی ۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری امت میں چار عادتیں جاہلیت کاموں میں سے ہیں جن کو وہ ترک نہیں کریں گے حسب و نسب پر فخر کرنا، دوسروں کے نسب پر طعن کرنا، ستاروں کے سبب بارش مانگنا اور نوحہ کرنا۔ اور فرمایا: ’’نوحہ کرنے والی جب اپنی مو ت سے پہلے توبہ نہ کرے تو قیامت کے دن اس کو اس حالت میں اٹھا یا جا ئے گا کہ اس (کے بدن) پر تار کول کا لباس اور خارش کی قمیص ہو گی ۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
امت میں چار عادات واطوار، جاہلیت کے ادوار وعادات سے کسی نہ کسی شکل میں باقی رہیں گی مجموعی حیثیت سے تمام لوگ ان سے باز نہیں آئیں گے، اگرچہ بہت سے لوگ ان سے بچ جائیں گے، اور آپﷺ کی یہ پیش گوئی حرف بحرف پوری ہورہی ہے۔ لوگ اپنے حسب ونسب پرفخر کرتے ہیں اور دوسرے کےحسب ونسب پر طعن کرتے ہیں۔ حالانکہ کسی خاندان میں پیدا ہونا انسان کا ذاتی اور اکتسابی کمال یا خوبی نہیں ہے۔ اگردنیوی طور پر اللہ تعالیٰ نے کسی کو اعلیٰ خاندان میں پیدا کردیا ہے تو یہ احسان وکرم ہے جو شکر وسپاس کا تقاضا کرتا ہے نہ کہ فخروگھمنڈ کے لائق ہے۔ اور بہت سی قوموں میں یہ عقیدہ موجود ہے کہ فلاں ستارہ فجر کے وقت مغرب میں ڈوبتا ہے اور اس کے مقابلہ میں دوسرا مشرق میں طلوع ہوتا ہے اور یہ اس کے طلوع وغروب کا نتیجہ ہے کہ بارش اترتی ہے۔حالانکہ بارش کے نزول میں اس کا کوئی دخل نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ اسے ایک علامت قراردیا جا سکتا ہے۔ جس سے بارش کا ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ اس طرح بعض خاندانوں میں نوحہ کرنا اور سینہ کوبی کرنا یا ندبہ کرنا عام ہے۔ بلکہ دینی گھرانے بھی اس لعنت سے محفوظ نہیں ہیں۔ جبکہ اس کی سزا اس قدر سنگین ہے کہ نوحہ کرنے والی کےتمام جسم پر خارش اور کھجلی مسلط کی جائے گی۔ اعاذنا اللہ منھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Malik al-Ash'ari reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: Among my people there are four characteristics belonging to pre-Islamic period which they do not abandon: boasting of high rank, reviling other peoples' genealogies, seeking rain by stars, and walling. And he (further) said: If the wailing woman does not repent before she dies, she will be made to stand on the Day of Resurrection wearing a garment of pitch and a chemise of mange.