باب: میت کو جب کفن میں لپیٹا جا چکا ہو تو اس کے پاس جانا (جائز ہے)۔
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: Visiting the deceased person after he has been put in his shroud)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1255.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ اپنے مقام سخ والے گھر سے گھوڑے پر سوار ہوکر آئے اور سواری سے اتر کر مسجد میں داخل ہوئے، لوگوں سے کوئی بات نہ کی حتیٰ کہ حضرت عائشہ ؓ کے پاس گئے اور نبی کریم ﷺ کا قصد کیا۔ آپ کو دھاری دار یمنی چادر میں لپیٹا گیا تھا۔ انھوں نے چادر ہٹا کر چہرہ کھولا اور جھک کر آپ کو بوسہ دیا، پھر روپڑے اورفرمایا: اللہ کے نبی!( ﷺ ) میرے ماں باپ آپ پر قربان!اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا۔ بہرحال ایک دفعہ جو موت آپ کے مقدر میں تھی وہ تو آچکی ہے۔ راوی ابو سلمہ کہتے ہیں :مجھے حضرت ابن عباس ؓ نے بتایا کہ جب حضرت ابو بکر ؓ باہر آئے تو حضرت عمر ؓ لوگوں سےباتیں کررہے تھے۔ ان سے فرمایا:بیٹھ جاؤ۔ انھوں نے (بیٹھنے سے) انکار کر دیا۔ آپ نے انھیں دوبارہ بیٹھنے کو کہا لیکن وہ نہ بیٹھے۔ تو حضرت ابوبکر ؓ نےخطبہ دینا شروع کر دیا، چنانچہ لوگ حضرت عمر ؓ کو چھوڑ کر آپ کی طرف متوجہ ہو گئے۔ حضرت ابو بکر ؓ نے أمابعد کے بعد فرمایا: تم میں سے جو کوئی حضرت محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا تو حضرت محمد ﷺ اب و فات پاچکے ہیں اور جو شخص اللہ عزوجل کی عبادت کرتا تھا تو وہ زندہ جاوید ہے۔ اسے موت نہیں آئے گی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور محمد( ﷺ ) ایک رسول ہی تو ہیں۔ ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ اگر وہ وفات پاجائیں یاشہید ہوجائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤگے؟اور کوئی الٹے پاؤں پھر بھی جائےگاتو اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور شکر گزاروں کو اللہ تعالیٰ جلد ہی اچھابدلہ دے گا۔‘‘ اللہ کی قسم!گویا لوگ پہلے جانتا ہی نہ تھے کہ اللہ تعالیٰ ے یہ آیت نازل فرمائی ہے حتیٰ کہ ابو بکر ؓ نے اسے پڑھا اور ان سے لوگوں نے یہ آیت سیکھی۔ پھر ہر شخص کی زبان پر اس آیت کا ورد تھا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1211.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1242
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1242
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1242
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ اپنے مقام سخ والے گھر سے گھوڑے پر سوار ہوکر آئے اور سواری سے اتر کر مسجد میں داخل ہوئے، لوگوں سے کوئی بات نہ کی حتیٰ کہ حضرت عائشہ ؓ کے پاس گئے اور نبی کریم ﷺ کا قصد کیا۔ آپ کو دھاری دار یمنی چادر میں لپیٹا گیا تھا۔ انھوں نے چادر ہٹا کر چہرہ کھولا اور جھک کر آپ کو بوسہ دیا، پھر روپڑے اورفرمایا: اللہ کے نبی!( ﷺ ) میرے ماں باپ آپ پر قربان!اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا۔ بہرحال ایک دفعہ جو موت آپ کے مقدر میں تھی وہ تو آچکی ہے۔ راوی ابو سلمہ کہتے ہیں :مجھے حضرت ابن عباس ؓ نے بتایا کہ جب حضرت ابو بکر ؓ باہر آئے تو حضرت عمر ؓ لوگوں سےباتیں کررہے تھے۔ ان سے فرمایا:بیٹھ جاؤ۔ انھوں نے (بیٹھنے سے) انکار کر دیا۔ آپ نے انھیں دوبارہ بیٹھنے کو کہا لیکن وہ نہ بیٹھے۔ تو حضرت ابوبکر ؓ نےخطبہ دینا شروع کر دیا، چنانچہ لوگ حضرت عمر ؓ کو چھوڑ کر آپ کی طرف متوجہ ہو گئے۔ حضرت ابو بکر ؓ نے أمابعد کے بعد فرمایا: تم میں سے جو کوئی حضرت محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا تو حضرت محمد ﷺ اب و فات پاچکے ہیں اور جو شخص اللہ عزوجل کی عبادت کرتا تھا تو وہ زندہ جاوید ہے۔ اسے موت نہیں آئے گی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور محمد( ﷺ ) ایک رسول ہی تو ہیں۔ ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ اگر وہ وفات پاجائیں یاشہید ہوجائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤگے؟اور کوئی الٹے پاؤں پھر بھی جائےگاتو اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور شکر گزاروں کو اللہ تعالیٰ جلد ہی اچھابدلہ دے گا۔‘‘ اللہ کی قسم!گویا لوگ پہلے جانتا ہی نہ تھے کہ اللہ تعالیٰ ے یہ آیت نازل فرمائی ہے حتیٰ کہ ابو بکر ؓ نے اسے پڑھا اور ان سے لوگوں نے یہ آیت سیکھی۔ پھر ہر شخص کی زبان پر اس آیت کا ورد تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو سلمہ نے کہا کہ مجھے ابن عباس ؓ نے خبر دی کہ حضرت ابو بکر ؓ جب باہر تشریف لائے تو حضرت عمر ؓ اس وقت لوگوں سے کچھ باتیں کر رہے تھے۔ حضرت صدیق اکبر ؓ نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔ لیکن حضرت عمر ؓ نہیں مانے۔ پھر دوبارہ آپ نے بیٹھنے کے لیے کہا۔ لیکن حضرت عمر ؓ نہیں مانے۔ آخر حضرت ابو بکر ؓ نے کلمہ شہادت پڑھا تو تمام مجمع آپ کی طرف متوجہ ہوگیا اور حضرت عمر ؓ کو چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا أمابعد!اگر کوئی شخص تم میں سے محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا تواسے معلوم ہونا چاہے کہ محمدﷺ کی وفات ہو چکی اور اگر کوئی اللہ تعالی کی عبادت کرتا ہے تو اللہ تعالی باقی رہنے والاہے۔ کبھی وہ مرنے والا نہیں۔ اللہ پاک نے فرمایا ہے: ’’اور محمد صرف اللہ کے رسول ہیں اور بہت سے رسول اس سے پہلے بھی گزر چکے ہیں۔‘‘الشاکرین تک (آپ نے آیت تلاوت کی) قسم اللہ کی ایسا معلوم ہوا کہ حضرت ابو بکر ؓ کےآیت کی تلاوت سے پہلے جیسے لوگوں کو معلوم ہی نہ تھا کہ یہ آیت بھی اللہ پاک نے قرآن مجید میں اتاری ہے۔ اب تمام صحابہ نے یہ آیت آپ سے سیکھ لی۔ پھر تو ہر شخص کی زبان پر یہی آیت تھی۔