تشریح:
(1) اس عنوان کا مطلب یہ ہے کہ اگر مصیبت زدہ آدمی اپنے گھر میں صبر سے بیٹھ جائے اور لوگ آ کر تعزیت کرتے رہیں تو یہ جاہلیت والی رسم نہیں ہو گی جو شرعا ممنوع ہے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت جعفر ؓ کی شہادت پر اہل خانہ کی عورتوں کا رونا دھونا حرام کے درجے میں نہیں تھا کیونکہ اگر حرام ہوتا تو رسول اللہ ﷺ مذکورہ آدمی کے علاوہ کسی دوسرے آدمی کو بھیج کر اس کام سے انہیں روکتے، کیونکہ آپ کا باطل کو برداشت کرنا اور اسے ثابت رکھنا محال ہے۔ اور نہ صحابیات ہی کے بارے میں یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ وہ ایک فعل حرام پر اصرار کریں اور بار بار روکنے کے باوجود اس سے باز نہ آئیں۔ اور اس مباح قسم کے رونے سے اس لیے منع کیا جاتا تھا کہ وہ تحریم کے درجے تک نہ پہنچ جائیں۔ (3) حضرت عائشہ ؓ کی دانش مندی اور معاملہ فہمی بھی قابل داد ہے کہ انہوں نے صحیح اندازہ لگایا اور اپنے دل میں کہا کہ یہ شخص بھی عجیب ہے کہ نہ تو رسول اللہ ﷺ کی مرضی پر عمل کرتے ہوئے عورتوں کو سمجھا بھجا کر آہ و بکا سے روکتا ہے اور نہ اس سے باز ہی رہتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو بار بار آ کر اطلاع دے اور پریشان کرے۔