تشریح:
(1) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ مسجد میں اس وقت رہائش پذیر تھے جب ان کا اپنا مکان وغیرہ نہیں تھا۔ وہ خود فرماتے ہیں کہ میں نے بارش اور دھوپ سے بچاؤ کے لیے اپنا مکان بنایا، لیکن اس کی تعمیر میں کسی نے بھی میرے ساتھ کوئی تعاون نہ کیا۔ (سنن ابن ماجة، الزھد، حدیث:4182) اس خواب کے ذریعے سے انہیں خبردار کیا گیا کہ جس مسجد میں تم رہائش رکھتے ہو کم از کم نماز تہجد پڑھ کر اس کا حق تو ادا کرو۔ (فتح الباري:11/3)
(2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے نماز تہجد کی فضیلت ثابت کی ہے، کیونکہ اس کی پابندی کرنا دوزخ سے نجات کا ذریعہ ہے۔ شاید امام بخاری کے ہاں ایسی کوئی حدیث صحیح نہیں تھی جس میں صراحت کے ساتھ نماز تہجد کی فضیلت ثابت ہو۔ صحیح مسلم میں ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’فرض نماز کے بعد نماز تہجد بہت فضیلت والی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2755(1163))
(3) حضرت سالم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی تنبیہ کے بعد حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے نماز تہجد کا اس قدر اہتمام کیا کہ رات کو بہت کم سوتے تھے۔ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم، حدیث:3739)