قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ العِلْمِ (بَابُ كِتَابَةِ العِلْمِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

112. حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ الفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ خُزَاعَةَ قَتَلُوا رَجُلًا مِنْ بَنِي لَيْثٍ - عَامَ فَتْحِ مَكَّةَ - بِقَتِيلٍ مِنْهُمْ قَتَلُوهُ، فَأُخْبِرَ بِذَلِكَ النَّبِيُّ صلّى الله عليه وسلم، فَرَكِبَ رَاحِلَتَهُ فَخَطَبَ، فَقَالَ: «إِنَّ اللَّهَ حَبَسَ عَنْ مَكَّةَ القَتْلَ، أَوِ الفِيلَ» - قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ كَذَا، قَالَ أَبُو نُعَيْمٍ وَاجْعَلُوهُ عَلَى الشَّكِّ الفِيلَ أَوِ القَتْلَ وَغَيْرُهُ يَقُولُ الفِيلَ - وَسَلَّطَ عَلَيْهِمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالمُؤْمِنِينَ، أَلاَ وَإِنَّهَا لَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِي، وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ بَعْدِي، أَلاَ وَإِنَّهَا حَلَّتْ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، أَلاَ وَإِنَّهَا سَاعَتِي هَذِهِ حَرَامٌ، لاَ يُخْتَلَى شَوْكُهَا، وَلاَ يُعْضَدُ شَجَرُهَا، وَلاَ تُلْتَقَطُ سَاقِطَتُهَا إِلَّا لِمُنْشِدٍ، فَمَنْ قُتِلَ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ: إِمَّا أَنْ يُعْقَلَ، وَإِمَّا أَنْ يُقَادَ أَهْلُ القَتِيلِ . فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ اليَمَنِ فَقَالَ: اكْتُبْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: «اكْتُبُوا لِأَبِي فُلاَنٍ». فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ: إِلَّا الإِذْخِرَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنَّا نَجْعَلُهُ فِي بُيُوتِنَا وَقُبُورِنَا؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِلَّا الإِذْخِرَ إِلَّا الإِذْخِرَ»

مترجم:

112.

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے سال خزاعہ نے بنولیث کے ایک شخص کو اپنے اس مقتول کے بدلے میں قتل کر دیا جسے بنو لیث نے قتل کیا تھا۔ نبی ﷺ کو اس کی اطلاع دی گئی، آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور ایک خطبہ دیا: ’’اللہ تعالیٰ نے مکے سے قتل یا فیل (ہاتھی) کو روک دیا۔ امام بخاری نے کہا: ابو نعیم نے ایسے ہی (شک کے ساتھ) کہا ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ اور اہل ایمان کو ان (کافروں) پر غالب کر دیا گیا۔ خبردار! مکہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں ہوا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہو گا۔ آگاہ رہو! یہ میرے لیے بھی دن میں ایک گھڑی کے لیے حلال ہوا تھا۔ خبردار! وہ اس وقت بھی حرام ہے۔ وہاں کے کانٹے نہ کاٹے جائیں، نہ اس کے درخت قطع کیے جائیں، اعلان کرنے والے کے علاوہ وہاں کی گری ہوئی چیز کوئی نہ اٹھائے۔ اور جس کا کوئی عزیز مارا جائے، اسے دو میں سے ایک کا اختیار ہے: دیت قبول کر لے یا قصاص دلوایا جائے۔‘‘ اتنے میں ایک یمنی شخص آیا اور اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! (یہ مسائل) مجھے لکھ دیجیے۔ آپ نے فرمایا: ’’اچھا ابو فلاں کو لکھ دو۔‘‘ قریش کے ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اذخر اذخر (خوشبو دار گھاس، یعنی اس کے کاٹنے کی اجازت دیجیے)، اس لیے کہ ہم اسے اپنے گھروں اور قبروں میں استعمال کرتے ہیں۔ تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں مگر اذخر ۔ یعنی وہ کاٹ سکتے ہو۔‘‘