باب: اس بارے میں جو سحری کھانے کے بعد صبح کی نماز پڑھنے تک نہیں سویا۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayer at Night (Tahajjud)
(Chapter: Whoever took the Suhur and did not sleep before offering Fajr prayers)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1147.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ اور حضرت زید بن ثابت ؓ نے سحری کھائی۔ جب اس سے فارغ ہوئے تو اللہ کے نبی ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور نماز ادا کی۔ ہم نے حضرت انس ؓ سے سوال کیا کہ ان کے سحری سے فراغت اور نماز شروع کرنے میں کتنا وقت تھا؟ انہوں نے فرمایا: تقریبا اتنی دیر جس میں کوئی شخص پچاس آیات کی تلاوت کر سکے۔
تشریح:
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا رمضان المبارک میں معمول بیان ہوا ہے کہ عام دنوں میں آپ سحری کے وقت سوئے رہتے تھے، پھر اٹھ کر صبح کی نماز پڑھتے تھے، لیکن رمضان المبارک میں سحری سے فراغت کے بعد صبح کی نماز کی تیاری میں مصروف ہو جاتے اور پھر نماز ادا فرماتے۔ صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں یہ عنوان بایں الفاظ ہے: ’’جس نے سحری کی، پھر نماز کے لیے تیار ہوا اور نماز صبح ادا کرنے تک نہ سویا۔‘‘ (عمدةالقاري:366/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1110
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1134
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1134
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1134
تمہید کتاب
تہجد، ہجود سے ہے جس کے لغوی معنی سونا اور سو کر بیدار ہونا دونوں ہیں۔ چونکہ نماز تہجد سو کر اٹھنے کے بعد رات کے آخری حصے میں پڑھی جاتی ہے، اس لیے اسے تہجد کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے بعض لوگ قبل از نیند رات کے نوافل کو تہجد قرار نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک تہجد وہی ہے جو سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی جائے۔ لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں۔ تاہم عام لوگوں کے لیے بھی، جن کے لیے رات کو بیدار ہونا باعث مشقت اور طبیعت پر گراں ہوتا ہے، یہ خوش خبری ہے کہ اگر کوئی شخص نماز عشاء کے متصل وتر کے بعد دو رکعت پڑھ کر سو جائے اور رات کو وہ بیدار نہ بھی ہو سکے تو وہی دو رکعت اس کے لیے قیام اللیل اور تہجد کی جگہ کافی ہوں گی۔(سنن الدارمی،الصلاۃ،حدیث:1801)فرائض پنجگانہ کے بعد اس نماز کی بہت اہمیت و فضیلت ہے۔ دراصل نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان کے طویل وقفے میں کوئی نماز فرض نہیں کی گئی، حالانکہ یہ وقت اس اعتبار سے نہایت قیمتی ہوتا ہے کہ اس میں پرسکون لمحات میسر آتے ہیں۔ اگر آدمی نماز عشاء ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے سو جائے، پھر نصف شب گزر جانے کے بعد کسی وقت بیدار ہو جائے تو ان لمحات میں بڑی یکسوئی اور دل جمعی نصیب ہوتی ہے۔ اس دوران میں نماز پڑھتے وقت دل کی سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے جو دوسرے کسی وقت میں میسر نہیں آتا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے وقت میں بستر چھوڑ کر نماز پڑھنا نفس کی ریاضت اور اس کی تربیت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا ﴿٦﴾) "رات کا اٹھنا یقینا نفس کو زیر کرنے (کچلنے) کا ذریعہ ہے اور قرآن پڑھنے کے لیے یہی زیادہ موزوں وقت ہے۔" (المزمل6:73)ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے تہجد گزار بندوں کی بایں الفاظ تعریف فرمائی ہے: (تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٧﴾) "ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں۔ (اور) وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور امید سے پکارتے ہیں۔ اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے۔" (السجدۃ18:32۔17)قرآن کریم میں ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کا حکم دینے کے ساتھ آپ کو مقام محمود کی امید دلائی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ﴿٧٩﴾) (بنی اسرائیل79:17) "آپ رات کے کچھ حصے میں تہجد ادا کیجیے۔ یہ آپ کے لیے زائد (اور مخصوص) ہے۔ امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا۔"واضح رہے کہ مقام محمود جنت میں ایک بلند ترین مقام ہے جو قیامت کے دن صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب ہو گا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مقام محمود اور نماز تہجد میں کوئی خاص مناسبت ہے، اس لیے جو امتی نماز تہجد سے شغف رکھیں گے انہیں مقام محمود کے کسی درجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ضرور نصیب ہو گی۔احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم اور اپنی خاص شان رحمت کے ساتھ آسمان اول پر نزول فرماتا اور اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان مبارک ساعات اور پرکیف لمحات کا احساس دلانے کے لیے تہجد کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں تقریبا اڑسٹھ (68) احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر موقع و محل کی مناسبت سے سینتیس (37) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تہجد رات کی نفل نماز ہے، اس مناسبت سے دن میں جو نفل نمازیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں، ان کے متعلق بھی احادیث پیش کی ہیں، مثلاً: نماز فجر سے پہلے دو سنتوں کی اہمیت و فضیلت، ان میں قراءت اور سلام پھیرنے کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنے کی حیثیت، پھر نماز چاشت کا بیان، اسی طرح گھروں میں نوافل ادا کرنے کا اہتمام اور ان کی جماعت کو بطور خاص بیان کیا ہے۔ نماز تہجد کے متعلق اس کی اہمیت و فضیلت، رمضان المبارک میں اس کا خصوصی اہتمام اس کی رکعات کی تعداد، نیز اس کے متعلق عدم تشدد اور اس کے کلیتاً ترک کرنے کی نحوست، بیماری یا کسی اور وجہ سے اس کا ترک کرنا، نیز اس میں قیام اور سجود کا لمبا کرنا، خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کا نمونہ اور امت کو اس کے متعلق شوق دلانا، علاوہ ازیں وقت سحر اور اس کی فضیلت وغیرہ کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خصوصیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے آثار بھی بیان فرمائے ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے قلوب و اذہان کو جلا بخشنے کے لیے اس کا مطالعہ کریں اور شب بیداری کے جذبے سے ان احادیث کو پڑھیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مبارک لمحات میں نیاز و مناجات کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ اور حضرت زید بن ثابت ؓ نے سحری کھائی۔ جب اس سے فارغ ہوئے تو اللہ کے نبی ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور نماز ادا کی۔ ہم نے حضرت انس ؓ سے سوال کیا کہ ان کے سحری سے فراغت اور نماز شروع کرنے میں کتنا وقت تھا؟ انہوں نے فرمایا: تقریبا اتنی دیر جس میں کوئی شخص پچاس آیات کی تلاوت کر سکے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا رمضان المبارک میں معمول بیان ہوا ہے کہ عام دنوں میں آپ سحری کے وقت سوئے رہتے تھے، پھر اٹھ کر صبح کی نماز پڑھتے تھے، لیکن رمضان المبارک میں سحری سے فراغت کے بعد صبح کی نماز کی تیاری میں مصروف ہو جاتے اور پھر نماز ادا فرماتے۔ صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں یہ عنوان بایں الفاظ ہے: ’’جس نے سحری کی، پھر نماز کے لیے تیار ہوا اور نماز صبح ادا کرنے تک نہ سویا۔‘‘ (عمدةالقاري:366/5)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے انس بن مالک ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ اور زید بن ثابت ؓ دونوں نے مل کر سحری کھائی، سحری سے فارغ ہو کر آپ نماز کے لیے کھڑے ہو گئے اور دونوں نے نماز پڑھی۔ ہم نے انس ؓ سے پوچھا کہ سحری سے فراغت اور نماز شروع کرنے کے درمیان کتنا فاصلہ رہا ہوگا؟ آپ نے جواب دیا کہ اتنی دیر میں ایک آدمی پچاس آیتیں پڑھ سکتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ یہا ں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے جو احادیث بیان ہوئی ہیں، ان سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ تہجد پڑھ کر لیٹ جاتے تھے اور پھر مؤذن صبح کی نماز کی اطلاع دینے آتا تھا، لیکن یہ بھی آپ سے ثابت ہے کہ آپ اس وقت لیٹتے نہیں تھے، بلکہ صبح کی نماز پڑھتے تھے۔ آپ ﷺ کا یہ معمول رمضان کے مہینہ میں تھا کہ سحری کے بعد تھوڑا سا توقف فرماتے پھر فجر کی نماز اندھیرے میں ہی شروع کردیتے تھے (تفہیم البخاری) پس معلوم ہواکہ فجر کی نماز غلس میں پڑھنا سنت ہے جو لوگ اس سنت کا انکار کرتے اور فجر کی نماز ہمیشہ سورج نکلنے کے قریب پڑھتے ہیں وہ یقینا سنت کے خلاف کر تے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Qatada (RA): Anas bin Malik (RA) said, "The Prophet (ﷺ) and Zaid bin Thabit took their Suhur together. When they finished it, the Prophet (ﷺ) stood for the (Fajr) prayer and offered it." We asked Anas (RA), "What was the interval between their finishing the Suhur and the starting of the morning prayer?" Anas (RA) replied, "It was equal to the time taken by a person in reciting fifty verses of the Qur'an." ________