تشریح:
اس روایت میں زوال آفتاب کے بعد سفر شروع کرنے کی صورت میں صرف نماز ظہر پڑھنے کا ذکر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دو نمازوں کو جمع کرنے کی یہ صورت ہے کہ پہلی نماز کو دوسری نماز کے وقت میں ادا کیا جاتا ہے جسے اصطلاح میں جمع تاخیر کہتے ہیں۔ امام بخاری ؒ کا رجحان بھی یہی معلوم ہوتا ہے لیکن اس روایت کو جب امام اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا ہے تو اس کے الفاظ یہ ہیں: رسول اللہ ﷺ اگر سفر میں ہوتے اور سورج ڈھل جاتا تو ظہر اور عصر کو ملا کر پڑھ لیتے پھر سفر کا آغاز کرتے۔ اس روایت کا تقاضا ہے کہ جمع تقدیم بھی جائز ہے۔ اس کی تائید ایک دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے جسے امام حاکم ؒ نے اربعین میں بیان کیا ہے کہ اگر کوچ کرنے سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو ظہر اور عصر کو جمع کرتے اور پھر سوار ہوتے۔ اسے اسحاق بن راہویہ کی روایت کے لیے بطور متابعت پیش کیا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري:753/2) جمع تقدیم کے لیے حضرت معاذ بن جبل ؓ کی روایت بھی بطور دلیل پیش کی جاتی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ زوال آفتاب کے بعد سفر کا ارادہ فرماتے تو ظہر اور عصر کو اکٹھا ادا فرما لیتے۔ (مسند أحمد:241/5) رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ تبوک کے موقع پر ایسا کیا تھا۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:163/3) حضرت انس بن مالک ؓ سے بھی اس طرح کی ایک روایت مروی ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:164/3) حضرت ابن عباس ؓ سے بھی اس طرح کی ایک روایت مروی ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:164/3) حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی پسندیدہ جگہ پر پڑاؤ کرتے تو ظہر اور عصر ملا کر پڑھ لیتے، پھر سفر کا آغاز کرتے اور اگر مناسب جگہ میسر نہ آتی تو اپنے سفر کو جاری رکھتے، پھر کسی مناسب مقام پر اتر کر ظہر اور عصر کو جمع کر کے ادا فرما لیتے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:163/3) اس کے تمام راوی ثقہ ہیں لیکن اس کے مرفوع ہونے میں شک ہے، تاہم امام بیہقی ؒ نے اس روایت کو بڑے جزم و وثوق کے ساتھ موقوف بھی بیان کیا ہے۔ واضح رہے کہ دوران سفر میں نمازوں کو جمع کرنے کے علاوہ بارش، بیماری یا کسی دوسری ہنگامی ضرورت کے پیش نظر بھی جمع کیا جا سکتا ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:169/3) الغرض نمازوں کو ناگزیر قسم کے حالات اور شدید مجبوری کی صورت میں تو جمع کیا جا سکتا ہے جیسا کہ سفر، خوف، بیماری، بارش، سخت آندھی یا کسی ہنگامی ضرورت کے وقت دو نمازیں جمع کی جاتی ہیں، تاہم شدید ضرورت کے بغیر دو نمازوں کو جمع کرنا جائز نہیں، جیسا کہ ہمارے کاروباری حضرات کا عام معمول ہے کہ وہ سستی یا کاروباری مصروفیت کی وجہ سے ایسا کر لیتے ہیں۔ یہ صحیح نہیں بلکہ سخت گناہ ہے۔ بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ عذر کے بغیر نمازوں کو جمع کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ (فتح الباري:753/2) اس سلسلے میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ بلا عذر نمازوں کو جمع کیا تھا، حالانکہ اس روایت میں منقول عذر کی وضاحت موجود ہے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1636(705))