تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابن عباس ؓ کے کان دو وجوہات کی بنا پر مروڑے: ایک تو انہیں مانوس کرنے کے لیے کیونکہ رات کا اندھیرا تھا، اس لیے محبت و شفقت سے کان کو پکڑا۔ دوسرا چونکہ وہ بائیں جانب کھڑے ہوئے تھے جبکہ مقتدی کا مقام امام کے دائیں طرف ہے، لہٰذا آپ نے اس امر کی اصلاح کے لیے کان مروڑا اور پیچھے سے گھما کر انہیں اپنی دائیں جانب کر لیا۔ جب نماز کا دوسرے کی اصلاح کے لیے اپنے ہاتھ سے کام لینا درست ہے تو اپنی نماز درست رکھنے کے لیے بطریق اولیٰ دوران نماز ہاتھ سے کام لینا جائز ہو گا۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نماز کی مصلحت کے پیش نظر دوران نماز میں اپنے ہاتھ سے مدد لی جا سکتی ہے۔ (فتح الباري:94/3)
(2) اگر کوئی نمازی اپنے موبائل فون کی گھنٹی بند کرنا بھول جائے اور دوران نماز میں گھنٹی بجنے لگے تو اسے اپنے ہاتھ سے بند کرنا جائز ہے کیونکہ اس کا جاری رہنا دوسرے نمازیوں کے لیے باعث تشویش ہو گا۔ جب نماز کی مصلحت کے پیش نظر دوران نماز اپنے ہاتھ سے کوئی بھی کام کیا جا سکتا ہے تو موبائل بند کر دینے میں چنداں حرج نہیں۔ واللہ أعلم۔ رسول اللہ ﷺ نے دوران نماز میں بچھو اور سانپ مارنے کی بھی اجازت دی ہے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:921) نیز حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے اور گھر کا دروازہ بند تھا، میں آئی اور دروازہ کھٹکھٹایا تو رسول اللہ ﷺ نے دوران نماز میں چل کر دروازہ کھولا، پھر آپ اپنے مقام نماز پر واپس چلے گئے۔ حدیث میں وضاحت ہے کہ آپ کے گھر کا دروازہ قبلے کی جانب تھا۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:922)