تشریح:
(1) اس روایت کے معنی یہ نہیں کہ حضرت عائشہ ؓ کو فجر کی دو سنتوں میں سورۂ فاتحہ پڑھنے کے متعلق شک تھا بلکہ مراد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان کے علاوہ دیگر نوافل میں بہت لمبی قراءت کرتے تھے اور فجر کی دو سنتوں میں تخفیف فرماتے۔ اگر ان میں قراءت کا موازنہ دوسرے نوافل کی قراءت سے کیا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے قراءت ہی نہیں کی۔ (2) اس روایت کے پیش نظر بعض حضرات نے کہا ہے کہ فجر کی دو سنتوں میں سرے سے قراءت نہیں، حالانکہ اس حدیث کا یہ مقصد نہیں، جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں، نیز حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے فجر کی دو سنتوں میں سورۂ ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ﴿١﴾) اور ﴿قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾) پڑھیں۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1890(726)) حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فجر کی دو سنتوں میں ﴿قُولُوا آمَنَّا بِاللَّـهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ﴿١٣٦﴾) (البقرة:136:2) اور ﴿فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَىٰ مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّـهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّـهِ آمَنَّا بِاللَّـهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ ﴿٥٢﴾) (آل عمران52:3) پڑھا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1891(727)) (3) فجر کی دو سنتیں چونکہ نماز تہجد کے بعد ادا کی جاتی ہیں، اس لیے مصنف نے مناسب خیال کیا کہ تہجد کے بعد ان کے مسائل و احکام سے آگاہ کر دیا جائے۔ (فتح الباري:62/3)