تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ زمانہ نبوی میں کتابت احادیث کا عمل جاری ہوچکا تھا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی درخواست پر انھیں احادیث لکھنے کی اجازت دی تھی، چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم آپ کی بہت سی احادیث سنتے ہیں لیکن یاد نہیں کر پاتے، کیا ہم انھیں لکھ لیا کریں؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں،ضرور لکھ لیا کرو۔‘‘(مسنداحمد: 215/1) ایک روایت میں ہے کہ انھو ں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا آپ کی خوشی اور غصہ دونوں حالتوں کی باتیں لکھ لیا کروں؟ آپ نے ارشاد فرمایا:’’ہاں۔میں دونوں حالتوں میں حق اوردرست بات ہی کہتاہوں۔‘‘(مسند احمد: 207/2) ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو آپ کی ہر بات لکھ لیا کرتے تھے، قریش نے ان سے کہا: آپ جو کچھ سنتے ہیں لکھ لیتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بشر ہیں، آپ کبھی غصے میں ہوتے ہیں کبھی خوشی میں، حضرت عبداللہ بن عمرو نے یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا تو آپ نے اپنی دہن مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ’’مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میری اس زبان سے حق کے سوا کوئی بات نہیں نکلتی،لہذا تم لکھتے رہو۔‘‘(مسند احمد: 162/2)
2۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر جو مجموعہ احادیث تیار کیا تھا، اس کا نام (الصحیفة الصادقة) تجویز کیا تھا۔اس کی تائید درج ذیل واقعے سے بھی ہوتی ہے: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے کچھ لوگوں نے سوال کیا کہ کون سا شہر پہلے فتح ہوگا: قسطنطنیہ یا رومیہ؟ اس پر انھوں نےایک پرانا صندوق منگوایا، اس سے ایک کتاب نکال کر اس پر ایک نظر ڈالی، پھر فرمایا: ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے اور جو کچھ آپ فرمارہے تھے۔ ہم لکھتے جارہے تھے۔ اسی اثناء میں آپ سے سوال ہوا کہ کون سا شہر پہلے فتح ہوگا: قسطنطنیہ یا رومیہ؟ اس پر آپ نے فرمایا: ’’ہرقل کا شہر، یعنی قسطنطنیہ پہلے فتح ہوگا۔‘‘(مسند احمد: 176/2) یہ نسخہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے خاندان کے پاس عرصے تک محفوظ رہا، چنانچہ ان کے پوتے حضرت عمرو بن شعیب اس صحیفے کو ہاتھ میں رکھ کر روایت کرتے اور درس دیتے تھے۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اس نسخے کو اپنی مسند میں مدغم فرما کر ہمارے لیے محفوظ فرما دیا جسے آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس تفصیل سے منکرین حدیث کے اس خیال کی تردید ہوتی ہے کہ حدیث کی تدوین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اڑھائی سوسال بعد ہوئی ہے، اس بنا پر قابل وثوق نہیں۔ یہ ان حضرات کی خام خیالی ہے۔
3۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ احادیث لکھا نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے حافظے میں انھیں محفوظ کرلیتے تھے، جبکہ حسن بن عمرو بن امیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک حدیث ذکر کی تو انھوں نے کچھ تردد کا اظہار کیا، چنانچہ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر گھر لے گئے اور ہمیں بہت سی کتابیں دکھائیں، جو انھوں نے احادیث سے مرتب کی تھیں، کتابیں دیکھنے کے بعد وہ حدیث مل گئی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ احادیث لکھتے تھے۔ ممکن ہے کہ انھوں نے کتابت حدیث کا سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد شروع کیا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انھوں نے کسی دوسرے شخص سے مرتب کرائی ہوں۔ (فتح الباري: 274/1)
4۔ اس حدیث کو ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کرنے والے ان کے ایک ہونہار شاگرد حضرت ہمام بن منبہ ہیں جو حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وطن مالوف یمن ہی کے باشندے تھے۔ جب وہ حصول تعلیم کے لیے مدینہ منورہ آئے تو اپنے ممتاز ہم وطن حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس حاضر ہوئے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس نوجوان ہم وطن کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈیڑھ سواحادیث کا انتخاب کیا جو تربیت اخلاق سے متعلق تھیں۔ ان احادیث کو مرتب کر کے اپنے شاگرد حضرت ہمام کو لکھوا دیا اور اس کا نام (الصحیفة الصحیحة) تجویز کیا۔ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اگر کسی صحابی کی حدیث دانی پر رشک تھا تو وہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما تھے جنھوں نے (الصحیفة الصادقة) کے نام سے احادیث کا ایک مجموعہ تیارکیا تھا۔ ممکن ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی دیکھا دیکھی اپنی تالیف کا نام (الصحیفة الصحیحة) رکھا ہو۔ بہرحال حضرت ہمام بن منبہ نے اپنے استاد حضرت ابوہریره رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے احادیث کا جو مجموعہ حاصل کیا تھا، اسے نہ تو ضائع کیا اور نہ اپنی ذات تک محدود رکھا بلکہ اپنی پیرانہ سالی تک اس کی روایت وتدریس کا مشغلہ جاری رکھا۔ خوش قسمتی سے انھیں ایک صاحب ذوق شاگرد معمر بن راشد یمنی مل گئے جنھوں نے اس رسالے کو اپنے شاگردوں تک پہنچایا، پھر انھیں بھی ایک شاگرد حضرت عبدالرزاق بن ہمام حمیری مل گئے جنھوں نے المصنف نامی ایک ضخیم کتاب مرتب فرمائی۔ انھوں نے اس کی روایت کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کے لیے دو شاگرد صدقہ جاریہ ثابت ہوئے: ایک امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے ابوالحسن احمد بن یوسف السلمی۔ ان دونوں حضرات نے صحیفہ ہمام کی بڑی خدمت انجام دی۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی عظیم کتاب"المسند" میں اس صحیفے کو شامل کرلیا۔ جب تک مسند امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ دنیا میں باقی ہے یہ صحیفہ بھی باقی رہے گا۔ یہ صحیفہ دستیاب نہ تھا، بالآخر دستیاب ہوگیا جس پر ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم نے بڑی عرق ریزی سے کام کرکے اسے شائع کردیا۔ اب جو لوگ محدثین کرام کو جعلساز قرار دیتے ہیں، ان کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ یہ لوگ اس صحیفے کے مندرجات پر غور وفکر کی زحمت گوارا کریں، شاید انھیں توبہ کی توفیق مل جائے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے آخر میں ایک دوسری سند کا حوالہ دیا ہے۔ دراصل انھوں نے رائی سے پہاڑ کی طرف اشارہ دیا ہے۔ اس پر بہت کچھ لکھا جاسکتاہے مگر تنگی دامن کی وجہ سے ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔
6۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک اور تالیف کا بھی کتب حدیث سے سراغ ملتا ہے۔ ان کے شاگرد حضرت نہیک بن بشیر کا بیان ہے کہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جوکچھ سنتا تھا اسے تحریر کر لیتا تھا۔ جب میں نے اپنی تعلیم مکمل کر لی اور ان سے رخصت ہونا چاہا توان کے پاس ان کی کتاب لایا اور انھیں پڑھ کر سنائی اوران سے عرض کیا: یہ وہی چیز ہے جو میں نے آپ سے سنی ہے، انھوں نے اس کی تصدیق فرمائی۔ (سنن الدارمي، حدیث: 498 ورجاله ثقات)
7۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے احادیث کے متعلق جن خیالات کا اظہار فرمایا، وہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کی کتابت حدیث کہ وجہ سے تھا کیونکہ استاد کے ارشادات لکھنے والے کے پاس عام طور پر ارشادات کا ذخیرہ زیادہ جمع ہوجاتا ہے لیکن جب محدثین کرام نے جانچ پڑتال کی تو معاملہ بالکل اس کےبرعکس نکلا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مرویات حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے کہیں زیادہ ہیں۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تقریباً آٹھ سو تلامذہ نے کسب فیض کیا ہے اور یہ علمی برتری ان کے علاوہ کسی اور صحابی کو نہیں ملی۔ محدثین کرام نے اس کے مختلف اسباب ذکر فرمائے ہیں جن کا خلاصہ حسب ذیل ہے: (1)۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مرکزعلم وعرفان مدینہ منورہ میں اپنے آپ کو تعلیم وتعلم کے لیے وقف کر رکھا تھا جبکہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما مدینہ منورہ سے مصر چلے گئےتھے جسے علمی لحاظ سے مرکزیت حاصل نہ تھی، اس لیے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہت کم روایات منقول ہیں۔ (2)۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا رجحان طبعی طور پر کثرت عبادت کی طرف رہا۔ آپ عبادت زیادہ کرتے تھے اور تعلبم وتدریس میں مشغولیت بہت کم ہوتی تھی جبکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کارجحان تعلیم وتدریس کی طرف تھا۔ حصول تعلیم کے ایام میں بھی آپ کا یہ حال تھا۔ اسی بناء پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مرویات بہت زیادہ ہیں۔ (3)۔ شام میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کو اہل کتاب کی کتابوں کا ایک ذخیرہ مل گیا تھا، آپ انھی کے مطالعے میں مصروف رہتے اور ان سے روایات بھی بیان کرتے تھے۔ اسی بنا پر بہت سے تابعین رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے روایات لینے کا سلسلہ بند کردیا۔ (4)۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا حاصل تھی جس کی برکت سے ان کے علوم اور ان کی روایات کو سب سے زیادہ فروغ حاصل ہوا اور یہ شرف حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کو حاصل نہ ہوسکا۔ (فتح الباري: 274/1) مختصر یہ کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حصول تعلیم اور اشاعت تعلیم پر زیادہ وقت لگایا اور اپنے قیام کے لیے مرکزی جگہ کا انتخاب کیا جبکہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا رجحان تعلیم وتدریس کی طرف زیادہ نہ تھا اور نہ انھوں نے مرکزی جگہ پر قیام ہی اختیار فرمایا۔ اس بنا پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایات زیادہ ہیں جن کی تعداد 5 ہزار سے زیادہ ہے۔ اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی روایات تعداد میں اس درجے کو نہ پہنچ سکیں۔ (ان کی روایات 700 سے زائد نہیں) واللہ أعلم۔