صحیح بخاری
23. کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
27. باب: جب کفن کا کپڑا چھوٹا ہو کہ سر اور پاؤں دونوں نہ ڈھک سکیں تو سر چھپا دیں (اور پاؤں پر گھاس وغیرہ ڈال دیں)۔
باب: جب کفن کا کپڑا چھوٹا ہو کہ سر اور پاؤں دونوں نہ ڈھک سکیں تو سر چھپا دیں (اور پاؤں پر گھاس وغیرہ ڈال دیں)۔
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: If sufficient cloth for the shroud is not available)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1289.
حضرت خباب بن ارت ؓ سے روایت ہے، انھوں نےفرمایا، ہم نے نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ہجرت کی۔ ہمارا مقصد صرف اللہ کی رضا جوئی تھا۔ اب ہمارا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمے تھا۔ ہم میں سے بعض حضرات فوت ہوئے توانھوں نے دنیامیں اپنے اجر کا کچھ حصہ بھی نہیں کھایا۔ حضرت مصعب بن عمیر ؓ بھی ایسے لوگوں میں سے تھے۔ اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کا پھل پک چکا ہے۔ اور وہ چن چن کر کھا رہے ہیں۔ حضرت مصعب بن عمیر ؓ جنگ احد میں شہید ہوئے تو ہمیں (ان کے ترکے میں) کفن کے لیے ایک چھوٹی سی چادر کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ جب ہم ان کا سر چھپاتے تو پاؤں کھل جاتے تھے اورجب پاؤں ڈھانپتے تو سر ظاہر ہو جاتا۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم ان کا سر ڈھانپ دیں اور ان کے قدموں پر اذخر نامی گھاس ڈال دیں۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کفن کم پڑ جائے تو سر ڈھانپنے کو ترجیح دی جائے، کیونکہ سر، پاؤں سے افضل ہے۔ اور پاؤں پر اذخر یا کوئی اور گھاس وغیرہ ڈال دی جائے۔ لوگوں کے سامنے دست سوال نہ پھیلایا جائے۔ اس مسئلے کے لیے درج ذیل حدیث سے بھی استدلال کیا جا سکتا ہے: حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ شہدائے اُحد کے دو، دو آدمیوں کو ایک ہی کپڑے میں جمع کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1343) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: اگر میت کے ترکے میں اسی قدر کفن دستیاب ہو تو اس پر ہی اکتفا کیا جائے۔ اسے دفن کرنے کے لیے مزید کسی چیز کا انتظار نہ کیا جائے۔ (2) اس حدیث میں حضرت مصعب بن عمیر ؓ کو کفن دینے کی کیفیت بیان ہوئی ہے، جبکہ مستدرک حاکم میں حضرت حمزہ ؓ کو بھی اسی طرح کفن دینے کی روایت بیان ہوئی ہے۔ (فتح الباري:181/3) اس حدیث میں صدر اول کے مسلمانوں کے متعلق بیان ہوا ہے کہ وہ کس قسم کی دنیوی زندگی بسر کرتے تھے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ فقروفاقہ کی صعوبتیں برداشت کرنا نیک لوگوں کی منازل ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1244
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1276
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1276
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1276
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت خباب بن ارت ؓ سے روایت ہے، انھوں نےفرمایا، ہم نے نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ہجرت کی۔ ہمارا مقصد صرف اللہ کی رضا جوئی تھا۔ اب ہمارا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمے تھا۔ ہم میں سے بعض حضرات فوت ہوئے توانھوں نے دنیامیں اپنے اجر کا کچھ حصہ بھی نہیں کھایا۔ حضرت مصعب بن عمیر ؓ بھی ایسے لوگوں میں سے تھے۔ اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کا پھل پک چکا ہے۔ اور وہ چن چن کر کھا رہے ہیں۔ حضرت مصعب بن عمیر ؓ جنگ احد میں شہید ہوئے تو ہمیں (ان کے ترکے میں) کفن کے لیے ایک چھوٹی سی چادر کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ جب ہم ان کا سر چھپاتے تو پاؤں کھل جاتے تھے اورجب پاؤں ڈھانپتے تو سر ظاہر ہو جاتا۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم ان کا سر ڈھانپ دیں اور ان کے قدموں پر اذخر نامی گھاس ڈال دیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کفن کم پڑ جائے تو سر ڈھانپنے کو ترجیح دی جائے، کیونکہ سر، پاؤں سے افضل ہے۔ اور پاؤں پر اذخر یا کوئی اور گھاس وغیرہ ڈال دی جائے۔ لوگوں کے سامنے دست سوال نہ پھیلایا جائے۔ اس مسئلے کے لیے درج ذیل حدیث سے بھی استدلال کیا جا سکتا ہے: حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ شہدائے اُحد کے دو، دو آدمیوں کو ایک ہی کپڑے میں جمع کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1343) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: اگر میت کے ترکے میں اسی قدر کفن دستیاب ہو تو اس پر ہی اکتفا کیا جائے۔ اسے دفن کرنے کے لیے مزید کسی چیز کا انتظار نہ کیا جائے۔ (2) اس حدیث میں حضرت مصعب بن عمیر ؓ کو کفن دینے کی کیفیت بیان ہوئی ہے، جبکہ مستدرک حاکم میں حضرت حمزہ ؓ کو بھی اسی طرح کفن دینے کی روایت بیان ہوئی ہے۔ (فتح الباري:181/3) اس حدیث میں صدر اول کے مسلمانوں کے متعلق بیان ہوا ہے کہ وہ کس قسم کی دنیوی زندگی بسر کرتے تھے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ فقروفاقہ کی صعوبتیں برداشت کرنا نیک لوگوں کی منازل ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے میرے والد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شقیق نے بیان کیا، کہا ہم سے خباب بن ارت ؓ نے بیان کیا کہ ہم نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ صرف اللہ کے لیے ہجرت کی۔ اب ہمیں اللہ تعالیٰ سے اجر ملنا ہی تھا۔ ہمارے بعض ساتھی تو انتقال کرگئے اور (اس دنیا میں) انہوں نے اپنے کیے کا کوئی پھل نہیں دیکھا۔ مصعب بن عمیر ؓ بھی انہیں لوگوں میں سے تھے اور ہمارے بعض ساتھیوں کا میوہ پک گیا اور وہ چن چن کر کھاتا ہے۔ (مصعب بن عمیر ؓ ) احد کی لڑائی میں شہید ہوئے ہم کو ان کے کفن میں ایک چادر کے سوا اور کوئی چیز نہ ملی اور وہ بھی ایسی کہ اگر اس سے سر چھپاتے ہیں تو پاؤں کھل جاتا ہے اور اگر پاؤں ڈھکتے تو سرکھل جاتا۔ آخر یہ دیکھ کر نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ سرکو چھپا دیں اور پاؤں پر سبز گھاس اذ خرنامی ڈال دیں۔
حدیث حاشیہ:
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے، کیونکہ حضرت مصعب بن عمیر ؓ کا کفن جب ناکافی رہا تو ان کے پیروں کو اذخرنامی گھاس سے ڈھانک دیا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Khabbab (RA): We emigrated with the Prophet (ﷺ) in Allah's cause, and so our reward was then surely incumbent on Allah. Some of us died and they did not take anything from their rewards in this world, and amongst them was Mustab bin 'Umar; and the others were those who got their rewards. Mustab bin 'Umar was martyred on the day of the Battle of Uhud and we could get nothing except his Burd to shroud him in. And when we covered his head his feet became bare and vice versa. So the Prophet (ﷺ) ordered us to cover his head only and to put idhkhir (a kind of shrub) over his feet. ________