تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے ایک ضعیف حدیث کے الفاظ کو بطور عنوان استعمال کیا ہے، وہ اگرچہ سند کے اعتبار سے کمزور ہے، لیکن اس کا مضمون صحیح تھا، اس لیے صحیح روایت سے اسے ثابت کیا ہے، یعنی کفن کے اخراجات اس کے ترکے سے پورے کیے جائیں۔ اس میں غسل، خوشبو، قبر کی خریداری، کھودنے کی مزدوری، وہاں تک لے جانے کا کرایہ سب اخراجات کفن کا حصہ ہیں اور انہیں میت کے سرمائے سے پورا کیا جائے گا۔ اگر ان اخراجات کو پورا کرنے کے بعد کچھ بچ جائے تو میت کا قرض وغیرہ اتارا جائے، پھر ثلث مال سے اس کی وصیت کو پورا کیا جائے۔ اس کے بعد اس کی جائیداد ورثاء میں تقسیم ہو گی۔
(2) عنوان سے حدیث کی مطابقت بایں طور پر ہے کہ حضرت مصعب بن عمیر اور حضرت حمزہ ؓ کا جمع ترکہ صرف ایک چادر ہی تھا، اسے کفن میں استعمال کیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ دریافت نہیں فرمایا کہ ان کے ذمے کوئی قرض وغیرہ تو نہیں۔ ضرورت کے وقت شارع کا خاموش رہنا ہی بیان کی دلیل، یعنی اس مسئلے کو ثابت کرنا ہے کہ میت کے ترکے سے اولین ترجیح اس کے کفن دفن کے اخراجات ہیں۔ اگر اس سے کچھ بچ رہے تو قرضہ وغیرہ اتارا جائے، بصورت دیگر اس کے تمام ترکے کو کفن دفن کے اخراجات میں صرف کر دیا جائے۔ اس میں اختلاف ہے کہ اگر میت مقروض ہو اور اتنا قرض ہے کہ اس کا تمام مال قرض کی ادائیگی میں خرچ ہو سکتا ہے تو کفن کے لیے کتنا کپڑا لیا جائے؟ اتنا کفن کافی ہے جس سے ستر پوشی ہو سکے یا تمام بدن کو ڈھانکنے کے لیے کپڑا لینا چاہیے؟ حافظ ابن حجر ؒ نے اس بات کو راجح قرار دیا ہے کہ اس کے مال سے پورا بدن ڈھانپنے کے لیے کپڑا خریدا جائے۔ (فتح الباري:181/3)
(3) ہمارے ہاں جہلاء قل خوانی، تیسرا، ساتواں اور چالیسواں، نیز قرآن خوانی کے اخراجات میت کے مال سے ادا کرتے ہیں۔ یہ سب بدعات ہیں اور ان میں شمولیت کرنے والے بالغ حضرات ان اخراجات کے ذمہ دار ہیں، کیونکہ ایسا کرنا میت کے حقوق میں شامل نہیں کہ ان کی ادائیگی کے لیے اس کا مال خرچ کیا جائے۔ اسی طرح اس کے مال سے کسی کو حج یا عمرے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ بھی صحیح نہیں۔ ہاں، اگر ورثاء اجازت دیں تو باقی ماندہ مال سے حج وغیرہ کے اخراجات پورے کیے جا سکتے ہیں۔ والله أعلم۔
(4) ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ اگر شادی شدہ لڑکی فوت ہو جائے تو اسے کفن پہنانے کی ذمہ داری اس کے والدین پر ہے۔ یہ ایک جاہلانہ رسم ہے جسے ختم ہونا چاہیے، بلکہ خاوند کو چاہیے کہ وہ اس قسم کی ضروریات کو پورا کرے، والدین پر بوجھ نہ ڈالا جائے۔