باب:اس بیان میں کہ رات کو تعلیم دینااور وعظ کرنا جائز ہے
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: The knowledge and its teaching and preaching at night)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
118.
حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ ایک رات بیدار ہوئے تو فرمایا: ’’سبحان اللہ! آج رات کتنے فتنے نازل کیے گئے اور کتنے خزانے کھولے گئے۔ ان حجروں میں سونے والیوں کو جگاؤ، کیونکہ دنیا میں بہت سی کپڑے پہننے والیاں ایسی ہیں جو آخرت میں برہنہ ہوں گی۔‘‘
تشریح:
1۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق رات کو آرام کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس سے شبہ ہوتا ہے کہ رات کے وقت تعلیم اور وعظ ونصیحت جائز نہیں، پھر دن بھرکا تھکا ماندہ انسان رات میں آرام کا خواہش مند ہوتا ہے۔ لہٰذا اس وقت کی تعلیم بےآرامی کے علاوہ وضع لیل کے بھی خلاف ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ اگر رات کے وقت وعظ ونصیحت اور تعلیم کی ضرورت ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ پیش کردہ حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بعض اوقات علمی باتیں سنانے کے لیے سوئے ہوؤں کو بھی بیدار کیا جا سکتا ہے۔ عنوان میں دوقسم کی ضروریات کا ذکر ہے: ایک تعلیم وتعلم جس کی دلیل: «مَاذَا أُنْزِلَ اللَّيْلَةَ مِنَ الْفِتَنِ»ہے۔ دوسری ضرورت وعظ ونصیحت ہے جس کی دلیل:«أيْقِظُوا صَوَاحِب الْحُجَرِ»’’حجروں میں رہنے والیوں کو جگاؤ‘‘ ہے۔ 2۔ حدیث میں دو چیزیں بطور خاص ذکر کی گئی ہیں، یعنی آج رات کتنے فتنے اتارے گئے اور کتنے خزانوں کے منہ کھول دیے گئے۔ پہلی چیز کا تعلق انذار سے ہے اور دوسری چیز کا تعلق تبشیر سے ہے۔ قرآن کریم میں بھی اکثر وبیشتر انذار کے ساتھ تبشیر کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اگرتم فتنوں میں ثابت قدم رہے تو ہرقسم کی رحمتیں تمہارے لیے ہیں۔ اس صورت میں خزائن سے مراد، خزائن رحمت ہیں، یعنی فتنے بھی اتارے گئے اور رحمت کے دروازے بھی کھول دیے گئے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ خزائن سے مراد دنیوی خزائن ہوں۔ اس صورت میں ما قبل کی تفصیل ہوگی کیونکہ یہ دنیوی خزائن بھی فنتہ ہی ہیں۔ چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور ہی میں دنیا کی دوحکومتیں فارس اور روم مسلمانوں کے زیرنگیں آگئیں، لیکن سیاق وسباق کا تقاضا یہ ہے کہ خزائن اورفتن دونوں الگ الگ ہوں کیونکہ بے شمار لوگ ایسے ہیں جنھیں دنیا کے خزانے توملے لیکن وہ فتنوں سے بالکل محفوظ رہے۔ (فتح الباري: 278/1) 3۔ قرآن کریم نے لباس کے دو فائدے بتائے ہیں: ایک ستر پوشی اوردوسرا زینت۔ اگر کوئی لباس پہننے کے باوجود ننگا رہتا ہے تو قیامت کے دن اس کی سزا بھگتنی ہوگی۔ اس کی دوصورتیں ہیں: (الف)۔لباس اتنا باریک ہو کہ بدن کی جھلک نمایاں نظر آئے۔ (ب)۔ سلائی اتنی چست ہو کہ جسم کا ابھار واضح معلوم ہو۔ حدیث میں اس حقیقت سے خبردار کیا گیا ہے کہ بہت سی کپڑے پہننے والی ایسی ہیں جو آخرت میں برہنہ ہوں گی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
117
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
115
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
115
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
115
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ ایک رات بیدار ہوئے تو فرمایا: ’’سبحان اللہ! آج رات کتنے فتنے نازل کیے گئے اور کتنے خزانے کھولے گئے۔ ان حجروں میں سونے والیوں کو جگاؤ، کیونکہ دنیا میں بہت سی کپڑے پہننے والیاں ایسی ہیں جو آخرت میں برہنہ ہوں گی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق رات کو آرام کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس سے شبہ ہوتا ہے کہ رات کے وقت تعلیم اور وعظ ونصیحت جائز نہیں، پھر دن بھرکا تھکا ماندہ انسان رات میں آرام کا خواہش مند ہوتا ہے۔ لہٰذا اس وقت کی تعلیم بےآرامی کے علاوہ وضع لیل کے بھی خلاف ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ اگر رات کے وقت وعظ ونصیحت اور تعلیم کی ضرورت ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ پیش کردہ حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بعض اوقات علمی باتیں سنانے کے لیے سوئے ہوؤں کو بھی بیدار کیا جا سکتا ہے۔ عنوان میں دوقسم کی ضروریات کا ذکر ہے: ایک تعلیم وتعلم جس کی دلیل: «مَاذَا أُنْزِلَ اللَّيْلَةَ مِنَ الْفِتَنِ»ہے۔ دوسری ضرورت وعظ ونصیحت ہے جس کی دلیل:«أيْقِظُوا صَوَاحِب الْحُجَرِ»’’حجروں میں رہنے والیوں کو جگاؤ‘‘ ہے۔ 2۔ حدیث میں دو چیزیں بطور خاص ذکر کی گئی ہیں، یعنی آج رات کتنے فتنے اتارے گئے اور کتنے خزانوں کے منہ کھول دیے گئے۔ پہلی چیز کا تعلق انذار سے ہے اور دوسری چیز کا تعلق تبشیر سے ہے۔ قرآن کریم میں بھی اکثر وبیشتر انذار کے ساتھ تبشیر کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اگرتم فتنوں میں ثابت قدم رہے تو ہرقسم کی رحمتیں تمہارے لیے ہیں۔ اس صورت میں خزائن سے مراد، خزائن رحمت ہیں، یعنی فتنے بھی اتارے گئے اور رحمت کے دروازے بھی کھول دیے گئے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ خزائن سے مراد دنیوی خزائن ہوں۔ اس صورت میں ما قبل کی تفصیل ہوگی کیونکہ یہ دنیوی خزائن بھی فنتہ ہی ہیں۔ چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور ہی میں دنیا کی دوحکومتیں فارس اور روم مسلمانوں کے زیرنگیں آگئیں، لیکن سیاق وسباق کا تقاضا یہ ہے کہ خزائن اورفتن دونوں الگ الگ ہوں کیونکہ بے شمار لوگ ایسے ہیں جنھیں دنیا کے خزانے توملے لیکن وہ فتنوں سے بالکل محفوظ رہے۔ (فتح الباري: 278/1) 3۔ قرآن کریم نے لباس کے دو فائدے بتائے ہیں: ایک ستر پوشی اوردوسرا زینت۔ اگر کوئی لباس پہننے کے باوجود ننگا رہتا ہے تو قیامت کے دن اس کی سزا بھگتنی ہوگی۔ اس کی دوصورتیں ہیں: (الف)۔لباس اتنا باریک ہو کہ بدن کی جھلک نمایاں نظر آئے۔ (ب)۔ سلائی اتنی چست ہو کہ جسم کا ابھار واضح معلوم ہو۔ حدیث میں اس حقیقت سے خبردار کیا گیا ہے کہ بہت سی کپڑے پہننے والی ایسی ہیں جو آخرت میں برہنہ ہوں گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
صدقہ نے ہم سے بیان کیا، انھیں ابن عیینہ نے معمر کے واسطے سے خبر دی، وہ زہری سے روایت کرتے ہیں، زہری ہند سے، وہ ام سلمہ ؓ سے، (دوسری سند میں) عمرو اور یحییٰ بن سعید زہری سے، وہ ایک عورت سے، وہ ام سلمہ ؓ سے روایت کرتی ہیں کہ ایک رات نبی کریم ﷺ نے بیدار ہوتے ہی فرمایا کہ سبحان اللہ! آج کی رات کس قدر فتنے اتارے گئے ہیں اور کتنے ہی خزانے بھی کھولے گئے ہیں۔ ان حجرہ والیوں کو جگاؤ۔ کیونکہ بہت سی عورتیں (جو) دنیا میں (باریک) کپڑا پہننے والی ہیں وہ آخرت میں ننگی ہوں گی۔
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ نیک بندوں کے لیے اللہ کی رحمتوں کے خزانے نازل ہوئے اور بدکاروں پر اس کا عذاب بھی اترا۔ پس بہت سی عورتیں جو ایسے باریک کپڑے استعمال کرتی ہیں جن سے بدن نظر آئے، آخرت میں انھیں رسوا کیا جائے گا۔ اس حدیث سے رات میں وعظ ونصیحت کرنا ثابت ہوتا ہے، پس مطابقت حدیث کی ترجمہ سے ظاہر ہے (فتح الباری) عورتوں کے لیے حد سے زیادہ باریک کپڑوں کا استعمال جن سے بدن نظر آئے قطعاً حرام ہے۔ مگرآج کل زیادہ تر یہی لباس چل پڑا ہے جوقیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Um Salama (RA): One night Allah's Apostle (ﷺ) got up and said, "Subhan Allah! How many afflictions have been descended tonight and how many treasures have been disclosed! Go and wake the sleeping lady occupants of these dwellings (his wives) up (for prayers). A well-dressed (soul) in this world may be naked in the Hereafter. "