تشریح:
(1) حدیث میں فجر کی دو سنتوں کو نوافل قرار دیا گیا ہے لیکن رسول اللہ ﷺ ان کی بہت حفاظت فرماتے تھے حتی کہ آپ نے سفر میں بھی انہیں ترک نہیں کیا۔ بعض حضرات نے انہیں تطوع کا نام دیا ہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن شقیق نے حضرت عائشہ ؓ سے رسول اللہ ﷺ کی نماز تطوع (نفلی نماز) کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے جواب میں فجر کی دو سنتوں کو بھی بیان فرمایا، نیز ابن جریج نے حضرت عطاء سے سوال کیا کہ فجر کی دو سنت واجب ہیں یا ان کا تعلق نماز تطوع سے ہے؟ تو انہوں نے مذکورہ حدیث بیان کی، یعنی تطوع ہونے کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے ان پر ہمیشگی فرمائی اور ان کی حفاظت کی ہے۔ (فتح الباري:58/3)
(2) رسول اللہ ﷺ کی ان کے متعلق شدید پابندی کے پیش نظر امام حسن بصری ؒ نے انہیں واجب کہا ہے، جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں اس کی صراحت ہے۔ امام ابو حنیفہ ؒ سے بھی ان کے واجب ہونے کی ایک روایت ملتی ہے۔ حسن بن زیاد نے ان سے نقل کیا ہے کہ اگر عذر کے بغیر انہیں کوئی بیٹھ کر ادا کرتا ہے تو جائز نہیں۔ (فتح الباري:56/3) بہرحال فجر کی دو سنت ادا کرنے کے متعلق احادیث میں بہت تاکید ہے۔