تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام ؓ کے دور میں نماز چاشت معروف تھی کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے بوقت چاشت ایک انصاری کے گھر نماز پڑھنے کا اہتمام فرمایا، اس سے فوراً نماز چاشت کی طرف ذہن منتقل ہو گیا اور حضرت انس ؓ سے اس کے متعلق سوال ہوا۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت عتبان بن مالک ؓ کے گھر نماز پڑھی تو حضرت عتبان ؓ نے اس نماز کو "صلاة الضحیٰ" سے تعبیر کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ہاں نماز چاشت معروف تھی۔
(2) عوام الناس میں ایک بے بنیاد بات مشہور ہے کہ جو انسان نماز چاشت شروع کرنے کے بعد ترک کر دے وہ اندھا ہو جاتا ہے، اس لیے لوگ اسے ادا نہیں کرتے مبادا سستی کی وجہ سے اس کے ترک پر نابینا نہ ہو جائیں، حالانکہ اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ لوگوں کو خیر کثیر سے محروم کرنے کے لیے ایک شیطانی حربہ ہے۔ حدیث میں ہے کہ انسان کے تین سو ساٹھ (360) جوڑ ہیں اور انسان کے ہر جوڑ کے بدلے صدقہ کرنا ضروری ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: اتنا صدقہ کرنے کی ہمت کس انسان میں ہو سکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’مسجد میں پڑے ہوئے تھوک کو دفن کر دینا یا راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو دور کر دینا ان جوڑوں کے صدقے کے برابر ہے۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو نماز چاشت کی دو رکعت ہی کافی ہیں۔‘‘ (صحیح ابن خزیمة:229/2) شیطان ایسی باتوں کے ذریعے سے لوگوں کو نماز کی خیر و برکات سے محروم کرنا چاہتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ایسی باتوں کی طرف کان نہ دھریں۔ (فتح الباري:75/3)