صحیح مسلم
3. کتاب: پاکی کا بیان
30. باب: جب پیشاب یا کوئی اور نجاست مسجد میں لگ گئی ہوتواسے دھونا ضروری ہے اورزمین پانی سے پاک ہو جاتا ہے اس کے کھودنے کی ضرورت نہیں
صحيح مسلم
3. كتاب الطهارة
30. بَابُ وُجُوبِ غُسْلِ الْبَوْلِ وَغَيْرِهِ مِنَ النَّجَاسَاتِ إِذَا حَصَلَتْ فِي الْمَسْجِدِ، وَأَنَّ الْأَرْضَ تَطْهُرُ بِالْمَاءِ، مِنْ غَيْرِ حَاجَةٍ إِلَى حَفْرِهَا
Muslim
3. The Book of Purification
30. Chapter: The obligation to wash away urine and other impurities if they result in the Masjid, and the ground may be purified with water with no need to scrub it
باب: جب پیشاب یا کوئی اور نجاست مسجد میں لگ گئی ہوتواسے دھونا ضروری ہے اورزمین پانی سے پاک ہو جاتا ہے اس کے کھودنے کی ضرورت نہیں
)
Muslim:
The Book of Purification
(Chapter: The obligation to wash away urine and other impurities if they result in the Masjid, and the ground may be purified with water with no need to scrub it)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
630.
اسحاق بن ابی طلحہ نے روایت کیا، کہا: مجھ سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نےبیان کیا، وہ اسحاق کےچچا تھے، کہا: ہم مسجد میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اس دوران میں ایک بدوی آیا اور اس نے کھڑے ہو کر مسجد میں پیشاب کرنا شروع کر دیا تو رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں نےکہا: کیا کر رہے ہو؟ کیا کر رہے ہو؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے (درمیان میں) مت روکو، اسے چھوڑ دو۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نےاسے چھوڑ دیا حتی کہ اس نے پیشاب کر لیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے اسے بلایا اور فرمایا: ’’یہ مساجد اس طرح پیشاب یا کسی اور گندگی کے لیے نہیں ہیں، یہ تو بس اللہ تعالیٰ کے ذکر نماز اور تلاوت قرآن کے لیے ہیں۔‘‘ یا جو (بھی) الفاظ رسول اللہ ﷺ نے فرمائے۔ (انس رضی اللہ تعالی عنہ نے) کہا: پھر آپﷺ نے لوگوں میں سے ایک کو حکم دیا، وہ پانی کا ڈول لایا اور اسے اس پر بہا دیا۔
اسلام میں طہارت اور پاکیزگی کی اہمیت وفضیلت
طہارت کا مطلب ہے صفائی اور پاکیز گی۔ یہ نجاست کی ضد ہے۔ رسول اللہﷺ کو بعثت کے بعد آغاز کار میں جو احکام ملے اور جن کا مقصود اگلے مشن کے لیے تیاری کرنا اور اس کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کرنا تھا، وہ ان آیات میں ہیں: يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ (1) قُمْ فَأَنْذِرْ (2) وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ (3) وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (4) وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ (5) وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ (6) وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ (7) ”اے موٹا کپڑا لپیٹنے والے! اٹھیے اور ڈرایئے، اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے، اپنے کپڑے پاک رکھیے، پلیدی (بتوں) سے دور رہے، (اس لیے ) احسان نہ کیجیے کہ زیادہ حاصل کریں اور اپنے رب کی رضا کے لیے صبر کیجیے‘‘ (المدثر 71
اسلام کے ان بنیادی احکام میں کپڑوں کو پاک رکھنے اور ہر طرح کی جسمانی، اخلاقی اور روحانی ناپاکی سے دور رہنے کا حکم ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اللہ سے تعلق، ہدایت اور روحانی ارتقا کا سفر طہارت اور پاکیزگی سے شروع ہوتا ہے جبکہ گندگی تعفن اورغلاظت شیطانی صفات ہیں اور ان سے گمراہی ، ضلالت اور روحانی تنزل کا سفر شروع ہوتا ہے۔
وُضُوْ، وَضَائَة سے ہے جس کے معنی نکھار اور حسن و نظافت کے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالی کے سامنے حاضری کی تیاری یہی ہے کہ انسان نجس نہ ہو، طہارت کی حالت میں ہو اور مسنون طریقہ وضو سے اپنی حالت کو درست کرے اور خود کو سنوارے۔ وضوسے جس طرح ظاہری اعضاء صاف اور خوبصورت ہوتے ہیں، اسی طرح روحانی طور پر بھی انسان صاف ستھرا ہو کر نکھر جاتا ہے۔ ہر عضو کو دھونے سے جس طرح ظاہری کثافت اور میل دور ہوتا ہے بالکل اسی طرح وہ تمام گناہ بھی دھل جاتے ہیں جوان اعضاء کے ذریعے سے سرزد ہوئے ہوں ۔
مومن زندگی بھر اپنے رب کے سامنے حاضری کے لیے وضو کے ذریعے سے جس وَضَائَةَ کا اہتمام کرتا ہے قیامت کے روز وہ مکمل صورت میں سامنے آئے گی اور مومن غَرُّ مُعُجَّلُونَ (چمکتے ہوئے روشن چہروں اور چمکتے ہوئے ہاتھ پاؤں والے) ہوں گے۔
نظافت اور جمال کی یہ صفت تمام امتوں میں مسلمانوں کو ممتاز کرے گی۔ ایک بات یہ بھی قابل توجہ ہے کہ ماہرین صحت جسمانی صفائی کے حوالے سے وضو کے طریقے پرتعجب آمیر تحسین کا اظہار کرتے ہیں ۔ اسلام کی طرح اس کی عبادات بھی بیک وقت دنیا و آخرت اور جسم و روح کی بہتری کی ضامن ہیں۔ الله تعالی کے سامنے حاضری اور مناجات کی تیاری کی یہ صورت ظاہری اور معنوی طور پر انتہائی خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ہر ایک کے لیے آسان بھی ہے۔ جب وضو ممکن نہ ہو تو اس کا قائم مقام تیمم ہے، یعنی ایسی کوئی بھی صورت حال پیش نہیں آتی جس میں انسان اس حاضری کے لیے تیاری نہ کر سکے۔
اسحاق بن ابی طلحہ نے روایت کیا، کہا: مجھ سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نےبیان کیا، وہ اسحاق کےچچا تھے، کہا: ہم مسجد میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اس دوران میں ایک بدوی آیا اور اس نے کھڑے ہو کر مسجد میں پیشاب کرنا شروع کر دیا تو رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں نےکہا: کیا کر رہے ہو؟ کیا کر رہے ہو؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے (درمیان میں) مت روکو، اسے چھوڑ دو۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نےاسے چھوڑ دیا حتی کہ اس نے پیشاب کر لیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے اسے بلایا اور فرمایا: ’’یہ مساجد اس طرح پیشاب یا کسی اور گندگی کے لیے نہیں ہیں، یہ تو بس اللہ تعالیٰ کے ذکر نماز اور تلاوت قرآن کے لیے ہیں۔‘‘ یا جو (بھی) الفاظ رسول اللہ ﷺ نے فرمائے۔ (انس رضی اللہ تعالی عنہ نے) کہا: پھر آپﷺ نے لوگوں میں سے ایک کو حکم دیا، وہ پانی کا ڈول لایا اور اسے اس پر بہا دیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم مسجد میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اس دوران، اچانک ایک بدوی آیا، کھڑے ہو کر پیشاب کرنا شروع کر دیا، تو رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں نے کہا، رک جا، رک جا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کا بول درمیان میں مت کاٹو، اسے چھوڑو۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے اسے چھوڑ دیا، حتیٰ کہ اس نے پیشاب کر لیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے اسے بلایا اور فرمایا: ’’یہ مساجد پیشاب یا کسی اور گندگی کے مناسب نہیں، یہ تو بس اللہ تعالیٰ کے ذکر، نماز تلاوت قرآن کے لیے ہیں‘‘ یا جو الفاظ رسول اللہ ﷺ نے فرمائے، پھر آپﷺ نے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم میں سے ایک آدمی کو حکم دیا، وہ پانی کا ڈول لایا، اور اسے اس پر بہا دیا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
1۔ حدیث سے معلوم ہوا آدمی کا بول پلید ہے اور اگر مسجد ناپاک ہو جائے تو اسے فوراً دھو کر پاک کر لینا چاہیے۔ 2۔ ناواقف اور جاہل کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنا چاہیے نیز دو خرابیوں میں ایک کو اختیار کرتے وقت کم درجہ والی خرابی کو قبول کرنا چاہیے۔ 3۔ زمین پر اگر نجاست پڑی ہو تو اس کے ازالہ کے لیے اس پر پانی بہانا کافی ہے زمین کو کھودنے کی ضرورت نہیں ہے۔ 4۔ دوسری حدیث سے معلوم ہوا، جاہل کو مسئلہ نرمی اور پیار سے سمجھا دینا چاہیے۔ 5۔ مساجد بنانے کا اصل مقصد اللہ کا ذکر، نماز، وعظ ونصیحت، دین کی تعلیم اور تلاوت قرآن ہے۔ اور ان کو ہر اس کام سے بچنا چاہیے۔ جو مساجد کی عظمت وتقدس کے منافی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Anas bin Malik (RA) reported: While we were in the mosque with Allah's Messenger (ﷺ) , a desert Arab came and stood up and began to urinate in the mosque. The Companions of Allah's Messenger (ﷺ) said: Stop, stop, but the Messenger of Allah (ﷺ) said: Don't interrupt him; leave him alone. They left him alone, and when he finished urinating, Allah's Messenger (ﷺ) called him and said to him: These mosques are not the places meant for urine and filth, but are only for the remembrance of Allah, prayer and the recitation of the Qur'an, or Allah's Messenger said something like that. He (the narrator) said that he (the Holy Prophet) then gave orders to one of the people who brought a bucket of water and poured It over.