تشریح:
1۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق رات کو آرام کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس سے شبہ ہوتا ہے کہ رات کے وقت تعلیم اور وعظ ونصیحت جائز نہیں، پھر دن بھرکا تھکا ماندہ انسان رات میں آرام کا خواہش مند ہوتا ہے۔ لہٰذا اس وقت کی تعلیم بےآرامی کے علاوہ وضع لیل کے بھی خلاف ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ اگر رات کے وقت وعظ ونصیحت اور تعلیم کی ضرورت ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ پیش کردہ حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بعض اوقات علمی باتیں سنانے کے لیے سوئے ہوؤں کو بھی بیدار کیا جا سکتا ہے۔ عنوان میں دوقسم کی ضروریات کا ذکر ہے: ایک تعلیم وتعلم جس کی دلیل: «مَاذَا أُنْزِلَ اللَّيْلَةَ مِنَ الْفِتَنِ»ہے۔ دوسری ضرورت وعظ ونصیحت ہے جس کی دلیل:«أيْقِظُوا صَوَاحِب الْحُجَرِ»’’حجروں میں رہنے والیوں کو جگاؤ‘‘ ہے۔
2۔ حدیث میں دو چیزیں بطور خاص ذکر کی گئی ہیں، یعنی آج رات کتنے فتنے اتارے گئے اور کتنے خزانوں کے منہ کھول دیے گئے۔ پہلی چیز کا تعلق انذار سے ہے اور دوسری چیز کا تعلق تبشیر سے ہے۔ قرآن کریم میں بھی اکثر وبیشتر انذار کے ساتھ تبشیر کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اگرتم فتنوں میں ثابت قدم رہے تو ہرقسم کی رحمتیں تمہارے لیے ہیں۔ اس صورت میں خزائن سے مراد، خزائن رحمت ہیں، یعنی فتنے بھی اتارے گئے اور رحمت کے دروازے بھی کھول دیے گئے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ خزائن سے مراد دنیوی خزائن ہوں۔ اس صورت میں ما قبل کی تفصیل ہوگی کیونکہ یہ دنیوی خزائن بھی فنتہ ہی ہیں۔ چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور ہی میں دنیا کی دوحکومتیں فارس اور روم مسلمانوں کے زیرنگیں آگئیں، لیکن سیاق وسباق کا تقاضا یہ ہے کہ خزائن اورفتن دونوں الگ الگ ہوں کیونکہ بے شمار لوگ ایسے ہیں جنھیں دنیا کے خزانے توملے لیکن وہ فتنوں سے بالکل محفوظ رہے۔ (فتح الباري: 278/1)
3۔ قرآن کریم نے لباس کے دو فائدے بتائے ہیں: ایک ستر پوشی اوردوسرا زینت۔ اگر کوئی لباس پہننے کے باوجود ننگا رہتا ہے تو قیامت کے دن اس کی سزا بھگتنی ہوگی۔ اس کی دوصورتیں ہیں: (الف)۔لباس اتنا باریک ہو کہ بدن کی جھلک نمایاں نظر آئے۔ (ب)۔ سلائی اتنی چست ہو کہ جسم کا ابھار واضح معلوم ہو۔ حدیث میں اس حقیقت سے خبردار کیا گیا ہے کہ بہت سی کپڑے پہننے والی ایسی ہیں جو آخرت میں برہنہ ہوں گی۔