تشریح:
صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے: ’’اسے خوشبو کے قریب تک نہ کرو کیونکہ یہ قیامت کے دن احرام کی حالت میں تلبیہ کہتا ہوا اٹھایا جائے گا۔‘‘ (صحیح البخاري، جزاء الصید، حدیث: 1839) ان روایات میں خوشبو سے ممانعت کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اٹھائے گا تو یہ تلبیہ کہہ رہا ہو گا۔ چونکہ وہ شخص حالتِ احرام میں اٹھایا جائے گا اور احرام کی حالت میں خوشبو لگانا منع ہے، اس لیے اس کی میت کو بھی خوشبو لگانے سے روک دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ممانعت کا سبب احرام ہے۔ اگر احرام نہیں ہو گا تو ممانعت بھی نہیں ہو گی، اس لیے میت کو خوشبو لگانے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ حضرت جابر ؓ کی روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میت کو خوشبو کی دھونی دو تو تین مرتبہ دو۔‘‘ (مسند أحمد: 331/3) حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی فوت ہو گیا تو ہم نے اسے غسل دیا، کفن پہنایا اور اسے خوشبو کی دھونی دی، پھر ہم نے اسے جنازے کے لیے رکھ دیا۔ اس کے بعد ہم نے رسول اللہ ﷺ کو جنازے کی اطلاع دی تو آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: ’’اس کے ذمہ قرض تو نہیں؟‘‘ (المستدرك للحاکم: 58/2) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ میت کو خوشبو لگانا مستحب امر ہے، کیونکہ فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور اس نے بھی اللہ کے حضور پیش ہونا ہے، لہذا اچھی حالت میں پیش ہونا چاہیے۔ والله أعلم۔