باب:اس بیان میں کہ رسول کریمﷺپر جھوٹ باندھنے والے کا گناہ کس درجے کا ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: The sin of a person who tells a lie against the Prophet (saws))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
113.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: ’’میرے نام (محمد اور احمد) پر نام رکھو مگر میری کنیت (ابوالقاسم) پر کنیت نہ رکھو۔ اور یقین کرو جس نے مجھے خواب میں دیکھا، اس نے یقیناً مجھ ہی کو دیکھا ہے، کیونکہ شیطان میری صورت میں نہیں آ سکتا۔ اور جو دانستہ مجھ پر جھوٹ باندھے، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔‘‘
تشریح:
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا ہر صورت میں حرام ہے، خواہ اس کا تعلق بیداری سے ہو یا نیند ہے۔ نیند میں جھوٹ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص نہ دیکھنے کے باوجود کہے کہ میں نے آپ کوخواب میں دیکھا ہے۔ اول تو جھوٹ کسی معاملے میں جائز ہی نہیں۔ اگراس کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے ہو تو اس کی سنگینی حرمت اور بڑھ جاتی ہے۔ احادیث میں ہے کہ جھوٹے خواب بیان کرنے والے کے سامنے قیامت کے دن جوڈالے جائیں گے اور اس سے کہا جائے گا کہ ان میں لگاؤ۔ (أعاذنا الله منه). خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کی سعادت ایسی صورت میں بابرکت ہوسکتی ہے جبکہ خواب میں دیکھا ہوا حلیہ کتب حدیث میں موجود آپ کے حلیہ مُبارک کے مطابق ہو۔آپ کے حلیہ مبارکہ کے متعلق مستند کتاب۔"الرسول كأنك تراه" بہت مفید ہے،جس کااردو ترجمہ راقم کے قلم سے’’آئینہ جمال نبوت‘‘ کے نام سے دارالسلام نے شائع کیا ہے۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث کے بیان کرنے میں ایک خاص ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے: پہلی حدیث حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے کی سنگینی کو بیان کیا گیا ہے اور یہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کے عین مطابق ہے۔ دوسری حدیث حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کردہ ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حدیث کونقل کرنے میں کس قدر احتیاط کرتے تھے۔ تیسری حدیث حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے۔ اس میں احتیاط کی تشریح کی گئی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کثرت سے بیان کرنے میں احتیاط کرتے تھے، بالکل بیان نہ کرنا ان کا مقصد نہ تھا۔ آخری حدیث جو ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےمروی ہے، اس میں اشارہ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا ہر صورت میں حرام ہے، خواہ اس کا تعلق بیداری سے ہو یا نیند سے۔ (فتح الباري: 268/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
112
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
110
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
110
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
110
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: ’’میرے نام (محمد اور احمد) پر نام رکھو مگر میری کنیت (ابوالقاسم) پر کنیت نہ رکھو۔ اور یقین کرو جس نے مجھے خواب میں دیکھا، اس نے یقیناً مجھ ہی کو دیکھا ہے، کیونکہ شیطان میری صورت میں نہیں آ سکتا۔ اور جو دانستہ مجھ پر جھوٹ باندھے، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا ہر صورت میں حرام ہے، خواہ اس کا تعلق بیداری سے ہو یا نیند ہے۔ نیند میں جھوٹ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص نہ دیکھنے کے باوجود کہے کہ میں نے آپ کوخواب میں دیکھا ہے۔ اول تو جھوٹ کسی معاملے میں جائز ہی نہیں۔ اگراس کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے ہو تو اس کی سنگینی حرمت اور بڑھ جاتی ہے۔ احادیث میں ہے کہ جھوٹے خواب بیان کرنے والے کے سامنے قیامت کے دن جوڈالے جائیں گے اور اس سے کہا جائے گا کہ ان میں لگاؤ۔ (أعاذنا الله منه). خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کی سعادت ایسی صورت میں بابرکت ہوسکتی ہے جبکہ خواب میں دیکھا ہوا حلیہ کتب حدیث میں موجود آپ کے حلیہ مُبارک کے مطابق ہو۔آپ کے حلیہ مبارکہ کے متعلق مستند کتاب۔"الرسول كأنك تراه" بہت مفید ہے،جس کااردو ترجمہ راقم کے قلم سے’’آئینہ جمال نبوت‘‘ کے نام سے دارالسلام نے شائع کیا ہے۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث کے بیان کرنے میں ایک خاص ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے: پہلی حدیث حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے کی سنگینی کو بیان کیا گیا ہے اور یہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کے عین مطابق ہے۔ دوسری حدیث حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کردہ ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حدیث کونقل کرنے میں کس قدر احتیاط کرتے تھے۔ تیسری حدیث حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے۔ اس میں احتیاط کی تشریح کی گئی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کثرت سے بیان کرنے میں احتیاط کرتے تھے، بالکل بیان نہ کرنا ان کا مقصد نہ تھا۔ آخری حدیث جو ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےمروی ہے، اس میں اشارہ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا ہر صورت میں حرام ہے، خواہ اس کا تعلق بیداری سے ہو یا نیند سے۔ (فتح الباري: 268/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ نے بیان کیا، ان سے ابوعوانہ نے ابی حصین کے واسطہ سے نقل کیا، وہ ابوصالح سے روایت کرتے ہیں، وہ ابوہریرہ ؓ سے وہ رسول اللہ ﷺ سے کہ (اپنی اولاد) کا میرے نام کے اوپر نام رکھو۔ مگر میری کنیت اختیار نہ کرو اور جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا تو بلاشبہ اس نے مجھے دیکھا۔ کیونکہ شیطان میری صورت میں نہیں آ سکتا اور جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے وہ دوزخ میں اپنا ٹھکانہ تلاش کرے۔
حدیث حاشیہ:
ان مسلسل احادیث کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوگ غلط بات منسوب کرکے دنیا میں خلق کو گمراہ نہ کریں۔ یہ حدیثیں بجائے خود اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ عام طور پر احادیث نبوی کا ذخیرہ مفسد لوگوں کے دست برد سے محفوظ رہا ہے اور جتنی احادیث لوگوں نے اپنی طرف سے گھڑ لیں تھیں ان کو علماءحدیث نے صحیح احادیث سے الگ چھانٹ دیا اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی واضح فرما دیا کہ خواب میں اگر کوئی شخص میری صورت دیکھے تووہ بھی صحیح ہونی چاہئیے، کیونکہ خواب میں شیطان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں نہیں آ سکتا۔ موضوع اور صحیح احادیث کو پرکھنے کے لیے اللہ پاک نے جماعت محدثین خصوصاً حضرت امام بخاری و مسلم رحمۃ اللہ علیہما جیسے اکابر امت کو پیدا فرمایا۔ جنھوں نے اس فن کی وہ خدمت کی کہ جس کی امم سابقہ میں نظیر نہیں مل سکتی، علم الرجال وقوانین جرح وتعدیل وہ ایجاد کئے کہ قیامت تک امت مسلمہ ان پر فخر کیا کرے گی مگر صدافسوس کہ آج چودہویں صدی میں کچھ ایسے بھی متعصب مقلد جامد وجود میں آگئے ہیں جو خود ان بزرگوں کو غیرفقیہ ناقابل اعتماد ٹھہرا رہے ہیں، ایسے لوگ محض اپنے مزعومہ تقلیدی مذاہب کی حمایت میں ذخیرہ احادیث نبوی کو مشکوک بناکر اسلام کی جڑوں کوکھوکھلا کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ ان کو نیک سمجھ دے۔ آمین۔ یہ حقیقت ہے کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کو غیرفقیہ زود رنج بتلانے والے خود بے سمجھ ہیں جو چھوٹا منہ اور بڑی بات کہہ کر اپنی کم عقلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس مقام کی تفصیل میں جاتے ہوئے صاحب انوارالباری نے جماعت اہل حدیث اور اکابر اہل حدیث کو باربار لفظ جماعت غیرمقلدین سے جس طنز وتوہین کے ساتھ یاد کیا ہے وہ حد درجہ قابل مذمت ہے مگرتقلید جامد کا اثر ہی یہ ہے کہ ایسے متعصب حضرات نے امت میں بہت سے اکابر کی توہین وتخفیف کی ہے۔ قدیم الایام سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ معاندین نے توصحابہ کو بھی نہیں چھوڑا۔ حضرت ابوہریرہ، عقبہ بن عامر، انس بن مالک وغیرہ رضی اللہ عنہم کو غیر فقیہ ٹھہرایا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Name yourselves with my name (use my name) but do not name yourselves with my Kunya name (i.e. Abu-l Qasim). And whoever sees me in a dream then surely he has seen me for Satan cannot impersonate me. And whoever tells a lie against me (intentionally), then (surely) let him occupy his seat in Hell-fire."