تشریح:
1۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جوباتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط منسوب کی گئی ہیں، خواہ وہ ترغیب وترہیب سے متعلق ہوں یا احکام ومسائل سے، ان کا بیان کرنا جہنم میں جانے کا پیش خیمہ ہے، لہٰذا روایات قولی ہوں یا فعلی، قائل کو پورے احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ خاص طور پر موضوع اور خود ساختہ روایات کا بیان کرنا کسی صورت میں جائز نہیں، صرف بتانے کے لیے نقل کی جاسکتی ہیں کہ یہ بے اصل اور بے بنیاد ہیں۔ اسی طرح ضعیف روایات کو بھی ایسے انداز میں پیش کرنا کہ سننے والے انھیں صحیح سمجھ بیٹھیں اور ان پر عمل کرنا ضروری قراردے لیں، یہ انداز بھی درست نہیں ہے۔
2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی یہ حدیث پہلی ثلاثی حدیث ہے۔ ثلاثی حدیث وہ ہوتی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور امام یا محدث کے درمیان صرف تین واسطے ہوں۔صحیح بخاری کی جن روایات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ تک تین راوی ہیں انھیں ثلاثیات بخاری کہاجاتاہے۔ صحیح بخاری میں ان کی تعداد تئیس ہے۔یہ فضیلت اما م بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ اور کسی ہم عصر کو نصیب نہیں ہوئی۔ بعض لوگ ثنائیات ابی حنیفہ کاذکر کرتے ہیں۔ حالانکہ فن حدیث میں حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی کوئی کتاب دنیا میں موجود نہیں ہے۔ ﴿ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ﴾