تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے ہمارے سلام کا جواب نہ دیا تو ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم پہلے آپ کو سلام کہتے تھے تو آپ اس کا جواب دیا کرتے تھے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’بلاشبہ نماز میں مشغولیت ہوتی ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث:3875) ابوداود کی روایت میں ہے: ’’اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے نیا حکم دے دیتا ہے۔ اب اس نے نیا حکم دیا ہے کہ دوران نماز میں کلام مت کرو۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:924)
(2) مسند ابی یعلیٰ میں ہے: ’’جب تم نماز میں ہو تو فرماں بردار رہو اور کلام نہ کرو۔‘‘ (مسند أبي یعلیٰ:384/3) واضح رہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ حبشہ سے ہجرت کر کے واپس مدینہ آئے تھے۔ ابتدائے اسلام میں دوران نماز گفتگو کرنا جائز تھا اور سلام وغیرہ کا جواب بھی دیا جاتا تھا، بالآخر آخری حکم نازل ہوا کہ دوران نماز سلام و کلام منع کر دیا گیا اور اشارے سے سلام کا جواب دینے کا کہا گیا۔