تشریح:
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا ہر صورت میں حرام ہے، خواہ اس کا تعلق بیداری سے ہو یا نیند ہے۔ نیند میں جھوٹ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص نہ دیکھنے کے باوجود کہے کہ میں نے آپ کوخواب میں دیکھا ہے۔ اول تو جھوٹ کسی معاملے میں جائز ہی نہیں۔ اگراس کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے ہو تو اس کی سنگینی حرمت اور بڑھ جاتی ہے۔ احادیث میں ہے کہ جھوٹے خواب بیان کرنے والے کے سامنے قیامت کے دن جوڈالے جائیں گے اور اس سے کہا جائے گا کہ ان میں لگاؤ۔ (أعاذنا الله منه). خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کی سعادت ایسی صورت میں بابرکت ہوسکتی ہے جبکہ خواب میں دیکھا ہوا حلیہ کتب حدیث میں موجود آپ کے حلیہ مُبارک کے مطابق ہو۔آپ کے حلیہ مبارکہ کے متعلق مستند کتاب۔"الرسول كأنك تراه" بہت مفید ہے،جس کااردو ترجمہ راقم کے قلم سے’’آئینہ جمال نبوت‘‘ کے نام سے دارالسلام نے شائع کیا ہے۔
2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث کے بیان کرنے میں ایک خاص ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے: پہلی حدیث حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے کی سنگینی کو بیان کیا گیا ہے اور یہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کے عین مطابق ہے۔ دوسری حدیث حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کردہ ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حدیث کونقل کرنے میں کس قدر احتیاط کرتے تھے۔ تیسری حدیث حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے۔ اس میں احتیاط کی تشریح کی گئی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کثرت سے بیان کرنے میں احتیاط کرتے تھے، بالکل بیان نہ کرنا ان کا مقصد نہ تھا۔ آخری حدیث جو ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےمروی ہے، اس میں اشارہ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا ہر صورت میں حرام ہے، خواہ اس کا تعلق بیداری سے ہو یا نیند سے۔ (فتح الباري: 268/1)