تشریح:
(1) سورج گرہن کے وقت عذاب قبر سے ڈرانے میں یہ مناسبت ہے کہ جس طرح گرہن کے وقت اندھیرا چھا جاتا ہے اسی طرح بدکاروں اور گناہ گاروں کی قبروں میں بھی اندھیرا ہو گا، اس لیے سورج گرہن کے وقت اندھیرے اور قبر کی تاریکی دونوں سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ (فتح الباري:694/2) حضرت عائشہ ؓ کا ذہن تھا کہ ثواب و عقاب آخرت میں ہو گا۔ پہلے انہیں عذاب قبر کے متعلق علم نہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے بتانے کے بعد انہیں علم ہوا کہ عذاب قبر برحق ہے۔ ممکن ہے کہ یہودی عورت کو تورات یا پہلی کتابوں سے عذاب قبر کے متعلق معلومات حاصل ہوئی ہوں، چنانچہ حدیث میں ہے کہ جب یہودی عورت نے حضرت عائشہ ؓ سے عذاب قبر کے متعلق سوال کیا تو حضرت عائشہ نے اس کا انکار کر دیا۔ اس نے کہا کہ اپنے نبی ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کرنا۔ رسول اللہ ﷺ جب تشریف لائے تو آپ نے اس کے متعلق سوال کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’عذابِ قبر برحق ہے۔‘‘ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ ہر نماز کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگتے تھے۔ (عمدة القاري:319/5) (3) واضح رہے کہ اس دن رسول اللہ ﷺ کے لخت جگر حضرت ابراہیم ؓ فوت ہوئے تھے۔ آپ کفن دفن کے سلسلے میں سواری پر سوار ہو کر گئے تھے۔ چاشت کے وقت نماز کسوف کا اہتمام مسجد میں کیا۔ صحیح مسلم کی روایت میں مسجد کی صراحت ہے کہ آپ نے آتے ہی مسجد کا رخ کیا اور نماز کسوف پڑھائی۔ (صحیح البخاري، الکسوف، حدیث:1059، و صحیح مسلم، الکسوف، حدیث:2098 (903))