Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: If there is nothing except one piece of cloth (for shrouding))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1288.
حضرت ابراہیم ؑ سے مروی ہے کہ عبدالرحمان بن عوف ؓ کے پاس کھانا لایا گیا جبکہ وہ روزے کی حالت میں تھے۔ انہوں نے فرمایا: حضرت مصعب بن عمیر ؓ شہید کیے گئے، حالانکہ وہ مجھ سے بہتر تھے۔ انھیں صرف ایک ہی چادر میں کفن دیا گیا۔ اگر ان کا سرڈھانپا جاتا تو پاؤں کھل جاتے اور اگر ان کے پاؤں چھپائے جاتے تو سر کھل جاتا۔ راوی کہتے ہیں: میرے خیال کے مطابق انھوں نے یہ بھی کہا: حضرت حمزہ ؓ شہید کیےگئے، حالانکہ وہ بھی مجھ سے بہتر تھے، پھر ہم پر دنیا کے دروازے کھول دیے گئے، ہمیں خطرہ ہے کہ کہیں ہماری نیکیوں کا بدلہ ہمیں دنیا ہی میں نہ دے دیا گیا ہو۔ پھر انھوں نے رونا شروع کردیا حتیٰ کہ کھانا چھوڑ دیا۔
تشریح:
(1) امام بخارى ؒ کی مراد یہ ہے کہ کفن کا انتظام و انصرام میت کے ترکے ہی سے کیا جائے، خواہ میت کا کل ترکہ اسی قدر ہو کہ جس سے کفن ہی کا بندوبست کیا جا سکے۔ اگر اس کے ترکے میں صرف ایک چادر ہو تو بھی اس سے ضرورت پوری ہو سکتی ہے، جیسا کہ مذکورہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مصعب بن عمیر ؓ کے ترکے میں ایک چادر کے سوا اور کوئی چیز نہ ملی جس میں انہیں کفن دیا جا سکتا۔ حضرت حمزہ ؓ کے متعلق اس سے پہلی حدیث میں ہے کہ ان کے ترکے میں بھی صرف ایک ہی چادر دستیاب ہو سکی اور وہ چادر بھی پورے جسم کے لیے ساتر نہ تھی بلکہ اس سے اگر سر ڈھانپا جاتا تو ان کے قدم ظاہر ہو جاتے اور جب قدم ڈھانپتے تو سر ظاہر ہو جاتا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میت کے پورے جسم کو ڈھانپنا ضروری نہیں، کیونکہ اگر ایسا کرنا ضروری ہوتا تو رسول اللہ ﷺ دوسرے ساتھیوں سے کپڑا لے کر ان کے قدموں کو ڈھانپ دیتے، لیکن آپ نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ (2) اس حدیث سے صحابہ کرام ؓ کی دنیا سے بے رغبتی، تقویٰ شعاری اور پرہیزگاری کا پتہ چلتا ہے کہ حضرت مصعب بن عمیر اور حضرت حمزہ ؓ جب شہید ہوئے تو ان کا ترکہ کچھ بھی نہ تھا، صرف بدن کی ایک چادر تھی وہ بھی تمام جسم کو نہ ڈھانپ سکتی تھی۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ بحالت روزہ تھے اور جب ان کے سامنے افطاری کے موقع پر طرح طرح کے کھانے پیش کیے گئے تو ان کے سامنے اپنے ساتھیوں کی زندگی کا نقشہ آ گیا اور اس قدر روئے کہ کھانا نہ کھا سکے اور اسے تناول کیے بغیر اٹھ کر چلے گئے۔ اس میں ان لوگوں کے لیے سامان عبرت ہے جو اپنی افطاریوں یا افطار پارٹیوں میں اسراف کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہر معاملے میں میانہ روی اختیار کریں۔ والله أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1243
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1275
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1275
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1275
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
مرنے کے بعد میت کا کل ترکہ صرف ایک ہی چادر ہو تو کفن کے متعلق کیا کرنا چاہیے؟ اس عنوان کے تحت اس مسئلے کا حل پیش کیا گیا ہے۔
حضرت ابراہیم ؑ سے مروی ہے کہ عبدالرحمان بن عوف ؓ کے پاس کھانا لایا گیا جبکہ وہ روزے کی حالت میں تھے۔ انہوں نے فرمایا: حضرت مصعب بن عمیر ؓ شہید کیے گئے، حالانکہ وہ مجھ سے بہتر تھے۔ انھیں صرف ایک ہی چادر میں کفن دیا گیا۔ اگر ان کا سرڈھانپا جاتا تو پاؤں کھل جاتے اور اگر ان کے پاؤں چھپائے جاتے تو سر کھل جاتا۔ راوی کہتے ہیں: میرے خیال کے مطابق انھوں نے یہ بھی کہا: حضرت حمزہ ؓ شہید کیےگئے، حالانکہ وہ بھی مجھ سے بہتر تھے، پھر ہم پر دنیا کے دروازے کھول دیے گئے، ہمیں خطرہ ہے کہ کہیں ہماری نیکیوں کا بدلہ ہمیں دنیا ہی میں نہ دے دیا گیا ہو۔ پھر انھوں نے رونا شروع کردیا حتیٰ کہ کھانا چھوڑ دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخارى ؒ کی مراد یہ ہے کہ کفن کا انتظام و انصرام میت کے ترکے ہی سے کیا جائے، خواہ میت کا کل ترکہ اسی قدر ہو کہ جس سے کفن ہی کا بندوبست کیا جا سکے۔ اگر اس کے ترکے میں صرف ایک چادر ہو تو بھی اس سے ضرورت پوری ہو سکتی ہے، جیسا کہ مذکورہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مصعب بن عمیر ؓ کے ترکے میں ایک چادر کے سوا اور کوئی چیز نہ ملی جس میں انہیں کفن دیا جا سکتا۔ حضرت حمزہ ؓ کے متعلق اس سے پہلی حدیث میں ہے کہ ان کے ترکے میں بھی صرف ایک ہی چادر دستیاب ہو سکی اور وہ چادر بھی پورے جسم کے لیے ساتر نہ تھی بلکہ اس سے اگر سر ڈھانپا جاتا تو ان کے قدم ظاہر ہو جاتے اور جب قدم ڈھانپتے تو سر ظاہر ہو جاتا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میت کے پورے جسم کو ڈھانپنا ضروری نہیں، کیونکہ اگر ایسا کرنا ضروری ہوتا تو رسول اللہ ﷺ دوسرے ساتھیوں سے کپڑا لے کر ان کے قدموں کو ڈھانپ دیتے، لیکن آپ نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ (2) اس حدیث سے صحابہ کرام ؓ کی دنیا سے بے رغبتی، تقویٰ شعاری اور پرہیزگاری کا پتہ چلتا ہے کہ حضرت مصعب بن عمیر اور حضرت حمزہ ؓ جب شہید ہوئے تو ان کا ترکہ کچھ بھی نہ تھا، صرف بدن کی ایک چادر تھی وہ بھی تمام جسم کو نہ ڈھانپ سکتی تھی۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ بحالت روزہ تھے اور جب ان کے سامنے افطاری کے موقع پر طرح طرح کے کھانے پیش کیے گئے تو ان کے سامنے اپنے ساتھیوں کی زندگی کا نقشہ آ گیا اور اس قدر روئے کہ کھانا نہ کھا سکے اور اسے تناول کیے بغیر اٹھ کر چلے گئے۔ اس میں ان لوگوں کے لیے سامان عبرت ہے جو اپنی افطاریوں یا افطار پارٹیوں میں اسراف کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہر معاملے میں میانہ روی اختیار کریں۔ والله أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہیں سعد بن ابراہیم نے، انہیں ان کے باپ ابراہیم بن عبدالرحمن نے کہ عبدالرحمن بن عوف ؓ کے سامنے کھانا حاضر کیا گیا۔ وہ روزہ سے تھے اس وقت انہوں نے فرمایا کہ ہائے! مصعب بن عمیر ؓ شہید کئے گئے، وہ مجھ سے بہتر تھے۔ لیکن ان کے کفن کے لیے صرف ایک چادر میسر آ سکی کہ اگر اس سے ان کا سر ڈھانکا جاتا تو پاؤں کھل جاتے اور پاؤں ڈھانکے جاتے تو سرکھل جاتا اور میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے یہ بھی فرمایا اور حمزہ ؓ بھی (اسی طرح) شہید ہوئے وہ بھی مجھ سے اچھے تھے۔ پھر ان کے بعد دنیا کی کشادگی ہمارے لیے خوب ہوئی یا یہ فرمایا کہ دنیا ہمیں بہت دی گئی اور ہمیں تو اس کا ڈر لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری نیکیوں کا بدلہ اسی دنیا میں ہم کو مل گیا ہو پھر آپ اس طرح رونے لگے کہ کھانا بھی چھوڑ دیا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت مصعب ؓ کے ہاں صرف ایک چادر ہی ان کا کل متاع تھی، وہ بھی تنگ، وہی ان کے کفن میں دے دی گئی۔ باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔ حالانکہ حضرت عبدالرحمن روزہ دار تھے دن بھر کے بھوکے تھے پھر بھی ان تصورات میں کھانا ترک کردیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور اس قدر مالدار تھے کہ رئیس التجار کا لقب ان کو حاصل تھا۔ انتقال کے وقت دولت کے انبار ورثاء کو ملے۔ ان حالات میں بھی مسلمانوں کی ہر ممکن خدمات کے لیے ہر وقت حاضر رہا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ان کے کئی سو اونٹ مع غلہ کے ملک شام سے آئے تھے۔ وہ سارا غلہ مدینہ والوں کے لیے مفت تقسیم فرما دیا۔ رضي اللہ عنه وأرضاہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibrahim (RA): Once a meal was brought to 'Abdur-Rahman bin 'Auf and he was fasting. He said, "Mustab bin 'Umar was martyred and he was better than I and was shrouded in his Burd and when his head was covered with it, his legs became bare, and when his legs were covered his head got uncovered. Hamza was martyred and was better than I. Now the worldly wealth have been bestowed upon us (or said a similar thing). No doubt, I fear that the rewards of my deeds might have been given earlier in this world." Then he started weeping and left his food. ________